سری نگر:خواتین کے عالمی دن پر ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوںنے جنوری 2001سے اب تک کم از کم685خواتین کو شہید کر دیا جبکہ 33 سالوں میں11ہزار 2سو63خواتین کو بے حرمتی اور آبرو ریزی کا نشانہ بنایا گیا۔
دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا تاہم بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی فوجیوں ،پولیس اہلکاروںاور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کشمیر ی خواتین کو نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اوروہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں ۔
کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحیقق کی طرف سے آج خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989سے اب تک بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے 96ہزار2سو90شہریوں کو شہید کیا جن میں ہزاروں خواتین شامل ہیں ۔ بھارتی فوجیوںنے جنوری 2001سے اب تک کم از کم685خواتین کو شہید کیا۔رپورٹ میں کیاگیا ہے کہ بھارت کی جاری ریاستی دہشت گردی کے دوران 22ہزار 9سو 73
خواتین بیوہ ہوئی ہیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے11ہزار 2سو63خواتین کو بے حرمتی اور آبرو ریزی کا نشانہ بنایا ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کنن پوشپورہ اجتماعی عصمت دری، شوپیاں کی سترہ سالہ آسیہ جان اور اس کی بھابھی نیلو فر کی اجتماعی آبروریزی اور قتل اور کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کا اغوا، اجتماعی آبروریزی اور قتل کے المناک واقعات بھارتی فوجیوں کی طرف سے مقبوضہ علاقے میں خواتین پر مظالم کی واضح مثالیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروںنے ہزاروں خواتین کے بیٹوں، شوہروں اوربھائیوںکو حراست کے دوران لاپتہ اورقتل کر دیا ہے ۔دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم کے مطابق گزشتہ34برس کے دوران 8ہزار سے زائد کشمیریوںکو دوران حراست لاپتہ کردیاہے ۔ لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پرنٹس ڈس اپیڈ پرسنز (اے پی ڈی پی ) کے مطابق گزشتہ 35برس میں 8ہزار سے زائد کشمیری بھارتی فورسز کی حراست میں لاپتہ ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ بھارتی فورسز کی طرف سے پر امن مظاہرین پر پیلٹ چھروں کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے ہزاروں طلبہ وطالبات زخمی ہوئے ہیں جبکہ آنکھوں میں پیلٹ چھرے لگنے کی وجہ سے 19ماہ کی شیر خوار بچی حبہ جان، 2 سالہ نصرت جان ، 17 سالہ الفت حمید ، انشا مشتاق، 17سالہ عفرہ شکور ، شکیلہ بانو،11سالہ تمنا،16سالہ شبروزہ میر،35سالہ شکیلہ بیگم اور31سالہ رافعہ بانو سمیت سینکڑوں بچے اور بچیاں اپنی آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں ۔10جولائی 2016کو سرینگر کے علاقے قمر واری میں بھارتی پولیس نے 4 سالہ زہرہ مجید کوپیلٹ گنسے نشانہ بنایا جس سے اس کے پیٹ اور ٹانگوں پر زخم آئے ۔ جولائی2021 میں بھارتی پولیس کے ایک کانسٹیبل اور ایس اپی او نے جموں کے علاقے ڈنسل میں ایک نابالغ دلت بچی کی اجتماعی آبروریزی کی ۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حریت رہنماؤں اور کارکنوں آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، انشاطارق شاہ، صائمہ اختر، شازیہ اختر، افروزہ، عائشہ مشتاق، حنا بشیر بیگ، نصرت جان، شبروزہ بانو اور آسیہ بانو سمیت تین درجن سے زائد خواتین مقبوضہ جموںوکشمیر اور بھارتی جیلوںمیں غیر قانونی طور پر بندہیں۔انہیں حق خود ارادیت کے مطالبے کی پاداش میںنشانہ بنایا جا رہا ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کشمیری خواتین مسلسل بھارتی جبر کی وجہ سے متعدد نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ہزاروں جبری گمشدگیوں کی وجہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد مسلسل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں ۔ انہیں اپنے شوہروں کے بارے میں کچھ علم نہیں کہآیا وہ زندہ ہیں یا شہید کیے جاچکے ہیں اور یہ خواتین آدھی بیواں کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔کئی مائیں اپنے لاپتہ بیٹوں کے انتظار میں دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔