اسلام آباد(صباح نیوز) کشمیری رہنماڈاکٹر ایوب ٹھاکر کی یاد میںانسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں ہونے والے سمینار میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کی آزادی، پاکستان کے ساتھ اس کی وابستگی اور اسلام کی عظمت ایک حقیقت کے تین پہلو ہیں، جن کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ یہ ڈاکٹر محمد ایوب ٹھاکر کا ویژن ہی تھا جس کے اثرات کشمیر کی تحریک کو عالمی سطح پر مضبوط بنانے میں کسی بھی فرد یا گروہی کوشش سے زیادہ گہرے رہے ہیں۔
یہ بات معروف سیاست دان، ماہر معاشیات اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے سرپرستِ اعلی پروفیسر خورشید احمد نے کشمیری سیاسی کارکن اور لندن میں ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ (ڈبلیو کے ایف ایم)کے بانی ڈاکٹر ایوب ٹھاکر کی یاد میں 10 مارچ کو ہونے والی ان کی بیسویں برسی کے موقع پر کہی۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی کی اس نمایاں شخصیت کو یاد کرنے کی غرض سے ‘کشمیر اور عالمی ضمیر: ڈاکٹر ایوب ٹھاکر کی زندگی اور خدمات کی روشنی میں ایک بحث’ کے عنوان سے آئی پی ایس میں ایک ہائبرڈ سیمینار منعقد کیا گیا۔
اس سیمینار سے سکالرز اور ماہرین کے ایک معروف گروپ نے خطاب کیا جس میں چیرمین آئی پی ایس خالد رحمن، صدر ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ اور مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر کے صاحبزادے مزمل ایوب ٹھاکر ، مورخ اور مصنف وکٹوریہ شوفیلڈ، ، کنوینر برائے تحریکِ حریت جموں و کشمیر غلام محمد صفی، ڈائریکٹر لیگل فورم فار کشمیر ایڈووکیٹ ناصر قادری، جماعتِ اسلامی آزاد جموں و کشمیر کے رہنما عبدالرشید ترابی، آل پارٹیز حریت کانفرنس کے آزاد جموں کشمیر چیپٹر کے کنوینیر محمود احمد ساغر، سیکرٹری جنرل ورلڈ کشمیر اویئرنس فورم (ڈبلیو کے اے ایف) ڈاکٹر غلام نبی فائی، صدر ڈبلیو کے اے ایف ڈاکٹر غلام احمد میر اور آئی پی ایس کے ایڈوائزر ریسرچ اینڈ اکیڈمک آٹ ریچ پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام شامل تھے۔ ایوب ٹھاکر کو بصیرت افروز رہنما کے طور پر سراہتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد نے روشنی ڈالی کہ انہوں نے نہ صرف مسلم کمیونٹی کو متحرک کیا بلکہ سیاسی، سفارتی اور علمی حلقوں میں عالمی سطح پر کشمیر کاز کی نمائندگی کی۔ ڈاکٹر ٹھاکر نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگی دنیا بھر کی مظلوم برادریوں خصوصا مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے جدوجہد کے لیے وقف کردی۔ کشمیری عوام میں امید پیدا کرنے کے علاوہ، ان کا کام آزادی اور انصاف کی لڑائی میں لچک اور عزم کے جذبے کو ابھارتا ہے۔ اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے والے مزمل ٹھاکر نے کہا کہ بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر مسلم شناخت کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے تحریک کے پیغام کو مثر طریقے سے پہنچانا ضروری ہے۔
ایوب ٹھاکر کے آخری ٹیلی ویژن پیغام کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کشمیر کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے اگلی نسل کی پرورش پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے جدوجہدِ آزادی کے تسلسل پر دوبارہ توجہ مرکوز کی جائے اور حکمت عملی بنائی جائے۔ وکٹوریہ شوفیلڈ نے زور دے کر کہا کہ کشمیر کی تحریک کی طاقت بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس کی پہچان اور سمجھ بوجھ میں مضمر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹھاکر اس کوشش میں کلیدی شراکت دار تھے کیونکہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو عالمی سطح پر اجاگر کیا اور اسے عالمی برادری کے ضمیر کے سامنے لائے۔ اسلام، پاکستان اور کشمیر کے مشن کے لیے ٹھاکر کی انتھک کوششوں کی عکاسی کرتے ہوئے غلام محمد صفی نے ان کے عالمی اسکالرز پر اثر انداز ہونے کی طرف توجہ دلائی ، جنہوں نے ان کی وجہ سے کشمیر کا حقیقی تناظر پیش کرنا شروع کیا۔ تاہم، ناصر قادری نے کہا کہ موجودہ چیلنجز ایک مضبوط موقف کا تقاضا کرتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے انہوں نے قیادت کی کوششوں میں فیصلہ کن انداز اور مستقل مزاجی پر زور دیا۔
اسی طرح، محمود ساغر نے محض بیان بازی سے بالاتر ہو کر بھرپور اور ٹھوس سفارتی کوششوں کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ اس نظریے کی تائید کرتے ہوئے راشد ترابی نے کہا کہ ٹھاکر جیسے لیڈروں کی کوششوں اور مشن کو پیش کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ایک اجتماعی فرض ہے۔ مشن کو منطقی اور منصفانہ انجام تک پہنچانے کے لیے اسے ہر سطح پر ہدفی نقطہ نظر کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ غلام احمد میر نے کہا کہ کشمیر کی تحریک کو بااثر حلقوں نے پست کر دیا ہے، اور کشمیر اور فلسطین کی آواز کو برقرار رکھنے کی مزید ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی لڑائی ان کے حق خودارادیت اور انسانی حقوق کے لیے ہے۔ غلام نبی فائی نے ٹھاکر کو ایک بصیرت اور اصول پسند رہنما کے طور پر سراہتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر کشمیر کی تحریک کی تنظیموں کے قیام میں ان کے اہم کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے تارکین وطن کو متحرک کرنے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ٹھاکر کے عزم پر قائم رہنے پر زور دیا۔
اختتامی کلمات میں خالد رحمان نے اقوام متحدہ میں بار بار ویٹو کیے جانے کے باوجود فلسطین جیسی آزادی کی جدوجہد کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت کو نوٹ کرتے ہوئے عالمی ضمیر کی تشکیل میں دو اہم عوامل کی اہمیت پر روشنی ڈالی: سڑکوں پر ہونے والے مظاہرے اور اس میں بین الاقوامی شرکت کی سطح۔ انہوں نے عالمی گورننس کی سطح پر کوششوں کو تیز کرنے کے لیے ان عوامل کو سمجھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے پاکستان کے کردار کا از سرِ نو جائزہ لینے پر بھی اصرار کیا اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے نئی توجہ اور توانائی کی ضرورت پر زور دیا۔