سرمایہ لگانے یہاں کون آئیگا؟ : تحریر تنویر قیصر شاہد


جس ملک میں انتخابات کے انعقاد کا اونٹ ہی کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا، وہاں سیاسی استحکام کیسے آئیگا؟ اور اگر سیاسی و سماجی استحکام نہیں ہوگا تو غیر ملکی سرمایہ کاری کیسے ہوگی؟

5جنوری 2024کو ہماری سینیٹ نے انتخابات کے التوا کی قرار داد منظور کر ڈالی۔ اسی روز اسٹاک مارکیٹ بھی بیٹھ گئی۔ اِس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا؟ اور اگلے ہی روز جماعتِ اسلامی کے سینیٹر، مشتاق احمد خان ، نے اِس کے برعکس قرار داد سینیٹ میں پیش کر دی ۔

کیا تماشہ لگا ہوا ہے !ایسے میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے : نجی شعبے میں مقامی اور بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ڈاکٹر صاحبہ موصوف بخوبی جانتی ہیں کہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ماحول ہر لحاظ سے پر امن اور محفوظ ہونا چاہیے کہ سرمایہ ہمیشہ امن یافتہ ماحول اور مستحکم سماجی ممالک کی طرف بھاگتا ہے ۔

کوئی بھی سرمایہ دار ایسے ملک اور خطے میں اپنا سرمایہ نہیں لگانا چاہے گا جہاں اپنے ہی سرمائے کا تحفظ اور اپنے ملازمین کی نگہبانی دشوار ترین ایڈونچر بن جائے ۔ نگران وزیر خزانہ بخوبی جانتی ہیں کہ اِس وقت پاکستان میں امن کو تلاش کرنا کسقدر مشکل مہم بن چکا ہے ۔

مملکتِ خداداد کا کوئی بھی حصہ اور خطہ امن دشمنوں اور دہشت گردوں کی پہنچ سے دور نہیں رہ گیا ۔ امن دشمنوں اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے ہمارے جملہ ریاستی ادارے سر توڑ کوششیں کررہے ہیں، ہمارے فوجی جوان اِس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر جان کی بازیاں لگا رہے ہیں لیکن مشکلات موجود ہیں۔

دہشت گرد ٹی ٹی پی اور پاکستان سے عدم تعاون کرنے والی طالبان حکومت اسی نام نہاد جہادِ افغانستان کا شاخسانہ ہیں ۔ پاکستان نے بوجوہ افغان طالبان کو ہر قسم کا تعاون بھی فراہم کیا اور اِس جتھے کی جملہ اعانتیں بھی کیں لیکن آج طالبان کی ملا حکومت پاکستان سے کوئی تعاون کرنے پر تیار نہیں ہے۔

دہشت گرد ٹی ٹی پی عین طالبان کے نیچے پنپ رہی ہے اور پناہ یافتہ ہے لیکن طالبان حکام پاکستان دشمن ٹی ٹی پی کا ٹیٹوا دبانے کے بجائے پاکستان کے مدِمقابل کھڑی ہے ۔ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی مسلسل دوست اور محبی ثابت ہو رہی ہے۔ کل نہ جہادِ افغانستان پاکستان کے کسی کام آیا نہ آج طالبان حکام پاکستان کے کسی کام آ رہے ہیں ۔ سر زمینِ افغانستان سے پاکستان منتقل ہونے والی دہشت گردی پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے عذاب بن چکی ہے۔

گزشتہ روز روس میں منعقدہ 9ہمسایہ ملکوں نے ایک کانفرنس میں ( جس میں طالبان حکومت کے نمایندہ نے بھی شرکت کی) افغانستان سے مشترکہ اور متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ افغانستان میں ہر قسم کے دہشت گرد گروپوں اور ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا جائے مگر افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کے سربراہ کی جانب سے ہنوز کوئی مثبت اور حوصلہ افزا جواب نہیں آیا۔

ایسے حوصلہ شکن اور عذابناک ماحول میں کون پاکستان میں سرمایہ کاری کا رسک لے سکتا ہے ؟جب کہ حال یہ ہے کہ پاکستان کے کئی دولتمند اور سابق مقتدر و سرمایہ دار پاکستان کے اِسی سرمایہ کار دشمن ماحول سے تنگ اور عاجز آ کر پاکستان کی شہریت بھی چھوڑ چکے ہیں اور سرمایہ کاری پاکستان کے بجائے برطانیہ، امریکا ، کینیڈا ،دبئی میں کررہے ہیں۔

ایسے میں کون غیر ملکی سرمایہ کار نگران وزیر خزانہ کی درخواست اور کوشش کو شرفِ قبولیت بخشے گا؟ جس وقت ہماری نگران وزیر خزانہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی بات کررہی تھیں، عین اس وقت دہشت گرد (1) بلوچستان میں خود کش حملوں اور اغوا کاریوں کی وارداتوں میںمعصوم بلوچوں کو شہید کررہے تھے (2) کے پی کے میںبے گناہ شہریوں کا خون بہا رہے تھے (3) افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کرکے دہشت گردی کرنے والے عناصر ہماری سیکیورٹی فورسز سے تصادم اختیار کر رہے تھے۔

جن میں پاک فوج کے جوان شہید ہورہے تھے اور کچھ افغان دہشت گرد جہنم واصل بھی ہو رہے تھے (4) عین اس وقت سکرنڈ (سندھ) میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مقامی افراد میں خونی مڈ بھیڑ ہو رہی تھی جس میں نصف درجن کے قریب دیہاتی جان کی بازی ہار گئے ۔ حیرت ہے اِس شدید جانی نقصان پر نہ سندھ کی سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی بولی ، نہ نون لیگ نے خاموشی توڑی، نہ جے یو آئی ایف نے کوئی بیان دیا اور نہ ہی پی ٹی آئی نے جراتِ اظہار کیا۔سب نے خاموشی میں اپنی اپنی عافیت سمجھی ۔

غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ہمارے اداروں کی کوششیں، کاوشیں اور اخلاص اپنی جگہ مگر بد امنی، خود کش حملوں اور دہشت گردی کے بلند ہوتے اِن شعلوں کے درمیان کون آئیگا یہاں سرمایہ لگانے؟ دہشت گردوں اور سماج دشمنوں کے خاتمے کے لیے اسی طرح نہائت سختی سے نمٹنا چاہیے جیسے ترکیہ کے صدر، جناب اردوان، اپنے ملک میں نمٹ رہے ہیں۔

پاکستان میں بھی اگر اِن دہشت گردوں سے اِسی اسلوب میں فورا نمٹا جائے تو اِس کے خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ خاص طور پر ٹی ٹی پی ، افغانستان کی جانب سے پاکستان کی سرحد غیر قانونی طور پر پار کرکے دہشت گرد عناصر سے اِسی انداز میں نمٹنا از بس ضروری ہو گیا ہے۔

اِن عناصر کو بہ سرعت اگر کچلا جائے تو پاکستان میں سرمایہ کاری کے ماحول کو یقینا مثبت بنانے میں تعاون ملے گا۔ ٹی ٹی پی سے مکالمے کی تو بات ہی نہیں ہونی چاہیے۔ افغانستان جا کرمولانا فضل الرحمن صاحب اپنی نجی حیثیت میں اگر افغان طالبان حکام سے کوئی بات چیت اور مکالمہ کرنا چاہ رہے ہیں تو ضرور کریں مگر ٹی ٹی پی کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا نہیں ہونا چاہیے ۔

پاکستان کے سرمایہ کار ماحول کو آلودہ کرنے میں افغان مہاجرین اور ان کے عاقبت نااندیش سرپرست و سہولت کار بھی شدید نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے پائیدار اور مستقل امن کا گہوارہ بنانے کے لیے از بس ضروری ہے کہ پاکستان کے چپے چپے پر براجمان ہونے والے لاکھوں غیر قانونی افغان مہاجرین کو یہاں سے نکالنا ہوگا ۔ صفایا کرنا ہوگا۔

اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ پاکستان کی فیصلہ ساز قوتیں یا تو پاکستان کو سنبھال لیں یا آکاس بیل کی طرح پاکستان کو چمٹنے والے غیر قانونی افغان مہاجرین کو ۔دونوں کا ساتھ ساتھ چلنا اب مشکل تر ہو گیا ہے۔

پچھلے دنوں غیرقانونی افغان مہاجرین کو زور و شور سے پاکستان سے نکال باہر کرنے کی مہم شروع ہوئی تھی مگر اب بوجوہ یہ مہم بھی ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ اِس ٹھنڈ نے غیر قانونی افغان مہاجرین کی نئی انداز میں حوصلہ افزائی کی ہے ۔ انھوں نے بجا طور پر سمجھا ہو گا کہ کوئی بھی پاکستانی حکومت ہمیں نکال باہر کرنے کی ہمت نہیں رکھتی ۔

افغان مہاجرین اور ٹی ٹی پی کے پھیلائے گئے گند اور مشکل ترین حالات کے باوصف ہمارے ادارے اور ہمارے وطن دوست سرمایہ کار وطنِ عزیز میں سرمایہ کاری کی کوششیں ترک نہیں کررہے ۔ امید کے چراغ مکمل طور پر گل نہیں کیے گئے ہیں ۔ اداروں کی جانب سے ملک میں سرمایہ کاروں کو جملہ سہولیات اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایس آئی ایف سی (Special Investment Facilitation Council)قائم کیا گیا ہے ۔

پاکستان میں سرمایہ کاری اور تجارت کی لو بلند کرنے کے لیے حال ہی میں پاکستان کے ممتاز ترین اور ٹاپ پرائیویٹ بزنس ایگزیکٹوز کا آٹھ رکنی وفد امریکا پہنچا ہے تاکہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت ، صنعت اور ٹریڈ کے نئے ایونیوز اور راستے تلاش کیے جائیں ۔ ہم دعا گو ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی بھڑکائی گئی آگ کے مقابلے میں ہمارے یہ ٹریڈرز اور تاجر کامیاب رہیں ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس