تین جماعتیں تین کہانیاں : تحریر مظہر عباس


پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے عروج اور زوال کی اپنی اپنی ’کہانی‘ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں کے ہی تعلقات کسی نہ کسی مرحلے پر طاقتوں ’ اسٹیبلشمنٹ ‘ کے ساتھ کشیدہ ہوئے جوان کی حکومتوں کے ’ خاتمہ‘ کا باعث بنے۔ لہذا کم ازکم اس نکتہ پر تو ان کا دکھ مشترکہ ہے اور یہی آج کا سب سے اہم سوال ہے کہ آنے والے الیکشن میں کیا ان کے منشور میں ’سول ۔ملٹری‘ تعلقات کا کوئی واضح چیپٹر موجود ہوگا۔ اب تک پی پی پی کے10۔نکات سامنے آئے ہیں جس میں یہ پوائنٹ مسنگ ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے منشور کا انتظار ہے۔

اس نکتہ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ دنیا میں آج بھی پاکستان کی سویلین حکومت کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا اور ایک تاثر جوخاصی حد تک حقیقت پربھی مبنی ہے وہ یہ کہ ہمارے ہاں ’طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں ریاست ہے‘۔ ہمارے غیر ملکی دوست سالہا سال سے یہی بات کرتے ہیں بشمول ہمارے پڑوسی ملک کے ، ’ پاکستان‘ میں کس سے بات کی جائے یہاں وزیر اعظم اصل طاقت نہیں۔اہم سوال یہ ہے کہ کیا تینوں جماعتوں کے درمیان چند نکات پر ’ سیاسی اتفاق رائے‘ ممکن ہے۔’ میثاق جمہوریت ‘ کا ایک تجربہ موجود ہے دوسرا 18ویں ترمیم کا۔ اس سے ہٹ کرکہ اس پر عمل درآ مد نہ ہونے کی کیا وجوہات ہیں یہ دونوں دستاویز آگے کا راستہ بتاتی ہیں بس سیاستدانوں کو کچھ دیر کے لیے ‘ اقتدار کی سیاست اور لالچ کو ایک طرف رکھنا ہوگا۔

ہماری سیاست میں ملک کی بڑی ‘ ایجنسیوں‘ کے سیاسی کردار پر بڑے سوالات ہیں اور نظریہ آتا ہے کہ اصغر خان کیس میں اس تحریری جواب کے باوجود کے ’ سیاسی سیل‘ بند ہوچکا ہے ان پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے الزامات لگتے رہے ہیں۔ یہ بھی ہماری سیاسی بدقسمتی ہے کہ یہ سیل1974میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کی اپوزیشن کے بارے میں معلومات کے لیے قائم کیا تھا اور پھر بعد میں یہی ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف استعمال ہوا اور پھر کیا مسلم لیگ اور کیا تحریک انصاف۔

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ بحث طلب رہے ہیں جس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں جب بھی کسی وزیر اعظم کو گھر بھیجا گیا اس میں کہیں نہ کہیں ان تعلقات میں ’ کشیدگی‘ کا عنصر موجود رہا ۔ بھیجنے والا آئین کے آرٹیکل۔6کا مرتکب ہوتا ہے مگر عمر قید کی سزا دوتہائی اکثریت والے کو ملتی ہے اور جب وہ واپس آتا ہے اسی منصب پر اور اور آرٹیکل ۔6کی کارروائی شروع کرتا ہے تو ملزم کو درمیان میں سے ہی اس کے پرانے ساتھی اسپتال لے آتے ہیں اور عدالت کی یہ ہمت ہی نہیں ہوتی کہ اس پر سوال کرسکے۔ پھر وہ ملک سے باہر بھیج دیاجاتا ہے اور وزیر اعظم منہ تکتے رہ جاتے ہیں اور باہر بھیجنے کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں۔

یہاں ایک وزیر اعظم کو ایک اور آمر جس پر آرٹیکل۔6، کا اطلاق ہونا تھا وہ اس آئین میں اس آرٹیکل رکھنے والے کو ہی پھانسی چڑھا دیتاہے اور ملک میں قبرستان کا سا سناٹا رہتا ہے اور پھر آئین شکن11۔ سال حکومت کرتا ہے اپنی من پسند ترامیم لاتا ہے اور اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ ’ نظریہ ضرورت‘ کے تحت آئین توڑنے والے کو ایسی ترامیم کا اختیار دے دیتی ہے۔ ایک خاتون وزیر اعظم کا راستہ روکنے کے لیے کبھی مخالف جماعتوں کا اتحاد بنا دیاجاتا ہے اور ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے ’ ہاں میں نےIJIبنائی چلاؤ مقدمہ ‘مجال ہے کبھی کوئی کمیشن ہی بناپائے۔پھر وہی وزیراعظم کہتی ہے کہ میری حکومت اس ایجنسی نے ختم کروائی بھری پریس کا نفرنس میں اور اصغر خان کیس اس کو ثابت بھی کرتا ہے مگر سالوں چلنے والا یہ مقدمہ اور اس کا فیصلہ فائلوں کی نذر ہوجاتا ہے۔

ایک اور وزیراعظم جس پر ’لاڈلا‘ اور ’سلیکٹڈ‘ ہونے کا الزام اس کے سیاسی مخالفین لگاتے ہیں صرف اس وقت تک قابل قبول رہتا ہے جب تک وہ لاڈلا رہتا ہے اور گھر بھیجنے کا فیصلہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ بحیثیت وزیراعظم اپنے اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم سب خوش ہوتے ہیں کہ دیکھیں ایک آئینی طریقہ سے وزیراعظم کو عدم اعتماد کی تحریک سے گھر بھیجا گیا یہ جانے بغیر کہ وہ کس کا اعتماد کھونے کی وجہ سے اقتدار سے محروم ہوا۔

لہذا اس ملک میں بڑی جماعتوں کے درمیان کچھ نکات پر’ سیاسی اتفاق‘ ضروری ہے ۔ سول۔ملٹری تعلقات ،صحیح معنوں میں ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ جہاں آئین وقانون کی حکمرانی محض نعرہ نہ ہو، ایک آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کیونکہ دنیا میں جمہوریت کا تصور ایک آزاد میڈیا کے بغیر ممکن نہیں، سب سے بڑھ کرکمزور معیشت کو کیسے استحکام دیا جائے ۔ان نکات پر اتفاق اتنا بھی مشکل نہیں جتنا ہماری ان جماعتوں نے بنادیا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کا ’ اتفاق‘ ہوگا تو ہی دنیا کو یہ پیغام دیا جاسکتا ہے کہ یہاں جمہوریت اور سول بالادستی کے تحت فیصلے ہوتے ہیں اب تک بہرحال ان معاملات پر ہم آگے نہیں بڑھ پائے اوریوں سیاسی جماعتوں نے آہستہ آہستہ سول اسپیس کھو دی۔ ظاہر ہے جب انہی باتوں پر اتفاق رائے نہیں ہوسکتا تو آپ آگے کی طرف نہیں پیچھے کی طرف ہی جائیں گے۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتیں جن کی حکومتیں کم ازکم پچھلے15 ، سالوں سے تو کسی ایک صوبہ یا مرکز میں رہی ہیں کوئی ایک جماعت بھی صدق دل سے یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس نے اچھی گورننس کی مثالیں قائم کیں، ایسے اسپتال بنائے جہاں وہ خود بھی علاج کراتے ہوں، ایسے اسکول بنائے جہاں ان کے بچے بھی جاتے ہوں۔کیا اس بات پر ’ سیاسی اتفاق رائے ‘ نہیں ہوسکتا کے خود مختار بلدیاتی ادارے دراصل سیاسی نرسریاں ہوتی ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی اے کاکام اچھی قانون سازی ہے اس پر عمل درآمد کو دیکھنا ہے جس کے لیے کسی ’ترقیاتی فنڈ‘ کی ضرورت نہیں۔مگر جب بھی بات زیر بحث آئی ’اگر ۔مگر‘ کا شکار ہوگئی حدتو یہ ہے کہ18ویں ترمیم کا دفاع تو زوروشور سے ہوتا ہے ہونا بھی چاہیے مگر ہمارے یہ رہنما خود ذرا جائزہ تولیں کہ وہ اس ترمیم کے تحت نچلی سطح تک اختیارات کو کیوں منتقل کرنے کوتیار نہیں۔ اسی طرح طلبہ یونین کی بحالی بھی محض ایک سیاسی نعرہ بن کررہ گئی ہے۔

یاد رکھیں ان سب پر اتفاق اور عمل سے ہی سیاسی جماعتیں آگے بڑھ سکتی ہیں اور بڑی جماعتوں میں ان بنیادی نکات پر اتفاق سے دوسری جماعتوں کوبھی ساتھ ملانے میں آسانی ہوگی ویسے بھی اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں جماعتوں کی تعداد اور بنانے کے بھی کچھ اصول اور ضابطے طے ہوں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ