شریف رپورٹ کے مطابق منجھول میں صرف چار سو مسلمان گھرانے آباد ہیں۔ گاؤں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ ہر بقرعید کے موقع پر زمانۂ قدیم سے گائےکی قربانی کرتےآئے ہیں۔اُنہوں نے مسلم لیگ کے نمائندوں کو گائے کی کھالوں کی فروخت کی رسیدیں بھی دکھائیں جو گزشتہ برسوں میں کھالوں کی تعداد سے مطابقت رکھتی تھیں، لیکن اردگرد کے دیہات کے ہندوؤں نے مادھی پور کے تحصیل دار کو یہ رپورٹ دی کہ اِس گاؤں میں کبھی گائے کی قربانی نہیں ہوئی، اِس پر تحصیل دار نے دفعہ 144کے تحت اِس گاؤں کے بارہ اَفراد کے نام قربانی نہ کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ مسلمانوں نے بہار کے وزیرِاعظم اور ضلع مجسٹریٹ کو اِحتجاجی تار بھیجے۔ اِس پر نواحی دیہات کے دس پندرہ ہزار مسلح ہندوؤں نے گاؤں کا محاصرہ کر لیا۔ یہ خبر ملتے ہی ضلعی مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس مسلح سپاہیوں کی نفری لے کر موقع پر پہنچ گئے۔ اُن کی اِس یقین دہانی پر کہ وہ گائے ذبح نہیں ہونے دیں گے، ہندو منتشر ہو گئے، لیکن جاتے جاتے مسلمانوں کے گنے کے کھیت جلا ڈالے اور گندم کی فصلیں اجاڑ ڈالیں۔
رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا کہ اِن حالات میں مسلمانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ مستقل عدم تحفظ، پریشانیوں، مصائب اور تذلیل کے عذاب سے نجات پانے کیلئے کیا اِس صوبے سے ہجرت کر جائیں یا سسک سسک کر مرنا قبول کر لیں۔ کانگریس کے ظالمانہ سلوک پر بہار کی مجلسِ قانون ساز میں تحریکِ التوا پیش ہوئی۔ اِس کے محرک مسٹر علی منظر نے واضح کیا کہ فرقہ وارانہ آویزش کی اصل وجہ کانگریسی حکومت کا ذبیحہ گاؤ پر پابندی لگانے اور مسجد کے سامنے باجہ بجانے کا اشتعال انگیز عمل ہے۔ ایک اور مسلمان مقرر نے شکایت کی کہ حکومت دفعہ 144 میں چھ ماہ تک توسیع کر دیتی ہے جس سے شہری آزادیاں سلب ہو کے رہ جاتی ہیں۔
یوپی کے ضلع گورکھ پور میں زاہد آباد کے باشندوں نے اپنے حق میں دیوانی عدالت سے اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا، لیکن ضلعی مجسٹریٹ نے پھر بھی عیدالاضحی کے موقع پر دفعہ 144 کے تحت گاؤ ذبیحہ پر پابندی لگا دی۔ عام طور پر قانون ہاتھ میں لینے کی روک تھام کیلئےحکومت دفعہ 144 نافذ کرتی ہے مگر وہ سات صوبے جہاں کانگریس کی حکومت ہے، وہاں مسلمانوں کیلئے گائے کی قربانی کرنا زندگی سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔
صوبہ بہار کی عدالتوں میں جو دستاویزات، بیانات اور عرض داشتیں اردو زبان میں دائر کی جاتی ہیں، عام طور پر عدالتیں اُن کی ہندی زبان میں نقول طلب کرتی ہیں۔ اہل کاروں کو ہندی زبان کے محکمانہ امتحان میں کامیاب ہونا پڑتا ہےجبکہ اردو زبان میں کوئی ایسا محکمانہ امتحان نہیں لیا جاتا۔ جہاں تک صوبہ بہار کی کانگریسی حکومت کی عام حکمتِ عملی کا تعلق ہے، مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کی ایک قرارداد اِس کا مکمل طور پر احاطہ کرتی ہے۔ اِس کے دو اِقتباسات قابلِ غور ہیں:
’’صوبائی مسلم لیگ بہار کی مجلسِ عاملہ نے اپنے اجلاس میں مقامی حکومت کے افعال و اَعمال اور مسلمانانِ بہار کے حقوق و مفادات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کو اُن کے بنیادی مذہبی اور شہری حقوق سے محروم کرنے میں غیرملکی دفترِ شاہی پر بھی سبقت لے گئی ہے اور اَمن و امان کے نام پر اُن کی سیاسی حیثیت اور سماجی رُتبے پر کاری ضرب لگا رہی ہے۔ کانگریسی وزارتوں میں اقلیت کے حقوق پامال کرنے کا رجحان خطرناک حدوں کو چھونے لگا ہے۔’’یہ ایک قومی المیہ ہے کہ بعض اقلیتیں، بالخصوص مسلمان صوبائی خودمختار حکومت کے عہد میں شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اِس حکومت نے تشدد پسند، جاہل اور سخت متعصب جتھوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ یہ جتھے مختلف اوقات میں ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو مذہبی رسوم کی ادائیگی اور شہری حقوق کے استعمال سے روکا جا سکے۔ وہ اَپنے اِن غیرانسانی اور غیرجمہوری مقاصد میں بڑی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
صوبہ بہار میں مسلمان زیادہ تر شہروں میں آباد ہیں اور دیہات میں اِن کی معمولی اقلیت رہتی ہے۔ جو لوگ دیہات میں رہتے ہیں، اُنہیں ہندو اکثریت کی طرف سے مستقل ایک انجانا خوف لگا رہتا ہے۔ واقعات نے اِس امر کی توثیق کر دی ہے کہ اُن کے اندیشے اور خوف بےبنیاد ہیں نہ غیرحقیقی۔ماضی میں کبھی کبھار فرقہ وارانہ فسادات ہو جاتے تھے، لیکن جب سے کانگریس کو صوبائی خودمختاری ملی ہے، اِن فسادات کی تعداد خوفناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے اور اِن کی ہولناکیوں میں بڑا اِضافہ ہو گیا ہے۔ضلع ہزاری پور میں ایک گاؤں تلکوری ہے جس کی کُل دو ہزار کی آبادی میں صرف تیس مسلمان ہیں۔ اُن میں فقط سترہ بالغ ہیں۔ وہاں 24؍اپریل 1938ء کو اِس وجہ سے فساد شروع ہوا کہ گاؤں کے ایک مسلمان نے اپنے ہم مذہبوں کو دعوتِ ولیمہ پر بلایا۔ وہ بڑے گوشت کا کھانا تیار کرا رَہا تھا کہ ہندوؤں کو خبر ہو گئی۔ وہ اُس کے گھر آ دھمکے اور اُس پر گائے ذبح کرنے کا الزام لگاتے اور ذبح شدہ جانور کا سر اَور کھال دینے کا مطالبہ کرتے رہے۔ مسلمانوں نے اُنہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ بڑا گوشت ساتھ والے گاؤں سے لائے ہیں، لیکن وہ زبردستی مکان کے زنانہ حصّے میں گھس گئے، مردوں کو زبردستی کھینچ کر باہر لے آئے اور اُنہیں بےدردی سے زدوکوب کرتے رہے۔ آخر میں اُن کے منہ میں ایک زندہ سؤر کا منہ بھی ڈال دیا۔ یہ انتہائی اشتعال انگیز کارروائی تھی جس پرمسلمان بھڑک اُٹھے اور ہندوؤں کے سامنے ڈٹ گئے۔ اُنہیں گہرے زخم آئے اور چار زخمی مسلمان اسپتال میں داخل کرائے گئے۔ گاؤں کے چوکیدار نے تھانے میں اِس وقوعے کی رپورٹ درج کرائی، لیکن پولیس کے آنے تک ہندوؤں نے بہیمانہ تشدد کا عمل جاری رکھا۔
یہ واقعہ کئی اعتبار سے بہت سنگین تھا، لیکن حکومت یا کانگریس پر اِس کا ذرہ برابر اثر نہیں ہوا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ رپورٹ درج ہونے سے پہلے ہی مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ متعلقہ مجسٹریٹ نے یہ ماننے ہی سے انکار کر دیا کہ زندہ سؤر کا منہ کسی مسلمان کے منہ میں ٹھونسا جا سکتا ہے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ