ادبی رسالے تہذیب کی علامت تھے : تحریر کشور ناہید


قیام پاکستان کے بعد اردو اور انگریزی کے ماہانہ رسائل پابندی سے نکلتے تھے۔ ہر اسٹال پر فروخت ہوتے، مفت کی رسم نہیں تھی، ساقی، نقوش ، نیا دور ،جام جہاںنما،انکار اور ماہ نو کی اشاعت سرکاری سطح پر کی گئی۔ حسن عسکری اور وقار عظیم نے اس کی بنیاد رکھی۔ ویسے شاہد احمد دہلوی پہلے ہی ساقی نکا ل کر ادب کی پرورش کی مثال قائم کر چکے تھے۔ لاہور سے ادبِ لطیف اور سویرا نکلتا تھا۔ ممتاز شیریں نے نیا دور اور محمد طفیل نے نقوش نکال کر مثال قائم کی کہ اچھا ادب کیسے منتخب کیا جاتا ہے۔ 1960میں قاسمی صاحب نے فنون اور ڈاکٹر وزیر آغا نے اورآق نکالا۔ صہبا لکھنوی کا پرچہ ان کی زندگی تک ان کے منصفی وجود کے باوجود پابندی سے نکلتا رہا۔ اس دوران ہر شہر سے چاہے چند ماہ یا چند سال کیلئے، قندیل اور شورش کاشمیری کے پرچے کبھی ہفت روزہ اور کبھی پندرہ روزہ نکلتے رہے۔ کچھ رسالے شخصیات کے وجود کے ساتھ نابود ہو گئے۔ ماہ نو سرکاری ہونے کے باوصف گرتا پڑتا چلتا رہا۔ اسی طرح اکیڈمی آف لیٹرز، مقتدرہ کے علاوہ محکما نہ سطح پر چند اور رسالے نکال کر کراچی کی آبرو نہیں بنا سکے۔حال ہی میں رؤف پاریکھ نے پاکستان کے پچھتر سالہ ادب کو دو شماروں کی شکل میں مرتب کیا، ایک شمارہ ان کی موجودگی میں اور دوسرا مرتب تو انہوں نے ہی کیا مگر ان کے تبادلے کے بعد راشد حمید نے پیش کیا ۔ ان رسائل کے اندر اتنا مواد ہے کہ ہم جیسوں اور نوجوانوں دونوں کے حوالے کے طور پر، ادبی مخزن کے طور پر لائبریریوں میں محفوظ کیا جاناچاہیے۔

اسی طرح گزشتہ چند مہینوں سے انجمن ترقی اردو نے ماہنامہ شمارہ میں خاص نمبر مرتب کیے ہیں، جس میں شوکت صدیقی، مولوی عبدالحق، ابن صفی سے متعلق تصانیف اور زندگی کی جامع تفصیلات، باقاعدہ تحقیق کے بعد شامل کی گئیں ہیں۔ سب سے ضخیم نمبر میر کی تین سو سالہ تقریبات میں شامل ہے مگر یہ شمارہ اول تو ضخیم ہے اور دوسرے یہ دیگر شماروں سے بالکل مختلف ہے، ہر چند واجد صاحب اور زاہدہ کی تحقیق اور تعلیم ،نے اس نمبر کو ادب پڑھنے والوں اور تحقیق کرنے والوں کیلئے ایک تحفہ بنا دیا ہے۔ یہ کوئی پچھلے چھ ماہ سے سوچا گیا ہے کہ عام نوعیت کے بہت سے شمارے پاکستان کے ہر شہر سے نکلتے ہیں۔ مگر کلاسیکی ادیبوں پہ صرف ایک مضمون کافی نہیں۔ ادھرمیر کے تو چھ دیوان ہیں۔ ان سب کو سامنے رکھ کر زعما سے کام کرنے کا کہا جائے۔ یہ محنت گزشتہ چھ ماہ میں ، شوکت صدیقی نمبر، ابن صفی نمبر کے علاوہ کئی دوسری شخصیات کیلئے الگ الگ پیرہن بنایا۔ میر نمبر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں میر کے کلام کو بڑے دھیان سے پڑھا گیا ہے۔ تمام تحقیق کے مختلف عنوانات اوراشارات سے اپنا مضمون مکمل کیا ہے۔ یہ سلسلہ توقع ہے اسی طرح آگےپڑھنے والوں کیلئےپورے سال کے شمارے ایک بہتر مسودہ بن جائیں۔

اسی بہانے سے آئیے آج کل نکلنے والے ماہناموں کا بھی جائزہ لیں اور ان کی ادبی ماہیت اور ہر مہینے ادب کے نام پر وہ کیسا مواد سامنے لا رہے ہیں۔ ایک تو مسیحی برادری کا پرچہ شاداب، باقاعدگی سے نکلتا ہے۔ اس میں انڈیا پاکستان کی تحقیقات صحیح کی جاتی ہیں۔ اب یہ تحقیقات جس طرح دستیاب ہوتی ہیں۔ وہ تذکرہ نہیں ملتا البتہ ان میں سے انڈیا کے آئے ادیبوں کی تصاویر بتاتی ہیں کہ اس شخص نے مدد کی ہے۔ ادب لطیف قیام پاکستان سے پہلے سے شائع ہوتا ہے۔ اسے مرزا ادیب، انتظار حسین اور بعد ازاں ناصر زیدی ڈوبنے سے بچاتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد کچھ نوجوان ادیبوں نے ذمہ داری لی؟ پرچہ سلامت ہے۔ مگر 75 صفحے کے پرچے میں 30غزلیں، نو افسانے بھی، ایک طرف کتابوں پر تبصرے ہوتے ہیں رسالہ آدھے گھنٹے میں ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح حامد علی کا خاندان بہت باقاعدگی سے اپنے جد امجد کے جاری کردہ شمارے میں بھی حسب موصول تحریریں شامل کی جاتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ دنیا پہ جو کچھ بیت رہی ہے اسے زیر بحث لایا جائے اور اعلیٰ درجے کی شاعری کے حسن سے شمارے کو پڑھنے والوں کے لئے نئے موضوعات اور نثر و نظم میں کیے گئے تجربات پر بحث کی جائے۔ سفر نامہ اگر مستنصر کی طرح لکھا جائے تو وہ بھی پرچہ کے وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ مگر موجودہ مدیر تو جس نے لکھ دیا اور جو لکھ دیا وہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔ ہم ادب کے ترسے ہوئے اسی کو غنیمت سمجھ لیتے ہیں۔

جب تک ڈاکٹر آصف فرخی زندہ تھا۔ وہ عالمی، انڈیا اور پاکستان کے نابغہ روزگار ادیبوں کے تراجم جمع کرنے کیلئے کمپیوٹر کے ذریعہ بہت سی تحریریں نکال کر حکم دیتا تھا، فوراً ترجمہ کرو، اسی طرح اجمل کمال، ہندوستان کی دیگر زبانوں کے تراجم ہم سب کو مار پیٹ کر اور کبھی تن تنہا یہ کام ہمارے سامنے ، یہ دونوں لاتے تو ہم کئی ہفتے تک اس پر بحثیں اور اپنے طور پر کچھ لکھتے تھے۔

کوئٹہ سے ڈاکٹر شاہ محمد مری، ماہنامہ سنگت نکالتے ہیں۔ پرچے میں مذہبی اور سیاسی گنجل کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انقلابی سوچ کے لکھنے والوں کو کرید کر نکالتے ہیں۔ ہر کام ڈاکٹری کے علاوہ خود کرتے ہیں۔ اسی طرح تاریخ کے عنوان سے ڈاکٹر مبارک بھی (جن کی بینائی جا چکی ہے) اپنی بیٹی سے سے مدد لیتے ہیں ،وہ بولتے جاتے ہیں اور یوں تاریخ کے صحیح ورقی اعداد میں اضافہ ہو تاجاتا ہے۔آخر میں ایک رسالے کا تذکرہ جو میری ادارت میں تین سال چلا۔ وہ تھا ماہ نو۔ خوش نصیب تھی کہ اس پرچے کیلئے حسن عسکری اور وقار عظیم صاحب نے بنیادی کام کیا تھا۔ یہ پرچہ رلتا ہوا میرے پاس آیا اور میں نے چالیس سالہ نمبر22سو صفحات پر مبنی نکالا۔ اس وقت دنیا میں لائبریری میں آراستہ ہے۔ میرے جانے کے بعد بھانت بھانت کے ایڈیٹر آئے اور گئے، اب سنا ہے آن لائن نکلتا ہے۔ ہم ہجے کر کے پڑھنے والے کہاں تلاش کریں ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ