بہت وقت گزرا، اس بستی کے اک کوچے میں ابن انشا نام کا ایک دیوانہ رہا کرتا تھا۔ سدا رہے نام اس کا پیارا۔ رواں جنوری کی گیارہ تاریخ کو اس جاں دادہ ہوائے سر رہ گزار کو اس سفر پر نکلے 46 برس پورے ہو جائیں گے، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ 15 جون 1927 کو جالندھر کی تحصیل پھلور میں پیدا ہونے والے شیر محمد خان کا آبائی تعلق راجستھان سے تھا۔ شمال مغربی ہندوستان کے اس ریگستانی خطے نے اختر شیرانی اور مشتاق احمد یوسفی سمیت کیسے کیسے ہیرے موتی اردو ادب کی مانگ میں ایزاد کئے۔ ابن انشا نے اس سیارے پر کل ملا کے پچاس برس بسرام کیا۔
اس مختصر مدت میں اس مشت خاک نے کلک رواں کے ایسے رنگ دکھائے کہ اردو ادب کے فضا میں اس قوس قزح کے رنگ مٹ کے نہیں دے رہے۔ غزل کہی تو معلوم ہوتا ہے، بھگت کبیر کا گیروا چولا پہنے برہن میرا بائی زمیں پر اتر آئی ہے اور فارسی صنف کے کڑھے ہوئے سانچے میں عشق تپاں کی آہ سرد کے نشتر پرو رہی ہے۔ نظم کہی تو پڑھنے والوں نے جانا کہ لکھنے والا شنگھائی کی بے کنار رات سے کوریا کی وحشت ناک جنگ تک، ایتھوپیا کے قحط، ایران کی قدیم گلیوں اور پورپ کے صدیوں پرانے راز تک، غرض سب جانتا ہے۔ سیاحت کو نکلے تو اردو ادب کو ایسے سفر نامے عطا کیے کہ ایک تیز بیں نگاہ ہے جو عالمی جنگ کی راکھ سے اٹھنے والی دنیا کے چلتے پھرتے منظر نسیم صبح کے جھونکوں ایسے لطیف جملوں میں سمیٹتی چلی جا رہی ہے۔ چاہو تو افسانہ سمجھ کر پڑھو اور چاہو تو سیر گل کے بہانے نگر نگر کے رنگ دیکھو۔ ایسا سفر نامہ ابن انشا سے پہلے کسی نے لکھا اور نہ کوئی اب لکھ پائے گا کہ دنیا ہتھیلی پر رکھے فون کی سکرین پر سمٹ آئی ہے۔ اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی۔ اردو مزاح میں ایک مختصر سی کتاب سے دشت بلا ہی کو پلٹنے کا معجزہ دو مرتبہ ہی ممکن ہو سکا۔ 1928 میں پطرس کے مضامین نامی مجموعہ شائع ہوا تھا اور پھر 1971 کے طوفانی برس میں اردو کی آخری کتاب نے سیاسی تبصرے، معاشرتی تنقید، اور ادبی بیان کا فرق مٹا ڈالا۔
ابن انشا کی غیر مطبوعہ تحریروں کا مجموعہ خمار گندم ان کی وفات کے بعد ستمبر 1980میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کے بیشتر مشمولات قلم برداشتہ اخباری کالم ہیں لیکن تین تحریریں اس مجموعے میں ایسی ہیں کہ اردو ادب میں زندہ رہیں گی۔ استاد مرحوم کمال کا مضمون ہے۔ فیض اور میں دراصل 1962 میں ادبی جریدے افکار کے فیض نمبر کے لئے لکھا گیا تھا۔ سبحان اللہ۔ یقین ہے کہ فیض صاحب نے بھی پڑھ کر خندہ فرمایا ہو گا۔ خمار گندم میں ایک مضمون نجات کا طالب غالب کے عنوان سے خطوط غالب کی پیروڈی ہے۔ محمد خالد اختر نے بھی مکاتیب خضرمیں غالب کا اتباع کیا ہے لیکن ابن انشا کا اپنا رنگ ہے۔
اس مضمون میں ایک جگہ ہم عصر صحافت کا خاکہ اڑاتے ہوئے بزبان غالب لکھتے ہیں، ایک لمبا چوڑا مضمون دیکھا، اداکارہ دیبا کے چلغوزے کس نے چرائے۔ سارا پڑھ گیا۔ یہ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہوئی۔ کسی کی جیب سے کسی نے چلغوزے نکال لئے تو یہ کون سی خبر ہے۔ مرزا غالب تو 1869 میں رخصت ہو گئے تھے۔ اداکارہ دیبا ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستانی فلموں کی مقبول اداکارہ تھیں۔ بات گویا یہیں کہیں کی ہے۔ ابن انشا نے کسی اخبار کا فلمی صفحہ دیکھا ہو گا۔ آج حیات ہوتے تو دیکھتے کہ اخبارات اور ٹیلی وژن پر اداریے، فلمی صفحے، کالم، خبر اور اخبار نویس کی پاک دامنی کی حکایت کا فرق مٹ چکا۔ اس ملک کو صحافت کی آزادی میں مکمل یقین رکھنے والا ایک ہی رہنما نصیب ہوا جس کا نام محمد علی جناح تھا۔ کبھی کراچی کے روزنامہ گزٹ کے ہندو مدیر ایم ایس ایم شرما کی کتاب Peeps into Pakistan نکال کر دیکھیے ۔ جنوری 1948 کے کراچی فسادات کے بعد بھارت جانے والے شرما صاحب کی یادداشتوں کا وہ حصہ قابل مطالعہ ہے جہاں انہیں قائد اعظم نے بلا خوف و خطر اپنی رائے لکھنے کی ہدایت کی تھی۔ قائد اعظم کے رخصت ہونے کے بعد پاکستانی صحافت کو پہلا پیغام تو سول اینڈ ملٹری گزٹ کی میعادی بندش سے ملا۔ پھر پبلک سیفٹی ایکٹ آیا۔ پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پر قبضہ ہوا۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کی بلائے بے اماں نازل ہوئی۔ پریس ایڈوائس کی ہوائے مسموم چلی۔ اخبارات بند ہوئے۔ صحافی قید ہوئے۔ قلم اٹھانے والوں کی پشت پر درے برسائے گئے۔ جب معلوم ہو گیا کہ صحافت بھی جمہوریت کی طرح جدید زمانے کی ایک ناقابل اصلاح خرابی ہے، کہیں نہ کہیں سے کوئی ضمیر قریشی یا ضمیر نیازی برآمد ہو جاتا ہے تو صحافت میں گھس بیٹھیے متعارف کرائے گئے۔
اشتہار کی عنایت یا بندش سے مشکیں کسی گئیں۔ ناپسندیدہ صحافیوں کو متن سے خارج کر کے حاشیہ بردار صحافت کی پنیری لگائی گئی۔ صحافی اور ریاستی کارندے میں فرق ختم کیا گیا۔ ایک صاحب اختیار نے فرمان جاری کیا کہ چھ ماہ تک صرف مثبت صحافت کی جائے۔ خدا معلوم مثبت صحافت کیا ہوتی ہے؟ پانچویں نسل کی دوغلی ابلاغی جنگ کے پیادوں سے معلوم کرنا پڑے گا۔ گزشتہ دو برس سے قوم مثبت صحافت ہی کا تاوان ادا کر رہی ہے۔ صحافی کا ضمیر خریدنے سے شروع ہونے والا نامبارک سلسلہ اب صحافتی ادارے کی آڑھت تک جا پہنچا ہے۔ اس بانجھ صحافت کے نتیجے میں ایسی نسلیں پیدا ہوئی ہیں جو سیاست دان، اداکار اور کھلاڑی کا فرق نہیں جانتیں۔ جنہیں سیاست کی حرکیات، دستور کے تقاضوں اور معیشت کے اتار چڑھاؤ سے غرض نہیں۔ وہ تو سجدہ جنوں کے لئے بت سنگی کی تلاش میں ہیں۔ اداکارہ دیبا کے چلغوزے پرانے ہو گئے۔ آج کی محفوظ صحافت یہ ہے کہ خبر نامے میں فلسطین اور کشمیر پر تین تین منٹ کے دو نصابی پیکیج شامل کیے جائیں۔ افغانستان میں مجاہدین کے کارنامے اب خارج از نصاب ہیں۔ باقی خبروں میں کسی اداکارہ یا کھلاڑی کی تیسری شادی، وکیل کے بیرون عدالت بیان اور سیاست دان کی بدعنوانی سے صفحہ سیاہ کیا جائے۔
جو دلبری کا یہ عالم رہا تو اے شوخی
کوئی کرشمہ نہ چھوڑے گی تو حیا کے لئے
بشکریہ روزنامہ جنگ