’’جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی‘‘۔’’یوںدی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران ، اے قائداعظم تیرا احسان‘‘ ، بد نصیبی! جن کو شکست دے کر آزادی حاصل کی ، 24 سال بعد16 دسمبر 1971 ءکو المیہ مشرقی پاکستان دیکھا ، تو زباں پر،’’ کھیر پکائی جتن سے چرخادیا جلا ،آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا ‘‘۔ 16دسمبر 1971ءکے دن سے سبق کیا سیکھتے ؟ آج بھی’’ بیٹھی ڈھول بجا‘‘ ، احساس زیاں ہو نہ سکا ۔ پاکستان بلبلا رہا ہے ،’’ہے کوئی مجھے بچانے والا‘‘ ، جن کے قبضہ استبداد میں مملکت ، ان میں سے تو کوئی بھی نہیں جو وطنی پکار خاطر میں لائے ۔ 16 دسمبر 1971 سے سبق کیا سیکھے، ٹوٹنے کے اگلے 52سال ، 20سال میں2مارشل لاء ، 6اسمبلیاں تحلیل ، 8وزرائے اعظم معزول دیکھے ،( جمالی اور عمران خان شامل نہیں ) ۔ ان 52 سال میں وقوع پذیر واقعات، پچھلے 24سال کی نقل ہی سمجھیں ۔ کوئی ایک مد کہ کسی نے اپنی خو چھوڑی نہ کسی ایک مد میں وضح بدلی ۔ خوفزدہ ہوں ، کہیں نتائج بھی 16دسمبر 1971ءجیسے نہ ہوں ۔داد دیں ، جنرل یحٰیی 1970ءکے الیکشن میں مجیب الرحمن کی جیت کی صورت میں اپنے آپکو دائمی اقتدار میں دیکھ رہے تھے ۔ شیخ مجیب الرحمنبارے وہم و گمان نہ تھا کہ 1971ءمیں کیا روپ دھارے گا؟مانا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ، بھارتی فوج کی مداخلت سے ہوئی ، ممکن بنانے والا مجیب الرحمن ہی جو رائے عامہ کو ریاست کیخلاف بھڑکا بلکہ ٹکرؤا چکا تھا۔ بھارتی فوج کا کام آسان رہا۔
آج پھر مشرقی پاکستان جیسے کردار من و عن موجود، جبکہ سرحد پار دشمن آج بھی رالیں ٹپکا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ہماری اسٹیبلشمنٹ نے سُکھ کا سانس لیا کہ مسائلستان سے چھٹکارا ملا۔ پاکستان سے آزادی پر مجیب الرحمن کو اطمینان قلب کہ میں نے اسٹیبلشمنٹ سے بدلہ لے لیا ہے ۔ بھٹو صاحب کو ناکافی عوامی حمایت کے باوجود ’’نیا پاکستان‘‘کو سنبھالنا پڑا ، تو یہ سمجھ بیٹھے کہ میرے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس چوائس نہیں تھی ۔ چار سال بعد بھٹو انجام کو پہنچے، نظام ساتھ ہی غرقاب۔ پچھلے 10/12 سال کی جانچ پڑتال کئے بغیر آج کے بحران کو سمجھنا اور اس سے نبٹنا نا ممکن ہے ۔ کیا آج کے جنرل یحٰیی، شیخ مجیب، بھٹو بھی موجودہ بحران کے حل میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
ایوب خان پاکستان کا بڑا قومی مجرم مگر جنرل باجوہ کے قرب و جوار میں موجود ہے ۔ ایوبی دور ہی ، مجیب الرحمن کو مشرقی پاکستان میں رفعتیں ملیں ۔ کیا مماثلت ،جنرل باجوہ نے انہی اجزائے ترکیبی کے استعمال سے سیاست کے بارھویں کھلاڑی عمران خان کو جلا بخشی بلکہ وطنی سیاست کا کپتان بنا ڈالا ۔ عمران خان نے کمال ہوشیاری اور مہارت سے بطور مہرہ اپنے پورے دورِ اقتدار میں ایک وفادار خدمتگار کا روپ دھارے رکھا ۔ جنرل باجوہ اور ساتھی یہ سمجھے ، مٹی کا مادھو ہے ’’موم کی ناک،جس طرف اور جب چاہیں گے پھیر لیں گے ‘‘۔ یقینا عمران خان بخوبی جانتا تھا کہ جس دن چاہا ، اسٹیبلشمنٹ کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دوں گا ۔
بالآخر وہ کڑادن آن پہنچا ، بقول عمران خان’’ مجھے جولائی 2021 میں بھنک پڑ گئی کہ وقت شہادت قریب ہے‘‘ ۔ بقول اسٹیبلشمنٹ ’’ہم نے یہ فیصلہ جنوری 2021 میں ہی کر لیا تھا ۔ ‘‘آج مجھے بھی کچھ اپنی باتوں کا کریڈٹ لینا ہے ۔ 22 مارچ 2018 کے کالم میں لکھا کہ’’2023 یا اس سے 1، 2 سال پہلے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے‘‘۔ مارچ 2019 میں نواز شریف سے جیل میں ملاقات کے دوران عرض کی کہ’’میاں صاحب !دو سال بعد عمران خان اسی جگہ ہوگا ، جہاں آپ آج بیٹھے ہیں‘‘ اور آخری کریڈٹ ، عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کھلے بندوں رائے دے رکھی تھی کہ’’ایک وقت آئے گا جب عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو تگنی کا ناچ نچوائے گا‘‘۔وہ ماضی کے شیخ مجیب ، بھٹو ، نواز شریف کو بھول جائے گی ۔ عمران کچھ نہیں بگاڑ پائے گا۔ میری بد قسمتی یہ ساری باتیں سچ ثابت ہوئیں۔ یہ ساری باتیں ایک مشن جان کر عام کرتا رہا تاکہ کوئی محب وطن، مستقبل کی پیش بندی کر سکے ۔
عمران خان ایک ہوشیار اور دلیر انسان ، لڑنے میں مہارت رکھتا ہے ۔ دوسری طرف جنرل باجوہ ایک بزدل شخص تھا ۔ ان دو مدوں نے عمران کو زندہ و جاوید بنا رکھا ہے جبکہ جنرل باجوہ اپنے ادارے کو دلدل میں دھکیل کر فارغ ہوا ۔’’عمران خان کو نکالنے میں بد نیتی ، کہ کہیں بطور وزیراعظم مجھے فارغ نہ کر دے‘‘۔ عمران خان کو نکالنے میں منصوبہ ہی ناقص، کمالِ ہوشیاری سے ادارے نے جنرل فیض حمید سے عمران خان کی قربت کو استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا ۔ بد قسمتی سے جنرل باجوہ نے اپنے مقام کو دوام دینے کیلئے ، ادارے سے وہ کام لیے جو اس سے پہلے متعارف نہ تھے ۔ ایجنسی کچھ کاموں کیلئے غیر سرکاری یعنی جنرل فیض کی تحویل میںدے دی گئی ۔ ایک وقت ISI کے دو رول متعین ہوئے۔ نومبر 2021 کے بعد فیض حمید کا رول، ادارے کی منصوبہ بندی کے عین مطابق تھا ۔ جنرل فیض حمید کیلئے عمران خان کی جیت بھی وارے میں جبکہ ادارے کی ہار میں ذاتِ مبارکہ وارے میں تھی ۔ جنرل باجوہ نے مخالف سیاسی پارٹیوں کو شیشے میں اتار کے سودا بیچا کہ’’ عمران خان مجھے برخواست کرکے فیض حمید کو چیف بنا ئے گا تا کہ اگلے 10 سال تک اپنا حق حکمرانی مستحکم رکھے‘‘ ۔
باوجود یکہ عمران خان کو نکالنے کیلئے سیاسی جماعتیں بوجوہ اپنی تکالیف اور مقدمات ہر شرط پر اسٹیبلشمنٹ کیلئے حاضر تھیں ۔ اہم یہ بھی نہیں کہ تحریک عدم اعتماد بارے دسمبر جنوری 2021 سے میں نے مریم نواز،شاہد خاقان عباسی اور درجن بھر قائدین کو متنبہ کیا کہ بصورت عدم اعتماد عمران کی سیاست کو دوام ملے گا اور دوسری طرف جنرل باجوہ کی طاقت کو استحکام ملے گا اور آپکے حصہ میں ذلت و خواری آئے گی۔ جہاں، 18 اگست 2018 وہ دن، پاکستان کو موجودہ حالت تک پہنچایا، وہاں10 مارچ 2022 کا دن تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ دونوں دنوں کا سہرا جنرل باجوہ کے سر باندھنا ہو گا۔ 10 مارچ کو جنرل باجوہ نے شعوری لاشعوری طور پر یقینی بنایا کہ مملکت اگر میرے پاس نہیں تو کسی کے استعمال کی نہ رہے۔ آ ج عمران خان اسی اصول کو اپنا چکے ہیں، عملی جامہ پہنا چکے ہیں، ’’میں یا کوئی نہیں‘‘۔ اسٹیبلشمنٹ کو پچھاڑنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اب جبکہ مملکت اور اسکے نظام کے اوپر تباہی کی گھنگھور گھٹائیں چھا چکی ہیں، ایسے حالات میں، کیا وطن عزیز کو بچایا جا سکتا ہے ؟
بشکریہ روزنامہ جنگ