لداخ— لداخ سے تعلق رکھنے والی ماہر تعلیم اور سماجی کارکن سونم وانگچک کی، لداخ کے مسائل کے حل کے لیے بھوک ہڑتال چھٹے روز میں داخل ہو گئی ہے ۔ لداخ بارے بھارتی پولیسیوںکے خلاف سونم وانگچک شدید احتجاج کے طور پر 5 مارچ سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔ وانگچک نے لیہہ کے این ڈی ایس اسٹیڈیم میں اپنی بھوک ہڑتال شروع کی۔
ان کا کہنا ہے کہ جب تک بھارتی حکومت ان کے مطالبات کو پورا نہیں کرتی تب تک وہ بھوک ہڑتال پر رہیں گے۔منفی 16 ڈگری درجہ حرارت کو برداشت کرتے ہوئے، وانگچک اور دیگر مقامی باشندے اس مقصد کے لیے دن اور راتیں کھلے آسمان کے نیچے گزار رہے ہیں۔۔وانگچوک نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ لداخ کی 97 فیصد آبادی مقامی قبائلی برادریوں پر مشتمل ہے۔
اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے وانگچک نے کہا تھا کہ “میں 21 روزہ بھوک ہڑتال پر جا رہا ہوں، جیسا کہ مہاتما گاندھی کی جدوجہد آزادی کے دوران سب سے طویل مدت کے بھوک ہڑتال سے کی تھی۔ میرا مقصد مہاتما گاندھی کے پرامن راستے کی تقلید کرنا ہے، جس میں ہم بغیر کسی سہارے کے خود کو تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد سرکار اور پالیسی سازوں کو فوری طور پر کام کرنے پر مجبور کرتے ہوئے اپنے مقصد کی طرف توجہ دلانا ہے۔
اپنے بھوک ہڑتال کے چوتھے دن وانگچک نے سماجی رابطہ سائٹ ایکس پر ایک ویڈیو بیان میں لداخ کے لیے ریاست کا درجہ دینے سے انکار کی وجہ سے لداخ کے لوگوں میں بڑھتی ہوئی عدم اطمینان کا اظہار کیا بھارتی میڈیا کی توجہ کے لیے وانگچک کی پرجوش درخواست کے باوجود، میڈیا اداروں نے صورتحال کی سنگینی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
وانگچک نے اس خاموشی کو “اعتماد کے ساتھ خیانت اور قوم کے ساتھ خیانت” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میڈیالداخ کے آنے والے بحران کو کم اہم مسائل پر ترجیح دیں۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ “مین اسٹریم میڈیا وسیع پیمانے پر سیما حیدر کو طویل عرصے تک کور کرتا رہا ہے، پھر بھی لداخ میں آنے والے بحران کے بارے میں خاموش ہے۔