محکمہ موسمیات کی سیاست : تحریر سہیل وڑائچ


تضادستان بھی عجیب ہے کہ یہاں قطعی غیر سیاسی محکمہ موسمیات آج کل بہت متحرک ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں اس کا نام محکمہ زراعت ہوتا تھا اور اس زمانے میں یہ محکمہ لوگوں کو سیاست سکھاتا تھا ،آج کل یہی کام محکمہ موسمیات کے نام پر ہو رہا ہے۔ پہلے لاہور اور پنجاب میں دھند چھائی تھی آج کل تو اس کا راج اسلام آباد میں بھی ہوگیا ہے۔ انتخابات کی آمد سے پہلے مصنوعی بارش برسائی جا رہی ہے تاکہ آئندہ کا موسم مرضی کے مطابق ہو جائے اور جو عمرانی گردو غبار چھایا ہواہے وہ چھٹ جائے۔ اس مصنوعی بارش کو برسانےکیلئے ماہرین عرب سے منگوائے گئے ہیں اور فارمولے امریکی آزمائے جا رہے ہیں۔ مسئلہ یہ آ رہا ہے کہ عمرانی گرد و غبار اس قدر زیادہ ہے کہ نونی بادل اس کے مقابلے میں کم مقدار میں ہیں۔ محکمہ موسمیات کوشش کر رہا ہے کہ نونی بادل کی مقدار بڑھے، وہ بھاری پڑیں تو بارش برسائیں مگر نونی بادل ابھی تک انتخابی امیدواروں کی ٹکڑیوں کو ہی سجا رہا ہے گہرے بادل کی فضا نہیں بنا سکا۔ بادل برسنے والا ہو تو ہوا پہلے سے ہی اس کا پتہ دینا شروع کردیتی ہے۔ محکمہ موسمیات ابھی تک نونی بادل کی گرج چمک پرمطمئن نہیں، ایک تو یہ کہ نونی بادل کے بننے اور گرجنے میں دیر ہو رہی ہے اور دوسرا نونی بادل میں روپے پیسے کی جو چمک نظر آنی چاہیے وہ بھی فی الحال دکھائی نہیں دے رہی۔ بادل کی گرج ،برس سے بھی عمرانی گردو غبار چھٹنا شروع ہو جائے گا مگر ابھی یہ عمل شروع نہیں ہوسکا۔ عمرانی گردو غبار محکمہ موسمیات کیلئے ابھی تک مشکل بنا ہوا ہے۔

محکمہ موسمیات سب سے باخبر ادارہ ہے ۔تازہ ترین صورتحال کے مطابق محکمہ کے ذمہ داران، عدلیہ کے حالیہ فیصلوں سے مطمئن ہیں اور اب انتخابات کی راہ مکمل طور پر ہموار ہو رہی ہے ،محکمہ موسمیات پُر اعتماد ہے کہ انتخابات کے نتائج ان کی توقع کے خلاف بھی آئے تو وہ سنبھال لیںگے، انہیں امید یہی ہے کہ نونی بادل کی تیز بارش تو ممکن نہیں لیکن اس سےزمین ضرور گیلی ہو جائے گی اور عمرانی گردو غبار وقتی طور پر بیٹھ جائے گا۔ تاہم محکمہ موسمیات عمرانی آندھی کے امکان کو بھی مکمل طور پر رد کرنے کو تیار نہیں چنانچہ آندھی کے راستے میں گرفتاریوں، مقدموں اور نااہلیوں کی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ عمرانی آندھی چھا بھی گئی تو اس کے 20،25 جیتے ہوئے لوگوں کو توڑنے کی تیاری بھی مکمل ہے۔

رائے ونڈ کے علاقہ جاتی عمرا کے موسم کی خبریں بھی بڑی دلچسپ ہیں ۔یہ تو پہلے سے طے ہے کہ نون کے وزیر اعظم کے امیدوار نواز شریف ہوں گے، شہباز شریف بھی وفاق ہی میں جائیں گے اور وزیر اعظم کے محکمہ موسمیات کے ساتھ تعلقات میں رابطہ کار کے فرائض انجام دیں گے۔ رائے ونڈ کی موسمی خبر ہے کہ تقریباً یہ طے کرلیا گیا ہے کہ مریم نواز شریف بھی نونی امیدوار برائے وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گی۔ دُھند کے اس موسم میں انہیں محفوظ نشستوں پر امیدوار بنایا گیا ہے تاکہ آنے والے دنوں میں ان کی جیت یقینی بنائی جا سکے۔سابق وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف کوبھی مرکز میں ہی جانا پڑے گا کیونکہ پنجاب کی میان میں حمزہ اور مریم نامی دو تلواروں کا اکٹھا ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ محکمہ موسمیات کو باپ اور بیٹی کا ایک ہی وقت میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب بننا پسند تو نہیں مگر انہوں نے مصلحتاً خاموش رہنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ نونی اور عمرانی دونوں کو ایک ہی وقت میں ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے۔

خطہ تضادستان میں موسمیاتی تبدیلیوں نے صرف موسم ہی نہیں بدلے محکمہ کے اختیارات بھی بدل دئیے ہیں۔ اس ملک میں محکمہ موسمیات نے سیاسی گلیشیئر پگھلا دیئے ہیں اور ایسے میں آگے کے ماحول کو بھی محکمے نے ہی سیٹ کرنا ہے ۔ سی آئی ایف سی نے زراعت، لائیو سٹاک، کان کنی اور معیشت کے اہم ترین پہلوؤں کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ہے گویا ریاست کی مکمل ذمہ داری اہل سیاست سے محکمہ موسمیات کو منتقل ہو چکی ہے۔ محکمہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر ہم نے یہ ذمہ داری نہ اٹھائی تو ریاست کی معیشت چل نہیں سکے گی۔ محکمے کے سربراہ بڑی تندہی سے اپنا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا موقف سنانےکیلئے ابھی تک صرف تاجروں اور علماء کو چنا ہے، نہ تو اپوزیشن سے ملے ہیں اور نہ ہی میڈیا کو اپنا مافی الضمیر بتایا ہے۔ اگر وہ میڈیا سے مکالمہ نہیں کریں گے تو ان کو دوسرا نقطہ نظر کیسے پتہ چلے گا، اگر دونوں نقطہ ہائے نظر کا علم نہ ہو تو جوبھی فیصلہ ہوتا ہے وہ یکطرفہ ہوتا ہے اور یکطرفہ فیصلے عارضی، ناپائیدار اور تباہ کن ہوتے ہیں۔

آندھی،طوفان، مخالف ہواؤں کے تھپیڑوں سے انصافی لیڈر شپ کو جوسیکھنا چاہیے تھا وہ تو نہیں سیکھےلیکن موسم کی شدت بڑھتے ہی انہوں نے سردی سے بچاؤ کی مہم شروع کردی ہے ۔ بیرسٹر گوہر علی اور علی ظفر کا یہ عندیہ کہ کچھ بھی ہو ہم انتخابات میں حصہ لیں گے، دانشمندی کی نشاندہی کرتا ہے۔ جیالوں پر کئی دہائیاں آندھیوں اور طوفانوںکے حملے ہوتے رہے اور وہ کبھی سیاسی سائبان میں چھپ جاتے، کبھی قانونی سائے میں چلے جاتے، کبھی اپنی قیادت میں نام نہاد تبدیلی کرلیتے، جیلوں میں جاتے رہے، قانونی جنگ بھی لڑتے رہے، یوں موسم کی سختیوں کے باوجود پارٹی کی جان بچا لیتے رہے۔ نونی خان آیا تو محکمہ موسمیات کے لاڈلے کے طور پر تھا مگر جلد ہی وہ بھی موسمی امتحانوں سے گزرا ،پہلے گرج چمک ہوئی پھر آندھیاں اورطوفان آئے، وہ کبھی موسموں سے لڑتا اور کبھی مصالحت، مفاہمت سےکام چلاتا رہا، آج پھر وہ محکمے کا لاڈلا بھی ہے اور مجبوری بھی۔انصافیوں کوسیاسی جماعتوں سے سیکھنا چاہیے اور محکمے سے مصالحت کا راستہ کھولنا چاہیے۔ تضادستان کے دریا میں رہنا ہے تو مگر مچھ سے بیرممکن نہیں۔

محکمے کو آج کل جیالا خان اتنا ناپسند نہیں جتنا ماضی میں ہوا کرتا تھا پہلےتو محکمہ موسمیات نے سوچا تھا کہ جیالا خان کی ہوا اور پانی بند کرکے سندھ میں کوئی نیا تجربہ کیا جائے مگر پھر زرداری صاحب نے مذاکرات کا ایسا دور چلایا کہ محکمے کے لوگوں کو قائل کرلیا کہ سندھ میں جیالوں کو نہ چھیڑا جائے بلکہ بلوچستان اور پنجاب میں بھی حصہ دیا جائے۔ پنجاب والا معاملہ تو آگے نہیں بڑھ سکا کیونکہ مرکزی پنجاب میں نون اور تحریک انصاف کے علاوہ کسی کا جیتنا مشکل ہے۔ البتہ جنوبی پنجاب میں انہیں کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ بلوچستان سے بھی انہیں امید بندھنا شروع ہوگئی ہے، اگر محکمے کے آج تک کے اندازے درست ہوتے ہیں اور کسی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملتی تو پھر جیالا خان کو مرکز میں بھی کچھ حصہ مل جائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن کو کیریئر کا مشکل ترین مرحلہ درپیش ہے، ایک طرف تو طالبانی حملوں کا خطرہ ، دوسری طرف پختونخوا کا عمرانی موسم ،دونوں ہی ان کیلئے خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پہلی بار بلوچستان سےبھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔

سیاسی موسم ،محکمہ موسمیات کے کنٹرول میں ہے بھی اور نہیں بھی۔ اگر تو سب کچھ قدرتی حالات پر چھوڑ دیا جائے تو عمرانی برسات جل تھل کرسکتی ہے لیکن اگر محکمے نے موسم کو مصنوعی کنٹرول میں رکھا تو پھر نتائج بھی من مرضی کے ہوں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ