کیا 2024ءاکیلا گزشتہ صدیوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔2024کو شائستگی ،سنجیدگی، تہذیب، روایات، آداب، اصولوں سے لڑوانے والے کیا اپنے اہداف حاصل کرسکیں گے۔
یہ سوال گوشہ نشینوں کے ذہن میں بھی ہے، مجمع لگانے والوں کے بھی، اسکولوں کے بچوں کالجوں کے نو عمروں، یونیورسٹی کے نوجوانوں اور معزز اساتذہ کے بھی۔اپنے اپنے مطالعے، مشاہدے، تجربات کی روشنی میں سب اس سوال کا جواب تلاش بھی کرچکے ہیں لیکن اس کو عام نہیں کر سکتے، کیونکہ وقت سازگار نہیں ہے۔
میں بھی عمر کی آٹھ دہائیوں کے بعد وہ مناظر دوبارہ دیکھ رہا ہوں جب سربکف حریت پسند انگریز کی عدالتوں میں لائے جاتے تھے اور وہ باآواز بلند یہ پڑھ رہے ہوتے تھے۔
سر فروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
آپ نے یہ تمنّا نیرہ نور کی آواز میں سنی ہے۔ اسلئے اس میں اُداسی کی لہر محسوس کی ہے، سرفروشوں والی گھن گرج نہیں، یہ تمنّائیں زبان حال سے جیلوں، ہائی کورٹوں اور پولیس کی قیدی وینوں میں سنائی دے رہی ہیں، راجدھانی کی شاہراہوں پر پشاور ہائی کورٹ کی راہداری میں، ماؤں، بیٹوں، بیٹیوں کے تمتماتے چہرے دیکھ کر یہ مصرع بے ساختہ اپنی زبان پر آجاتا ہے۔
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
ورنہ تو اقبال اپنے اس مصرع کے ساتھ غالب رہتے ہیں ’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘ تاریخ کی چادر ہٹا کر تو بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب، پنجاب، خیبر پختونخوا میں حملہ آوروں کے گھوڑوں کی ٹاپیں بھی سنائی دیتی ہیں، ان کی مزاحمت کرتے آزادی کے متوالے بھی۔
آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کو دستر خوان کے گرد بیٹھنے کا دن۔ موسم ہے پت جھڑ کا، سوالات جھڑ بھی رہے ہیں، نئی کونپلوں کی صورت پنگربھی رہے ہیں۔ پاکستان کی ساتویں دہائی کے والدین بہت کچھ دیکھ چکے ہیں۔ سب سے اہم سبق اس نسل نے احتیاط پسندی کا سیکھا ہے۔ پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے آئندہ کو نیک و بد سمجھا سکیں۔ جو اولادیں اطمینان بخش جواب نہیں پاسکتیں وہ ویزے کی قطاروں میں لگ جاتی ہیں۔ ان کے عشق کرنے کے دن ہیں مگر وہ ترک وطن کو ترجیح دے رہے ہیں۔ عشق بھی بزرگوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اس کڑی دوپہر میں میری آرزو ئیں یہ بھی رہتی ہیں کہ آپ اپنے ہمساؤں، محلے والوں سے بھی اتوار کے اتوار ملیں۔ یقین جانئے۔ بہت سی الجھنیں ایسی ہیں جو آپ مسجد کے صحن میں بیٹھ کر یا گلی کی نکڑ کے تھڑے پر آپس میں ہی سلجھاسکتے ہیں۔اس کیلئے کسی بھی مسیحا کی ضرورت نہیں ہے۔ آج 8فروری میں پورا ایک مہینہ رہ گیا ہے۔ انتخابی مہم اگرچہ زوروں پر نہیں ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس وقت ہماری مملکت کو جو چیلنج درپیش ہیں ان سے کونسی پارٹی کیسے نمٹنا چاہتی ہے۔ کسی سیاسی پارٹی نے ابھی تک باضابطہ نشاندہی نہیں کی ہے کہ وہ آئین اور اخلاق کے ملبے کو کس طرح سمیٹے گی۔ اور جمہوری نظام کی از سر نو تعمیر کس انداز سے کرے گی۔ کیا کوئی نقشہ حتمی طور پر منظور ہوا ہے۔ معیشت کو کس طرح مکمل طور پر بحال کیا جائے گا۔ کتنا عرصہ لگے گا ۔ برآمدات کیسے مطلوبہ ہدف تک پہنچیں گی، مینو فیکچرنگ کیسے دوبارہ شروع ہوگی، ریاست سے عوام کا جو اعتماد اٹھ گیا ہے، وہ کیسے بحال ہوگا۔ ملک میں لوٹ مار، کرپشن کیسے ختم کریں گے۔ یہ انتخابی منشور سامنے آجائیں تو خاندانوں کے بڑے بیٹھ کر آپس میں طے کرتے ہیں۔ برادریاں اجتماعی فیصلے کرتی ہیں کہ اب کے ووٹ کس کا ہے۔اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ ہم معاملات طے کرنے کا، مسائل حل کرنے کا سسٹم کھوچکے ہیں۔ اس سسٹم کو بحال کرنا منتخب سیاسی جماعت کی اولیں ترجیح ہونی چاہئے۔ اس عمل سے انتشار کو استحکام میں بدلا جاسکتا ہے۔ قومی سیاسی پارٹیوں اور عوام میں بہت زیادہ دوریاں پیدا ہوچکی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے اعلیٰ صوبائی عہدیداروں ،عام کارکنوں کے ساتھ جو مثالی سلوک ہورہا ہے۔ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
بحران عمودی بھی ہے، افقی بھی، داخلی بھی خارجی بھی، عالمی طاقتوں کا پیش کردہ بھی، داخلی قوتوں کا الجھایا بھی۔ یہ صورت حال ساری سیاسی پارٹیوں کو للکار رہی ہے۔ بہت سے دریا عبور کرنا ہیں، بہت سی چٹانوں میں راستے بنانا ہیں اور یہ جو چیختے چنگھاڑتے حالات ہیں۔ وہ قومی سیاسی پارٹیوں کی غفلت، کوتاہی زیادہ تر دیدہ دانستہ سے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتیں کیا ملک گیر تنظیم رکھتی ہیں۔ کیا پورے ملک میں انہیں ہر انتخابی حلقے میں امیدوار میسر آئے ہیں۔ ان پارٹیوں کی جو بھی پالیسیاں ہیں، نظریات ہیں۔ کیا ان امیدواروں کو ان کا علم ہے۔ یہ امیدوار کیا کسی پارٹی ڈسپلن کے قائل ہیں۔ پارٹیوں نے ملک بھر میں کارکنوں کی رائے حاصل کرنے کیلئے، ان کا موڈ جاننے کیلئے کیا ضلعی صوبائی اور قومی کنونشن منعقد کیے ہیں۔ بحران کی جو شدت ہے، تپش ہے اور پاکستانیوں کی اکثریت اس وقت جیسے اپنے آپ کو بے بس اور بے کس دیکھ رہی ہے۔ کیا اس کا تقاضا نہیں تھا کہ قیادت کی دعویدار پارٹیاں اپنے کارکنوں کی رائے جانتیں۔ ان کی طاقت ان کے دست و بازو تو یہی کارکن ہیں۔ ایسی غیر منظم اور کمزور بنیادوں پر کھڑی پارٹیاں اتنے بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے مسائل کو کیسے حل کرسکیں گی۔ سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھی کوئی پالیسی دستاویز پیش نہیں کی گئی۔حالانکہ وہ آزاد بھی ہیں ،بصیرت بھی رکھتے ہیں۔
منشور تو اپنی جگہ کسی پارٹی کی طرف سے صورت حال پر کوئی تفصیلی پالیسی بیان بھی نہیں آیا۔ جس سے ووٹر اندازہ کرسکیں کہ یہ پارٹیاں کن مسائل کے حل کو ترجیح دیں گی۔ فوری اقدامات کیا ہوں گے۔ طویل المیعاد منصوبے کیا ہوں گے۔ کیا ان فرائض سے قیادتیں بری الذمہ ہوگئی ہیں۔ ہمارے سیاسی حکمرانی نظام کا ایک ادارہ سینیٹ ہے، جسے تسلسل میسر رہتا ہے۔ وہاں موجودہ صورت حال پر سنجیدگی سے کوئی بحث ہورہی ہے۔ ایوان بالا کے معزز ارکان کیا عوام کا تڑپنا، الجھنا نہیں دیکھ رہے ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے، گیس بجلی نایاب بھی ہیں اور ان کی قیمتیں بھی بڑھائی جارہی ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر متوقع کامیاب سیاسی جماعتیں کیا موقف رکھتی ہیں۔ملک کی سا لمیت سے مذاق کہ سینیٹ نے الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد منظور کرلی ہے۔
فعال اور کامیاب جمہوریت کی بنیاد یہ قومی سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں۔ ان کی طاقت کارکن ہوتے ہیں، انتخابیے نہیں۔ ملک کو اس وقت تنظیم کی ضرورت ہے، اتحاد کی، اور یقین کی۔ یہ تینوں عناصر نہیں ہیں۔ ان کے حصو ل کیلئے کوئی کوشش بھی نظر نہیں آتی۔ محاذ آرائی کیلئے زور لگایا جارہا ہے۔ وہ اپنے عروج پر ہے، تحریک انصاف کو قرائن مقبول بتارہے ہیں لیکن اس کی طرف سے بھی انتخابی منشور سامنے نہیں آیا ہے۔ دوسری پارٹیوں کی نسبت عوام کو پی ٹی آئی کے روڈ میپ کا شدت سے انتظار ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ