صدیوں سے یہی ہوتا آرہا ہے ، روزانہ لاکھوں لوگ آتے ہیں ، لاکھوں لوگ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں مگر کم ہی ایسے خوش قسمت ہوتے ہیں جو اس دنیا پر اپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں ۔ نئے سال کی آمد سے ہمیشہ نئی امیدیں اور خوشیاں ہی وابستہ رہی ہیں مگر جب سے آغا جان رخصت ہوئے ہیں ۔ نئے سال کی آمد اداسی کاموسم ساتھ لے آتی ہے۔ ویسے بھی وہ آج کل کی سیاست میں بہت یاد آتے ہیں۔ انہوںنے ساری عمر محبت ، عزت اور وقار کے ساتھ لوگوں میں وقت گزارا ۔
جب سوشل میڈیا میں ٹرینڈ دیکھتی ہوں تو کہتی ہوںکہ اللہ نے انہیں بڑی عزت کے ساتھ اپنے پاس بلا لیا ورنہ یہ حالات دیکھ کر تو وہ بہت دکھی ہوجاتے۔ کراچی میں ایک لسانی تنظیم کے ہاتھوں اپنے نوجوانوں کے غم سہتے سہتے ایک دن بڑے آبدیدہ ہوکر کہاکہ ہم نے ساری عمر سیاست میں اختلاف بھی کیا مگر کبھی ایسی دشمنی نہ دیکھی۔ اے این پی کے ساتھ ہمیشہ مخالفت رہی مگر سماجی تعلقات اور غمی و خوشی کاتعلق وابستہ رہا۔ ولی خان فوت ہوئے تو ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ بلور خاندان سے تو بہت محبت کاتعلق تھا۔ بشیر بلور فوت ہوئے تو تین دن ان کے ہاں جاتے رہے اور ایک دن غلام احمد بلور صاحب پشاور میں پورا دن ہمارے گھر رہے اور آغا جان ان کے ساتھ مصروف رہے۔ آئی جے آئی کے دنوں میں محترم میاں محمدنواز شریف صاحب کے ساتھ چھوٹے بھائیوں جیسا تعلق رہا۔ بعد میں جب ان پر دس کروڑ روپے کا الزام لگاتو کسی دوست نے مشورہ دیاکہ آپ بھی جواب دینے کا حق رکھتے ہیں تو جواب دے دیں مگر بہت شائستگی اور وقار کے ساتھ وہ وقت گزارا اور آج تک ان پر کوئی الزام ثابت نہ کرسکا۔ بہت دیانت کے ساتھ زندگی گزاری اور جب محترمہ کلثوم آپا ہمارے گھر تشریف لائیں تو مجھے ان کا وہ عزت او راحترام کے ساتھ استقبال کرنا اب بھی یاد ہے اور اس باوقار اور شائستہ خاتون نے اس عزت اور شفقت کو ہمیشہ یاد رکھا اور مجھے جب بھی کسی محفل میں دیکھا تو ہمیشہ بہت پیار سے نوازا۔ میرے دونوں بچوں کی شادیوں میں اپنے پورے خاندان سمیت شرکت کی ۔ آغاجان کے انتقال کے بعد بھی ہمارے ساتھ تعلق میں کمی نہیں لائے۔
عمران خان صاحب کے ساتھ ان کا بزرگانہ برتاؤ مجھے ہمیشہ یاد رہتاہے ۔ ان کو سیاست کی طرف راغب کرنے میں ایک واقعہ مجھے یاد آتا ہے کہ شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈریزنگ کی تقریب میں ہندوستانی اداکاروں کاایک وفد آیاتھا اور کچھ نوجوانوں نے انہیں اس تقریب سے منع کیاتھا تو عمران خان صاحب پہلی دفعہ ہمارے گھر تشریف لائے تھے۔ میرا بیٹا محمد اُن دنوں چھوٹا تھا تو عمران خان اس کے لیے ایک آئیڈیل تھے،وہ اس دن بہت زیادہ خوش تھا کہ عمران خان ہمارے گھر آرہے ہیں۔ انہوں نے آغا جان سے کہاکہ میں نے تو یہ ہسپتال بنانا ہے ۔ میں نے کون سی سیاست کرنی ہے کہ یہ نوجوان مجھے کام نہیں کرنے دے رہے ، آغاجان نے کہاکہ آپ نے کیوں سیاست نہیں کرنی؟ آپ جیسے لوگوں کو سامنے آکر اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے کہ نوجوانوں کو ایک سمت ملے ۔ ہمیشہ اسلام آباد میں آغا جان کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کی پلاننگ کرتے۔
کوہاٹ کے تاندہ ڈیم ریسٹ ہاؤس میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں پہلے سیاسی قیدی ہونے کااعزاز حاصل کیا۔ ہمیشہ جماعت اسلامی پر فوج کی بی ٹیم ہونے کا الزام رہا مگر آغا جان نے اس کی وضاحت کی کہ ہم اپنے ملک کی نظریاتی سرحد وں کے دفاع کے ساتھ ساتھ اس کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو بھی اپنے ایمان کاحصہ سمجھتے ہیں کیونکہ وہی قوم اپنے جغرافیہ کی حفاظت کرتی ہے جو اپنی تاریخ کو یاد رکھتی ہے اور ہم فوج کے اپنے محاذوں پر کردار میں اس کا ساتھ دیتے رہیں گے مگر اس کی ملکی سیاست میں مداخلت کے مخالف تھے اور رہیں گے۔ اسی لیے ایوب خان ، یحییٰ خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں جماعت اسلامی کو جتنا نقصان پہنچایاگیا کسی سویلین حکومت میں اتنا نقصان نہیں ہوا۔
دینی جماعتوں کے سربراہوں سے تو اتنی محبت و شفقت کاتعلق نبھایا کہ یک جان ودوقالب نظر آتے تھے۔ مولانا شاہ احمد نورانی کاذکر اتنی محبت سے کرتے تھے ۔ ایک دن کہاکہ میرے آفس میں ،میں نے مسجد نبوی ۖ کی تصویر کے نیچے ایک کیپشن پر لکھوایاتھا کہ ”اے خنک شہرے کہ آبخادلبراست ” ”اے خوبصورت ٹھنڈے شہر کہ جہاں محبوب ۖ آرام فرماہیں۔ ” تو جھوم جھوم کر پڑھنے لگے اور کہاکہ قاضی صاحب آپ سے اسی نسبت سے بہت محبت ہوگئی ہے۔
دینی جماعتوں کے علاوہ ان حلقوں سے بھی بہت دلنوازی کاتعلق تھا جن کو سیکولر سمجھاجاتا ہے۔ خالد احمد نے نیوزویک میں Saint Qaziکے نام سے ایسا شاندار خراج عقیدت پیش کیا ہے کہ پڑھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم سب ان سے بے تحاشا محبت کرتے تھے۔ ہمارے نوشہرہ کی ہندو برادری کے قائد شیام بابوہوں یا ہمارے ممبر قومی اسمبلی پرویز مسیح سب کے ساتھ انتہائی محبت اور رواداری کا سلوک قائم رہا۔ سکھ برادری سے ایک نوجوان کا ایک دن جنیوا سے فون آیاکہ میں قاضی صاحب کااحسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔ میرے اوپر جھوٹا مقدمہ تھا۔ میری وکالت کاانتظام کراکر مجھے رہا کروایا۔ اتحاد بین المسالک میں ایسا بھرپور کردار ادا کیا کہ بیک وقت ایران اور سعودی عرب میں اعلیٰ قیادت سے ذاتی تعلقات رہے اور اُمت مسلمہ کے اتحاد کے لیے ساری عمر کوشاں رہے۔
ہمیں ابھی اپنے ان بزرگوں کی روایات کو قائم و دائم رکھنا ہے۔ ایک دن میرابھائی آصف لقمان قاضی کہنے لگا کہ ہم تو اپنے سوٹکڑے کرکے انتہائی متحرک کردیں تو بھی ہر جگہ نہیں پہنچ سکتے۔ جس جگہ جائیں کوئی کہے گا کہ آغا جان نے میرے فلاں عزیز کا جنازہ پڑھایا، کسی جگہ نکاح پڑھایا ہوگا ، کسی جگہ بچے کے کان میں اذان کہی ہوگی اور کسی کانام رکھا ہوگا ۔ الغرض لوگوں کے ساتھ ذاتی سطح پر تعلقات استوار رکھے اور احترام و عزت کے رویے پر وان چڑھائے۔ متحدہ مجلس عمل کی چھ جماعتوں کو محبت کی زنجیر میں ایک جماعت بنایا۔ آج بھی ان سب سے ایک خاندان کی طرح تعلق ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کو اپنے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب ، علامہ ساجد میر صاحب ،ڈاکٹرصاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر صاحب سب اُن سے اتنے احترام سے پیش آتے کہ رشک آتاتھا۔
اُن کے متعلق کتاب میں عبدالقادر حسن مرحوم نے یہ جملہ لکھا کہ قاضی صاحب پر اتنا زیادہ لکھا گیا ہے کہ اسے پڑھنا مشکل ہوگیاہے۔ سب کے مضامین پڑھناواقعی مشکل کام لگتا ہے۔ گاہے بگاہے ان سے متعلق مضامین پڑھتی ہوں تو ان کی زندگی کے مختلف پہلو آشکار ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ ان کے بہت ہی عزیز بھائی محترم المقام پروفیسر خورشید احمد صاحب ان کے متعلق فرماتے ہیں :
”انہوں نے تحریک اسلامی کی قیادت کی ذمہ داری بڑی بصیرت اور خوش اسلوبی سے انجام دی ۔ ان 40برسوں میں میرے اور ان کے درمیان بڑا ہی قریبی تعلق ہا جس کی بنیاد اخلاص ، باہمی اعتماد ، مشاورت اور ایک دوسرے کے احترام پرتھی۔ میں شروع ہی سے ایک نظری اور ایک گونہ کتابی انسان ہوں اور قاضی صاحب اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک حرکی وجود رکھتے تھے۔ جرأت اور استقامت کے ساتھ جہد مسلسل کاشوق، جلدی نتائج حاصل کرنے کی تمنا اور سپاہیانہ جلال ان کی شخصیت کاحصہ تھا۔ علمی اور ادبی ذوق ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ قرآن ان کا اوڑھنابچھوناتھا تو اقبال کا کلام ان کی روح کا نغمہ ۔ صداقت اور شجاعت کے ساتھ جہاد ، شہادت اور کچھ کرڈالنے کاعزم ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔
اگر میں یہ کہوںکہ وہ جلال اور جمال کا مرقع تھے تو شاید غلط نہ ہو۔ ان کی طبیعت میں جلال کے پہلو بھی تھے مگر صرف جلال نہیں ، جمال کاپہلو بھی وافر مقدار میں تھا اور بالعموم غالب رہتاتھا جس سے جلال کے لمحات ایک لطف دے جاتے تھے۔میرااور ان کا رشتہ بڑا دلچسپ تھا۔ عمر میںان سے بڑاتھا اور اس بڑائی کا وہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی احترام کرتے تھے ، لیکن میںان سے یہی کہتاتھا کہ عمرمیں خواہ بڑاہوں لیکن تحریک میں آپ ہی بڑے ہیں اور ہم دونوں نے دلی طور پر ایک دوسرے کو اپنے سے بڑا سمجھ کر رفاقت کے یہ چالیس سال بڑے خوشگوار ماحول میں گزارے ۔ بلاشبہ اس عرصے میں دوچار مشکل لمحات بھی آئے ، لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے تعلقات میں کبھی کھچاؤ یا تلخی پیدانہیں ہوئی۔ کبھی انہوں نے میری رائے کو قبول کرلیا اور کبھی میں نے اپنی رائے کو ترک (Surrender)کردیا۔ اس طرح محبت اور اطاعت کا یہ سفر بڑی خوش اسلوبی سے طے ہوتارہا۔
محبت کیا ہے ؟ تاثیر محبت کس کو کہتے ہیں ؟
ترا مجبور کر دینا ، مرا مجبور ہو جانا
آج قاضی صاحب ہم میں نہیں ، کل ہم بھی نہیں ہوں گے ، ان کی باتیں یاد رہیں گی ۔ ان کی خدمات صدقہ جاریہ ہیں ، جن سے ہمارے ساتھی اور ہمارے بعد آنے والے سب ہی مستفید ہوتے رہیں گے اور ان شاء اللہ وہ بھی اس کے اجر سے شاد کام ہوتے رہیں گے۔ ان کی پاک صاف زندگی ،ان کے علمی اور ادبی ذوق، ان کی تحریکی خدمات، اُمت کے لیے ان کی دوڑ دھوپ اور قربانیاں ،پاکستان کی تعمیر اور تشکیل نو کے لیے ان کی مساعی ،اپنوں اور غیروں سب سے محبت ، دعوت اور خدمت کی بنیادوں پر رشتہ اور تعلق کی استواری ،امارت کی ذمہ داریوں کو خلوص ، دیانت ، محنت ،قربانی وایثار اور انصاف کے ساتھ ادا کرنے کی کوششیں … یہ سب روشنی کے ایسے مینار ہیں جو ایک زمانے تک ضوفشاں رہیں گے۔ اس طرح وہ ہم سے رخصت ہونے کے باوجود ہمارے درمیان ہیں اور رہیں گے۔
ان کے انتقال پر ان کے چاہنے والوں اور ان سے اختلاف رکھنے والوں ، بلکہ ذہنی بعد تک رکھنے والوں نے جو کچھ لکھا ہے ، اس سے ان کی زندگی کاایک ایسا پہلو سامنے آتا ہے جو زندگی میں شاید نمایاں نہ تھا۔ یعنی ہر ایک سے خلوص اور شفقت سے معاملہ کرنا ، اختلاف میں بھی حدود کا لحاظ ، سختی کے ساتھ نرمی ، تنگی کے ساتھ پیار ،مخالفین کے ساتھ بھی ہمدردی اور پاسداری ۔ ہم تو شب و روز ان کی شخصیت کے اس پہلو کو دیکھتے اور اس کاتجربہ کرتے تھے ، مگر جس پیمانے پر اور جس یک زبانی کے ساتھ سب ہی شرکائے غم نے ان پہلوئوں پر اظہار خیال کیا ہے ، اس سے مولانا محمدعلی جوہر کی اس پیش گوئی کی دل نے تائید کی:
جیتے جی تو کچھ بھی نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہر آپ کے جوہر کھلے
میں اپنے رخصت ہونے والے بھائی کے بارے میں اپنی تاثراتی گزارشات کو اقبال کے اس شعر پر ختم کرتاہوں جو محترم قاضی حسین احمد کی شخصیت کاآئینہ داراور ان کے بعد ذمہ داری کے مقام پر فائز تمام افراد کے لیے ایک پیغام ہے:
نگہ بلند سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
میں نے ایک دفعہ اُن سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کاافسردہ ترین دن کو ن ساتھا۔ انہوںنے جواب دیا اپنے پیاروں کی جدائی کے دنوں کے ساتھ ساتھ جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا۔ اس دن رات کو کمرہ بند کرکے زار و قطار ہچکیوں سے روتا رہاتھا۔
اب جب اس المناک دن کو نصف صدی گزرجانے کو ہے ، جس نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی نظریاتی مملکت کو دوٹکڑے کردیاتھا۔ اپنی نئی نسل تک یہ احساس زیاں پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ آغا جان کہاکرتے تھے کہ مایوس مت ہونا کیونکہ مایوسی گناہ ہے مگر احساس زیاں کو تازہ رکھناچاہیے کہ جماعت اسلامی کے کارکن آج تک پاکستان کی محبت میں پھانسی کے پھندے چوم رہے ہیں۔ اپنے اخلاص سے بھرپور شہداء کو تاریخ کی تاریکی میں گمنام راہوں میں بے یار و مدد گار اور بے نام و نشان نہیں چھوڑناہے۔ اپنے لہو کے چراغ جلانے والوں اور سنگینوں کے سایوں میں اپنے سروں کی فصل کاٹنے والے اپنے ہیروز کو یاد رکھنا ہے۔ شکست آرزو کے لیے نہیں بلکہ ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے اکثر ناکامیاں بڑی فتوحات کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔
آغا جان ساری عمر کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ ہمیشہ اُمید کے جگنو روشن کرکے بکھیرے ۔ ہمیں بھی نئے عزم سے بنیاد سحر رکھنی ہے ۔ وہ ہمیشہ اقبال کی یہ رباعی سنایا کرتے :
بمنزل کوش مانند مد نو
دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شو
مقام خویش اگر خواہی دریں دیر
بحق دل بندوراہ مصطفی رو
اس نیلی فضا میں نئے چاند کی طرح ہر لمحہ پھیلتے اور روشن ہوتے چلے جاؤ اور اگر اس دنیا میں اپنا مقام بنانا ہے تو اللہ کے ساتھ وابستہ ہو جاؤ اور حضور نبی کریم ۖ کی راہ پر چلتے چلے جاؤ ۔