فیک نیوز: ٹاؤٹ اور جعلی صحافی : تحریر نوید چوہدری


سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا مطلب خود کو فنا کی گھاٹیوں کی جانب دھکیلنا ہے۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا اب ہر شعبے کی بنیاد بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں اس کا استعمال طریقے سلیقے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے جہاں اور کئی پہاڑ جیسی غلطیاں کیں وہیں سوشل میڈیا کو بھی اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ناپسندیدہ افراد پر الزامات لگانے، شور وغوغے اور افراتفری مچانے کا آلہ بنا کر رکھ دیا۔ انفارمیشن کے میدان میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہمیشہ سے رہی ہے۔ پرنٹ میڈیا (اخبارات) میں چند مخصوص صحافیوں کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں اور تحریروں کو پڑھ کر پتہ چل جاتا تھا کہ مقتدر حلقوں کا موڈ کیا۔ ایسا بھی ہوتا رہا کہ کسی ایک بڑے اخبار کو گائیڈ لائنز دے کر ڈیوٹی سونپی جاتی۔ وہاں حکومت کے خلاف بڑی بڑی خبریں لگتیں، دیگر اخبارات کا بڑا حصہ متوازن رپورٹنگ کے ذریعے دونوں فریقوں کے موقف شائع کرتا رہتا تھا۔ یوں پوری کی پوری اخباری صنعت کبھی اس بھیڑ چال کا شکار نہیں ہوئی۔ چینلوں کا دور آیا تو خبر جلدخبر بریک کرنے کے چکر میں غلطیوں پر غلطیاں ہونے لگیں۔ معاشرے کو روشن خیال اعتدال پسندی کا نمونہ بنانے کے لیے ایک ایجنڈے کے تحت پروگرام ترتیب دئیے گئے۔ فارن فنڈنگ بھی آنے لگی۔ اس سے قبل لوگ شام اور رات کو ٹی وی صرف تفریح کے لیے دیکھا کرتے تھے۔ سنسنی سے پاک خبروں کے چند بلیٹن کافی ہوتے تھے مگر ریٹنگ کی حرص نے ٹاک شوز کو ایکشن ڈراموں والا درجہ دے دیا۔ چند ٹاک شوز سنجیدہ اور معلوماتی رہے مگر اکثر کہیں اور سے ملنے والی ہدایات کے تحت معاشرے کو ہیجان میں مبتلا رکھنے کا کھیل کھیلتے رہے۔ معاشرہ اس لیے بچا رہا ہے کہ کچھ چینل حقیقی آزادی صحافت پر سمجھوتہ کرنے پر تیار نہ تھے حالانکہ اس دوران ٹاؤٹ صحافیوں سمیت بہت بڑی تعداد میں غیر صحافی خواتین و حضرات کو اینکر بنا کر پروگرام دلوائے جاچکے تھے۔ سینئر تجزیہ کارکا سرکاری ٹھپہ نہ صرف جاہل اور غیر متعلقہ لوگوں پر لگایا گیا بلکہ ریٹائر وں کا ریوڑ بھی میڈیا میں چھوڑا جا چکا تھا۔ سوشل میڈیا کا آغاز پراجیکٹ عمران کے ساتھ ہی ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ نے روز اول ہی سے مکمل طور کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا۔سچ بولنے والی آوازوں کو طاقت سے دبا کر اپنے نمونیمتعارف کرائے جو ڈی جی آئی ایس پی آر سمیت بڑے بڑے فوجی افسروں کے ساتھ ان کے دفاتر میں تصویریں بنا کر پوسٹ کرتے تھے۔آرمی چیف جنرل باجوہ کی ذہنی سطح کا یہ عالم دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی کہ وہ ایک ایسے بندے کا وی لاگ سنتے ہیں جس کے صحافت میں تجربے کا تو کسی کو علم نہیں تھا لیکن یہ سب جانتے تھے کہ اسے باجوہ صاحب کے ادارے کا ہی کوئی معمولی ملازم مواد فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح کی چیزیں چھوڑ کر معاشرے کا تانا بانا ادھیڑ دیا گیا۔ اوسط درجے کے پالتو رپورٹروں کو یوٹیوب چینل بنا کر دئیے گئے اور منظم پلاننگ کے تحت لاکھوں کی تعداد میں سبسکرائبر فراہم کئے گئے۔ یوں جھوٹ اور شر پھیلانے والوں پر ڈالروں کی برسات بھی ہونے لگی۔ اس وقت جتنے بھی یو ٹیوبرز ریاست پاکستان کے درپے ہیں وہ سب کے سب ہماری ہی ایجنسیوں کی پیداوار ہیں۔ کمال بات ہے کہ جس وقت یہ تمام گند پیدا کیا جا رہا تھا عین اس وقت پیشہ ور صحافیوں نے اداروں کو خبردار کیا کہ جو کیچڑ اچھالا جارہا ہے اس کے چھینٹے آپ پر بھی گر سکتے ہیں۔ مشورہ یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ آپ کو ریاست کی طاقت کا علم نہیں (یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس دور میں میڈیا ہاسز کے سینئر سٹاف کو طلب کرکے کہا جا رہا تھا کہ حکمران شخصیات سمیت مخصوص سیاستدانوں کو بدنام کریں، جو چاہیں بولیں، ہم دیکھ لیں گے) بعد میں جب خدشات کے عین مطابق اسی غلاظت کا رخ سکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں کی جانب ہوگیا تو ایک اعلی افسر نے یہ کہہ کر فاش غلطی تسلیم کرلی کہ ہم سے بہت بڑی بھول ہوئی جو ایک شخص (عمران خان) کو مسیحا ثابت کرنے کے لیے باقی تمام سیاستدانوں کو بدنام کرکے رکھ دیا لیکن جائزہ لینا پڑے گا کہ غلطی تسلیم کرنے کا بیان کس حد تک سنجیدہ ہے؟ نو مئی کے بعد سے سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اپنی جگہ لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ مین سٹریم میڈیا (ٹی وی چینلوں) وہ کون سی طاقت تھی جو عسکری تنصیبات پر حملوں کو الٹا فوجی قیادت کی سازش ثابت کرنے کے لیے سہولت کاری کررہی ہے۔ اس سیاہ دن سے آج تک کئی میڈیا پرسنز از خود اور کئی پی ٹی آئی کے حامیوں کو سکرینوں پر لاکر عمران خان کو معصوم اور مظلوم بناتے آ رہے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیں کہ عدالتیں آپ کے کنٹرول میں نہیں رہیں تو یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ بعض کاروباری میڈیا مالکان یہ دیکھے بغیر کہ سامنے کون ہے انقلاب کے جنون میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف جو مہم ملک کے اندر چلائی جارہی ہے اسکے پیچھے کون ہے۔ یہ فیصل واوڈا کس کے کہنے پر ہر چینل پر بیٹھ کر دھواں دھار بھاشن دے رہا ہوتا ہے اور کسی مافیا ڈان کی طرح فیصلے جاری کرتا ہے کہ فلاں کے پاس اتنا وقت رہ گیا، اس کے بعد فلاں بھی جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ ساری بساط خود فیصلہ ساز حلقوں نے نہیں بچھائی اور کھیل ان کے کنٹرول کے باہر ہو چکا ہے تو ان کھلاڑیوں کو ریٹائرمنٹ لے کر عزت سے الگ ہو جانا چاہیے۔ پاکستان کو تجربہ گاہ بنائے رکھنے کا سلسلہ روکنا ہوگا۔ اس کے بعد جو آئے دیکھا جائے گا۔قوم کے مقدر میں جو لکھا وہ خود بھگت لے گی۔ملک کو عالمی سازشوں اور ٹوٹنے سے بچانا ہے تو قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا ہو گا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا امریکہ، کینیڈا، یورپ، بھارت سے لے کر روس، چین، ایران، سعودی عرب اور جاپان تک کہیں بھی مادر پدر آزاد نہیں۔ پاکستان میں جس کا دل چاہتا ہے یو ٹیوب یا دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر انٹ شنٹ بکنا شروع کردیتا ہے۔ جو جتنا جھوٹ بولے افراتفری اور انتشار پیدا کرئے اسے اتنی ہی مقبولیت ملتی ہے ساتھ ہی ڈالروں کی آمد بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ عناصر کیوں چاہیں کہ پاکستان میں امن ہو اور استحکام آئے؟ اندازہ کریں ایک یو ٹیوبر کہتا ہے فلاں معاملے پر چیف جسٹس کی فلاں پارٹی سے ڈیل ہوگئی، کوئی کہتا ہے کہ ٹاپ جنرل جیل جاکر کسی قیدی سے ملا۔ دنیا کے کسی اور ملک میں ادروں کے سربراہوں کے متعلق ایسی گفتگو کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا بلکہ کوئی بڑے سے بڑا طرم خان میڈیا یا سوشل میڈیا کی آڑ لے کر کسی عام شہری کے خلاف بھی بلا ثبوت بات نہیں کرسکتا۔ یہ مذاق بھی پاکستان میں ہے کہ ایسے گمراہ عناصر کو پکڑا جائے آزادی صحافت اور انسانی حقوق کے نعرے لگانے والوں کو مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ طویل عرصے سے کہا جارہا ہے کہ بے لگام سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کیا جا ئے گا۔سنا ہے کہ ہمارے دو عددبڑے افسر چین جاکر ان کے سوشل میڈیا ماڈل کا جائزہ لے رہے ہیں۔ پانی سر تک آچکا، بات جائزے تک ہی رہی تو سب کچھ ڈوب بھی سکتا ہے۔ عام لوگ نو مئی کے مجرموں کو سزائیں نہ ملنے کے حوالے سے کیا سوچ رکھتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے اس بیان پر عوامی ردعمل سے ظاہر ہوتی جس میں پھر کہا گیا ہے کہ نو مئی میں ملوث ماسٹر مائنڈ، سہولت کاروں اور حملہ آوروں کو کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔ اکتائے ہوئے لوگ کہہ رہے ہیں سر بیانات نہ دیں اب کچھ کرکے دکھائیں۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات