قلم ربانی ہتھ ولی دے : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


میاں محمد بخش پنجابی شاعروں میں اس حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں کہ انکی شاعری زندگی کے سفر میں معاون بننے والی اخلاقی و سماجی قدروں کی عکاس ہے۔صرف سفر العشق یعنی سیف الملوک میں ایسے سینکڑوں ضرب المثل اشعار موجود ہیں جو وقت کے نئے تقاضوں کے آئینوں میں سنور کر، معانی اور سیاق وسباق کے نئے پیرہن زیب تن کرکے ہر مکتبہ فکر اور عمر کے لوگوں کی اخلاقی اور جمالیاتی تربیت گاہ کادرجہ اختیار کر چکے ہیں۔ان ضرب المثل اشعار میں انسانی عقل نے تجربے کے صندوق میں رکھے صدیوں کے حاصل وصول کی چھان بین اور تجزیہ کرکے انھیں عالمی سچائی کے روپ میں پیش کیا ہے۔میاں محمد بخش کے اور بھی بہت سے کمالات اور اعزازات ہیں لیکن سب سے بڑا کمال محبت، جدوجہد،کوشش اور صِدق سے نامہربان حالات کو بدلنے کا ہنر ہے جو ان کے ہر شعر کے قلب میں دھڑکن کی طرح سمایا ہوا ہے۔جہاں مجبوری اور بے کسی کی کسی بھی حالت میں ہمت نہ ہارنا انسان کی فضیلت بتائی گئی وہیں کومل موسموں کو غلام بنانے والے طوفانوں کے سامنے اپنی پوری قوت یکجا کرکے ٹکرانے کا نسخہ بھی موجود ہے۔ مقابلے کی لگن انسان کے وجود میں پوشیدہ رازوں کو یکجا کر کے اسے مضبوط اور ناقابل تسخیر بنا دیتی ہے۔انسان عمر بھر دو محاذوں پر نبرد آزما رہتا ہے، ایک ماحول پر قابض استحصالی قوتوں کا بھیس بدل کر کارروائیوں کا سامنا اور دوسرے اسکے اندر جاری خیر اور شر کے معرکے سے مقابلہ۔ اندر کی سرکشی پر قابو پانا بھی آسان نہیں کہ سارے فسادات کا منبع اسی حجرے میں رکھا ہے جسے دل کہا جاتا ہے۔ یہاں موجود قوتیں مسمار نہیں ہوتیں وقتی طور پر خاموش یعنی غیرمتحرک کر دی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی کسی خاص اِسم کے منتر سے سُلا بھی دی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ فرد کی قوت اِرادی کی سرداری سے ممکن ہوتا ہے جونہی وہ ملول ہوئی، شر انگیز قوتیں سرکشی پر آمادہ ہو کر دھاوا بول دیتی ہیں۔ یوں انسان کیلئے جس طرح ظاہر کے خطرات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ان سے بچنے کی تدبیر کرنا اہم ہے ویسے ہی اپنے باطن کی طرف سے بھی چوکنا رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔زندگی سرکشی کے خلاف جنگ کا نام ہے، وہ اندر کے ا سٹیج پر جاری ہو یا کائنات کے وسیع منظرنامے میں۔اپنے اثبات کیلئے دونوں ظاہری اور باطنی محاذوں پر لڑتے ہوئے توازن برقرار رکھنا بھی فرد کی ذمہ داری ہے۔صوفیا کا کلام فرد کی باطنی اور ظاہری تربیت کرتا ہے۔ یہ کلام جمالیاتی ذوق کا آئینہ دار ہوتا ہے اس لئے روح تک رسائی رکھتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔ بھلے زمانوں میں ایسے ضرب المثل اشعار کو سُر کی دلآویزی کے ساتھ سوچ میں انجیکٹ کیا جاتا تھا۔ سیف الملوک گانے والے روحانی طبیب کی طرح جسم اور خیال پر پڑی خاک اور غلاظت جلا کر خاکستر کرتے تھے اور زندگی بسرکرنے کے گُر بھی سمجھاتے تھے۔ حتیٰ کہ ناخواندہ افراد بھی ان محفلوں سے استفادہ کر کے جیون کی گتھیاں سلجھانے کے گُر سیکھتے تھے۔پھر وقت بدلا اور تیزرفتاری کی سرکش ہوا بہت سی اہم دستاویزات کے اوراق اڑا لے گئی۔ آفاقی قدروں کے حامل کلچر اور ادب کی روح سے ہمارا رابطہ منقطع کر دیا گیا۔ ہمارے پاس کوئی کام نہیں لیکن ہم بہت مصروف ہیں۔ ہر وقت تصویروں اور بے معنی سرگرمیوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ حالانکہ سوشل میڈیا پر آگہی اور شعور کے بھی کئی دریچے ہیں جنہیں وا کر کے زندگی کو سہل اور خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔بے عملی اور غریبی کو ہمارا مقدر بنانے میں جعلی عاملوں، مصنوعی دانشوروں اور کم عقل مصلحین نے بھرپور کردار ادا کیا ہے اور شب وروز کر رہے ہیں۔ دنیا کی کامیابیوں کے مقابلے میں ہم ابھی تک اپنی مرضی کا جِن حاضر کرنے والے جادو ٹونے میں الجھے ہوئے ہیں۔ جب کہ کوئی جادوئی چھڑی معاملات سنوار نہیں سکتی سوائے محنت اور لگن کے۔ دنیا میں سرفرازی کے لئے اپنے اندر طاقت کے سرچشموں سے رابطے کی ضرورت ہے۔ جنوری میاں محمد بخش کو خصوصی طور پر یاد کرنے کا مہینہ ہے۔پلاک میں میاں محمد بخش کے ایک سو ضرب المثل اشعار پر مبنی کتاب اردو ترجمے کے ساتھ دستیاب ہے۔ خرید کر پڑھنا بھی فضیلت ہے۔ آئیے میاں محمد بخش کے کچھ ضرب المثل اشعار سے دل کا دِیا جلانے کی کوشش کریں۔

لوڑن والا رہیا نہ خالی لوڑ کیتی جس سچی

لوڑ کریندا جو مُڑ آیا لوڑ اوہدی گِن کچی

قلم ربانی ہتھ ولی دے لکھے جو من بھاوے

مَردے نوں رب قوت بخشی لکھے لیکھ مٹاوے

جاں کھیتی دا ککھ نہ رہیا نہ سُکا نہ ہریا

کِس کم دُھپ پکاون والی کس کم بدل ورہیا

بشکریہ روزنامہ جنگ