یہ کہانی جولائی 2023 میں رپورٹ ہوئی تھی آپ یقینا اس کہانی کی تفصیلات اخبارات ٹی وی اور سوشل میڈیا پر پڑھ چکے ہیں لیکن میں اس کے باوجود آپ کو یہ دوبارہ سناؤں گا۔
ہمارے معاشرے میں اس طرح کی سیکڑوں کہانیاں بکھری پڑی ہیںان میں سے چند ایک خبر بن جاتی ہیں تو معاشرے میں ہلچل مچ جاتی ہے یہ ہلچل پانی کا بلبلہ ثابت ہوتی ہے اور چنددنوں کے بعد ذہنوں سے اوجھل جاتی ہے تاہم یہ خبر ایسی تھی جس نے ہر دل اور احساس رکھنے والے شخص کو جھنجوڑکر رکھ دیا تھالیکن مجھے یقین ہے ہم اب اسے بھول چکے ہوں گے۔
رضوانہ جیسے کیس ہم جیسے لوگوں کے دلوں پر دستک ضرور دیتے ہیں تا کہ ہم اپنے حصے کا دیا جلائیں اور معاشرے سے زیادہ نہ سہی کچھ دکھ کم کر سکیں ۔ ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں یہ تو آپ کالم کے آخر میں پڑھیں گے لیکن پہلے رضوانہ کی کہانی مختصرا دوبارہ پڑھ لیں۔
رضوانہ شمیم بی بی کی پانچویں نمبر کی بیٹی ہے شمیم بی بی اور اس کا شوہر ماہنگا خان سرگودھا میں رہتے ہیں۔ سرگودھا لاری کے پاس شمیم بی بی اور ما ہنگا خان اپنے دس بچوں کی پرورش کے لیے محنت مزدوری کرتے ہیں شمیم بی بی ایک زمین دار کے گھر روزانہ برتن دھو کر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں خاوند کا ہا تھ بٹاتی ہے جب کہ ما ہنگا خان روزانہ بازار جا کر مزدوری کرتا ہے۔
شمیم بی بی زمین دار کے گھر جاتے ہوئے اور ماہنگا بازار جاتے ہوئے لوگوں کے بچوں کو یونیفارم پہنے اسکول جاتے دیکھتے تو دل میں خیال آتا ہمارے بچوں کے نصیب میں ایسا ممکن ہے کہ وہ بھی اسکول جائیں۔
شمیم بی بی نے اس کا تذکرہ اپنے زمین دار مالک سے کیا زمین دار نے شمیم سے کہا اسلام آباد میں میرے ایک جاننے والے صاحب ہیں آپ اپنی ایک بیٹی ان کے ساتھ بھیج دیں وہ اپنے بچوں کے ساتھ اسے پڑھائیں گے اور اپنے گھر پر رکھیں گے بچی گھر میں ان کا چھوٹاموٹا کام کاج کر دیا کرے گی۔
شمیم بی بی نے اپنی پانچویں نمبر کی بیٹی رضوانہ کو زمین دار کے ساتھ اسلام آباد بھیج دیا بچی اسلام آباد آئی تو شمیم بی بی کو ہر ماہ دس ہزار روپے ملنا شروع ہوگئے شمیم بی بی کی کبھی کبھی رضوانہ سے بات بھی ہوجاتی تھی رضوانہ فون پر امی سے واپس گھر آنے پر اصرار کرتی تھی شمیم کو زمین دار نے بتایا اسلام آباد میں ان کے عزیز کہتے ہیں بچی کو واپس لے جائیں وہ وہاں رکنے کے لیے تیار نہیں شمیم بی بی نے ایڈریس معلوم کیا تو اسے بتایا گیا کہ وہ اڈے پرآجائے بچی وہاں اس کے پاس پہنچا دی جائے گی۔
شمیم بی بی بس پر بیٹھ کر اڈے پر پہنچی اور گھنٹے بھر کے انتظار کے بعد ایک کاراس کے پاس آ کر رکی کار کے اندر سے ایک خاتون نے رضوانہ کودھکا دے کر باہر پھینکا اور شمیم سے کہا سنبھالو اپنے گند کو اور پھرخاتون گاڑی لے کر فرار ہو گئی۔ شمیم نے رضوانہ کو اٹھایا توبچی کی چیخیں نکل گئیں رضوانہ کا انگ انگ زخمی تھا زخموں میں کیڑے پڑ چکے تھے اور زخموں سے بدبو آ رہی تھی۔ شمیم بیٹی کو مشکل سے بس میں بٹھا کر واپس سرگودھا کے لیے روانہ ہوگئی۔
بس میں دو ڈاکٹر سوار تھے جنھوں نے صورت حال دیکھی اور بچی کو ابتدائی طبی امداد دی۔ بعدازاں بچی کو سرگودھا اسپتال میں داخل کر دیا گیا اور پھر جنرل اسپتال لاہور منتقل کر دیا گیا۔ اس بچی کو 7ماہ تک تشدد کا نشانہ بنایا گیاتھا اس کی انگلیاں اور پسلیاں توڑ دی گئیں اس کو سونے کے لیے کوٹھی کے برآمدے میں جگہ دی گئی اور 7ماہ کے بعد نیم مردہ حالت میں والدہ کے حوالے کر کے کہا گیا سنبھالو اپنے گند کو۔ایک کہانی یہ ہے اور آپ اب ایک اور کہانی بھی پڑھیے۔
یہ کہانی ایمان سلیم کی ہے ایمان سلیم کے والد فوت ہو جاتے ہیں ایمان کی عمر 9سال جب کہ اس سے ایک بڑی اور ایک چھوٹی بہن بالترتیب 11اور 6سال کی تھیں۔ ایمان کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ والدہ کے کندھوں پرتین بچیوں کی پرورش کا بوجھ پڑتا ہے۔ والدہ محنت مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پالنے کی کوشش کرتی ہے لیکن جب یہ بھی ممکن نہیں رہتا تو یہ بچیوں کو لے کر اپنے والد کے پاس چلی جاتی ہے۔ وہ انھیں اپنے مکان کا ایک کمرہ دیتے ہیں۔
ایمان کی والدہ بھی یونیفارم پہنے بچوں کو دیکھتی ہیں تو اس کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی ہے کیا میری ایمان بھی پڑھ سکتی ہے۔ بچیوں کی والدہ کو ایک ادارے ریڈ فاؤنڈیشن کا بتایا جاتا ہے جہاں تعلیم کے ساتھ تعلیمی ضروریات کی فراہمی مفت ہوتی تھی۔ ایمان کی والدہ نے اسے اس ادارے میں داخل کروادیا۔
ایمان محنتی بچی تھی اساتذہ محبت کرنے والے اور حوصلہ بڑھانے والے تھے۔ وہ پڑھتی رہی اور آگے بڑھتی رہی اور میٹرک کے امتحان میں بورڈ میں 20ویں پوزیشن حاصل کر لی اب ایمان پورے اعتماد سے ڈاکٹر بننے کی جانب گامزن ہے اوراگلے سال وہ میڈیکل کی طالبہ ہو گی۔
رضوانہ اور ایمان کے حالات ایک جیسے تھے۔ دونوں کے خواب بھی ایک جیسے تھے بس فرق یہ تھا کہ رضوانہ غلط ہاتھوں میں چلی گئی اور یوں نہ صرف اس کے خواب چکنا چور ہو گئے بلکہ زندگی کی سانس بھی ختم ہوتے ہوتے رہ گئی جب کہ ایمان محفوظ ہاتھوں میں درد رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں چلی گئی اور خوابوں کی تکمیل کے لیے سفر پر گامزن ہو گئی۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے پاکستان میں 2کروڑ اسی لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں جن میں ایمان سلیم جیسے 46لاکھ یتیم بچے بھی شامل ہیں۔ ان سب بچوں کی زندگی رسک پر ہے اور یہ آیندہ سالوں میں رضوانہ کا روپ دھار کر چائلڈ لیبر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ان کے خوابوں کو کچل دیا جائے گا اور کسی کی خبر آئے گی اور کوئی خبر سے بھی محروم رہے گا۔
دوسری صورت میں ممکن ہے کچھ ایمان کے روپ میں جگمگائیں گے۔ رضوانہ کو ایمان کا روپ دینے میں پاکستان میں کئی ادارے افراد اور تنظیمیں اپنے حصے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان اداروں میں ایک ادارہ ریڈ(READ) فاؤنڈیشن بھی ہے۔ میں رضا کارانہ طور پر اس ادارے سے گزشتہ کئی سالوں سے منسلک ہوں۔ میں نے اپنے گاؤں میں رضوانہ جیسی بچیوں کی زندگی بچانے کے لیے ریڈ فاؤنڈیشن کی مدد سے اسکول بنوایا اور اس اسکول میں چند ماہ میں اڑھائی سو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
فاؤنڈیشن کے 400تعلیمی اداروں میں سوا لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ان میں بے شمار بچے رضوانہ جیسے بھی ہیں رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اس مہینے کو ایثار اور قربانی کا مہینہ کہا گیا ہے نیکی کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ مسلمان رمضان میں اپنی زکوت دیتے ہیں۔ فطرانہ اور عطیات کے ذریعے خلق خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ یہ عطیات اگر غریب نادار اور یتیم بچوں کی کفالت کے لیے خرچ ہوں تو رضوانہ جیسی کئی بچیاں بچ سکتی ہیں اور یہ ایمان کی طرح اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکتی ہیں۔
آپ اگر دل رکھتے ہیں اور اگر احساس کی ڈوری سے بندھے ہوے ہیں تو ریڈ فاؤنڈیشن کے ساتھ جڑ جائیں اور آپ ایمان سلیم جیسی بے شمار بچیوں اور بچوں کا مقدر بدل دیں گے۔ آپ ضرورت سے زیادہ زمین فاؤنڈیشن کے نام عطیہ کرسکتے ہیں آپ کے پاس اگر ضرورت سے زیادہ عمارت یا کوٹھی ہے تو آپ یہ ان لوگوں کے حوالے کرسکتے ہیں۔ فاؤنڈیشن آپ کے دیے گئے عطیے کو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے گی۔
اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو فاؤنڈیشن کے 13000یتیم بچوں میں سے کسی ایک بچے کو صرف 48000روپے سالانہ یعنی صرف 4ہزار روپے ماہانہ دے کر اسے رضوانہ بننے سے بچائیں اگر اللہ نے آپ کو عطا کر رکھا ہے تو آپ ایک سے زیادہ بچوں کی کفالت کا ذمے لے سکتے ہیں۔ فاؤنڈیشن آپ کو آپ کے زیر کفالت بچوں کی مکمل تفصیلات فراہم کرے گی اور ہر سال آپ کو ان کی پراگریس سے بھی آگاہ کرے گی۔ اگر آپ یتیم بچوں کے لیے قائم پول فنڈ میں اپنی زکو صدقہ یا فطرہ دینا چاہیں تو رقم کی کوئی قید نہیں۔
آپ اپنی استطاعت کے مطابق اس کار خیر میں حصہ لے سکتے ہیں۔میں فاؤنڈیشن سے رابطے کے لیے ان کے رابطہ نمبرز اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات درج کر رہا ہوں۔ آپ عطیات زکو و صدقات کی رقم ان اکانٹس میں جمع کروا کر فاؤنڈیشن کے نمایندے سے رابطہ کریں۔ وہ آپ کو فاؤنڈیشن اور بچے کی مکمل تفصیلات اور رقم کی رسید ارسال کریںگے۔آپ یقین رکھیں آپ کی رقم ضایع نہیں ہو گی۔
اکاؤنٹ نمبرز: فیصل بینک:اکاؤنٹ ٹائٹل:
READ FOUNDATION
اکاؤنٹ نمبر:3048308900031361
انٹرنیشنل بینک اکاؤنٹ نمبر:
PK21FAYS304830890003161
سوفٹ کوڈ: FAYSPKKA
بینک برانچ: گراؤنڈ فلور، گرینڈ جور پلازہ، مین کری روڈ، اسلام آبادمیزان بینک: اکاؤنٹ ٹائٹل:
READ FOUNDATION
اکاؤنٹ نمبر:0 3 0 3 0 1 0 0 2 3 5 7 8 8
انٹرنیشنل بینک اکاؤنٹ نمبر:
PK57MEZN0003030100235788
سوفٹ کوڈ: MEZNPKKA
بینک برانچ: F-7 مرکز، جناح سپر مارکیٹ، اسلام آباد،رابطہ نمبرز:
موبائل نمبر: +92 (0) 314 5025 767
واٹس ایپ: +92 (0) 334 9272 523
ای میل ایڈریس:
sponsor@readfoundation.org
ویب سائٹ:
www.readfoundation.org
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس