عزت مآب چیف جسٹس صاحب! ملک میں عدل کے سب سے بڑے عہدے پر آپ کے فائز ہونے سے جن طبقوں نے عدالت عظمی سے انصاف ملنے کی بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں، ان میں ایک طبقہ ریٹائرڈ سول سرونٹس کا بھی ہے ۔
تیس پینتس سال رزق حلال سے بمشکل اپنے کنبے کی پرورش کرنے کے بعد ریٹائرڈ سول سرونٹس میں اسلام آباد، کراچی یا لاہور میں اپنا مکان تعمیر کرنے کی سکت نہیں ہوتی، اس لیے رٹائرمنٹ پر ان کا ہاتھ تھامنا حکومت کا فرض ہوتا ہے۔
آرمڈ فورسز میں ڈسپلن اور ویلفیئر کے پہلو بڑے روشن اور دوسروں کے لیے قابل تقلید ہیں۔ اپنے ملازمین کی ویلفیئر کے کام کرنا قابل تعریف ہے بلکہ حکومت کا فرض بھی ہے۔
ہر رینک کے آرمی افسر بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے یہ پریشانی رہتی تھی ہم ریٹائرمنٹ کے بعد بچوں کے ساتھ کہاں سر چھپائیں گے، سامان رکھنے کے لیے کون سی چھت ڈھونڈیں گے، مگر ریٹائرمنٹ پر مکان کی فراہمی نے ہمیں ان پریشانیوں اور اندیشوں سے آزاد کردیا اور ہم مشکل ترین محاذوں اور خطرناک ترین چوکیوں پربھی پورے اطمینان قلب (peace of mind) کے ساتھ دفاع وطن کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
دنیا بھرمیں سول سرونٹس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے حکومتیں ان کی ویلفیئر کے لیے مختلف اسکیمیں بناتی ہیں۔
پاکستان میں بھی وفاقی ملازمین کی رٹائرمنٹ پر ان کی رہائشی ضروریات پوری کرنے کا احساس ہوا تو فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاونڈیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ اس نے مختلف جگہوں پر نجی مالکان سے زمین خرید کر اپنے ممبر ریٹائرڈ وفاقی ملازمین کو پلاٹ بھی الاٹ کیے، اور مکان بھی تعمیر کرکے دیے ہیں، جن پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا۔
کچھ بیوروکریٹوں نے اپنی لامحدود ہوس کے باعث ایک پلاٹ پر صبر نہ کیا اور حکمرانوں سے ایک اور پلاٹ کی بخشیش لے لی یعنی کچھ افسران کو دو اور کچھ حقداروں کو ایک پلاٹ بھی نہ ملا۔ لہذا معاملہ عدالتوں میں چلا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے رٹائرمنٹ پر وفاق کے سول ملازمین کو پلاٹ الاٹ کرنے کے اقدام کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔
٭ میڈیارپورٹوں سے یہ تاثر پھیلایا گیا کہ بیوروکریٹس اپنے اثرورسوخ سے سرکاری زمینوں پر قبضہ کررہے تھے حالانکہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے ۔
ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نے پرائیوٹ مالکان سے منہ مانگی قیمت ادا کرکے زمین خریدی اور وہاں ریٹائرڈ ملازمین کو پلاٹ الاٹ کیے گئے۔ متاثرین اور فاؤنڈیشن نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی، جسے منظور کرلیا گیا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے بعد فانڈیشن نے ریٹائرڈ ملازمین کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف 14/15 میں پلاٹ الاٹ کردیے۔
دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہی کیس دوبارہtake up ہوا اور پلاٹ الاٹ کرنے کا اقدام ایک بار پھرکالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف متاثرین نے ایک بار پھر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
اس پر جسٹس منیب اختر صاحب کی سربراہی میں تین رکنی بیچ تشکیل پایا، اور سب کا موقف سنا گیا۔ مگر تعطیلات کے باعث دلائل مکمل نہ ہوسکے۔ وکلا کا کہنا ہے کہ اگر تھوڑا سا مزید وقت مل جاتا تو تمام پارٹیوں کے دلائل مکمل ہوجاتے اور فیصلہ بھی سنادیا جاتا۔ بہرحال اب اس اپیل کی سماعت تاخیر کا شکار ہوگئی ہے۔
فیڈرل گورنمٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نے سول سرونٹس سے آج سے دس سال پہلے تیس تیس لاکھ روپے وصول کیے تھے اور انھیں ریٹائرمنٹ پر پلاٹ دینے کا وعدہ کیا تھا، اور اس ضمن میں الاٹمنٹ لیٹر بھی جاری کردیے تھے۔
الائمنٹ کی صورت میں الاٹیز کو کل اسی لاکھ روپے ادا کرنے تھے۔ دس سال پہلے تیس تیس لاکھ روپے جمع کرا کے صرف ایک کنال کے پلاٹ کا خواب دیکھتے دیکھتے بہت سے ایماندار سول سرونٹس جان سے ہار گئے اور بہت سے صدمے سے دل کے عارضے اور دوسری بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ بھی مختلف قسم کی سماجی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
آرمی ، عدلیہ، سینیٹ، پولیس، ریونیو ، میڈیا اور بیسیوں دیگر سرکاری و غیرسرکاری اداروں نے اپنے ملازمین کو پلاٹ یا مکان دینے کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کی ہیں جہاں وہ انھیں پلاٹ دے رہی ہیں۔ اگر ان پر کوئی قدغن نہیں تو پرائیوٹ مالکان سے زمین خرید کر رٹائر وفاقی ملازمین کوقیمتا پلاٹ دینا کس طرح غلط ہوسکتا ہے؟
سروس کے اختتام پر مکان یا پلاٹ کی فراہمی ایک دیانتدار سول سرونٹ کے لیے بہت بڑا سہارا ہوتی ہے، مجھ سمیت کئی رٹائرڈ افسر، سول سروس میں آنے والے نوجوان افسروں کو رزقِ حلال کھانے کی تلقین کے دوران بتایا جاتا تھا کہ آپ فکر مند نہ ہوں، ریاست خود آپ کی ویلفیئر کا خیال رکھے گی، اور آپ کو بھی ریٹائرمنٹ پر مکان یا پلاٹ ملے گا۔ ایماندار سول سرونٹس کو اس incentive سے محروم کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔
میں بہت سے ایسے سول سرونٹس کو جانتا ہوں جنھوں نے پوری سروس میں صرف رزق حلال کھاکر ایمان اور ضمیر کے مطابق ملک کی خدمت کی ہے، مگر ان کے پاس کوئی مکان یا پلاٹ نہیں ہے۔کئی سالوں کے انتظار کے بعد انھیں ایک پلاٹ ملاتھا، جو مقدمات میں پھنسا ہوا ہے ۔
اب ان کے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ نہیں اور پلاٹ خود خریدنے کی ان میں سکت نہیں ہے۔ اگر ایک باضمیر سول سرونٹ تیس پینتیس سال کی خدمات کے بعد اسی لاکھ ادا کرکے ایک کنال زمین خریدتا ہے تو یہ ریاست کا اس پرکونسا احسان ہے ؟
پلاٹ مفت میں تو نہیں لیے گئے ۔آج سے دس سال پہلے جمع کرائے گئے تیس لاکھ روپے کی ویلیو آج پندرہ لاکھ سے بھی کم ہوچکی ہے مگر پلاٹ نہ دینے کی صورت میں حکومت تمام ممبران کو ان کی اصل رقم (تیس لاکھ روپے ) بھی لوٹانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران حکومت کو نئی پالیسی بنانے کی ہدایات دی تھیں جس کے نتیجے میں پچھلی دونوں حکومتوں کی وفاقی کابینہ نے پالیسی اصول طے کرکے عدالت عظمی کو آگاہ کردیا تھا کہ (1) ہر رٹائر ہونے والے سول سرونٹ کو دو نہیں صرف ایک پلاٹ ملے گا اور (2) استحقاق کا تعین ریٹائرمنٹ کی عمر کے مطابق کیا جائے گا ۔
محترم چیف جسٹس صاحب! ہم نے آپ جیسے جیورسٹس سے ہی سن رکھا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے متراف ہوتی ہے، اس کیس میں تو تاخیر انتہائی مہلک ثابت ہوئی ہے۔
سیکڑوں سول سرونٹس اور ان کے اہلِ خانہ پچھلے کئی سالوں سے انصاف کے انتظار میں ایڑیوں پر کھڑے ہیں۔ وہ ہر جمعہ کو معلوم کرتے ہیں کہ اگلے ہفتے کی کاز لسٹ میں ان کی اپیل سننے کے لیے بھی بنچ بنا ہے کہ نہیں۔ نہیں کا لفظ سن کر ان کی آس ٹوٹ جاتی ہے اور وہ پھر اگلے جمعہ کا انتظار شروع کردیتے ہیں۔
آپ سے گزارش ہے کہ جس تین رکنی بنچ نے اپیل کے پچانوے فیصد سے زیادہ دلائل سن لیے ہیں، وہی بنچ بنادیا جائے تاکہ ایک دو روز میں باقی ماندہ دلائل سن کر فیصلہ سنادیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس