دوتین دن کی شدید دھند کے بعد آج ماحول قدرے بہتر اور سورج کی چمک نمایاں تھی.. ہوا میں خنکی بھی کم تھی شاید اسی وجہ سے آج ہوٹل کی چارپائیوں پر قدرے رونق نظر آرہی تھی،
گاوں کے اس کلچر کا اپنا ہی مزہ ھے،گھروں سے باھر کھلی فضا میں بیٹھ کر گپ شپ لگانا اور حالات حاضرہ پر بحث کرنا،
جیدو کے چہرے کی جھریاں اگرچہ گہری لیکن سادگی کا رنگ اب بھی نمایاں تھا…
اور کافی دنوں کے بعد جمنے والی اس محفل کو دیکھ کر کچھ اور بھی چمک آئی ھوئی تھی، موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اچانک سب کو مخاطب کر کے کہنے لگا..
اچھا بتاؤ چاچے محبوب کو بڑے جانور کا گوشت بناتے ھوئے کس نے دیکھا ھے..
جیدو کی طرف متوجہ تو سب ھی ھو گئے لیکن ہاتھ محض دو تین سفید ریش افراد ہی کے بلند ہوئے..
اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ گاؤں میں گوشت بنانے والے چاچا محبوب کو بھی اس دنیا کو چھوڑے ھوئے کئی سال ھو چکے ہیں،
جیدو کہنے لگا کہ جب چاچا. جانور کو ذبح کر کے لکڑیوں سے بنائے مخصوص سٹینڈ پہ لٹکاتا اور اس کے ٹکڑے کرنے شروع کرتا تو گاؤں کے بہت سے آوارہ کتے اس سے کچھ فاصلے پہ آکر بیٹھ جاتے اور للچائی ھوئی نظروں سے گوشت اور چاچے محبوب کے ہاتھوں کی حرکت کو دیکھتے رھتے.. چاچا جب بھی کوئی ھڈی یا کوئی گوشت کا فالتو ٹکڑا جیسے چربی یا کوئی غدود وغیرہ کاٹ کر دور پھینکتا تووہ سب اس پر لپکتے، جس کے منہ میں آجاتا وہ قدرے دور جاکر اسے آرام سے کھاتا اور باقی پھر سامنے آکے بیٹھ جاتے، یہ عمل گوشت کے آخری ٹکڑے کی فروخت تک جاری رہتا اور اس دوران اگر کوئی کتا ایک خاص حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تو چاچا محبوب اپنے ہاتھ میں پکڑے لوھے کے مضبوط ٹوکے کو ہوا میں بلند کر کے اسے پیچھے ھٹا دیتا،
حتی کہ جانور کا گوشت بالکل ختم ھو جاتا اور وہ سب دائیں بائیں چلے جاتے..
ھم نے دیکھا کہ جیدو کی اس ساری گفتگو کے دوران ان تمام افراد نے نہ تو کوئی سوال کیا اور نہ آپس میں کوئی کلام، بلکہ مکمل توجہ کے ساتھ اس کی بات کو سنتے رھے،
جیدو پھر گویا ھوا،
ھمارے ملک کے پیشہ ور سیاستدانوں کی اوقات اور حیثیت بھی اس سے ذیادہ نہیں ھے، یہ بھی مفادات کے حصول کے لئے اقتدار کی بالکونیوں میں یوں ھی مودب بیٹھے رھتے ہیں اور جب ایک جگہ سے مفادات مکمل ختم یا بند ھو جاتے ھیں، تو کسی اگلی پارٹی کا انتخاب کرتے ہیں،،
جیدو کی اس ساری گفتگو میں سوائے پیشہ ور سیاستدانوں پر کڑی تنقید کے کوئی دوسری بات نہیں تھی، کوئی روٹی کپڑا مکان، کوئی ریاست مدینہ اور نہ کوئی انقلاب کی بات لیکن اس کے باوجود مکمل خاموشی….
چونکہ ھمارا اب گاؤں میں جانا کم کم ھوتا ھے اس لئے ھم بھی خاموش ھی رھے لیکن جب دیکھا کہ کسی ایک فرد نے بھی جیدو کی ان باتوں پر کوئی سوال و جواب یا تبصرہ نہیں کیا،
تو ھم سے نہ رھا گیا لیکن ھم نے سب کی بجائے صرف اپنے یار جیدو ھی کو مخاطب کر کے اسے سمجھایا کہ..
اپنی عمر کے اس حصے میں اپنی ذبان کا استعمال ذرا احتیاط سے کیا کرو، تمہاری ساری باتیں درست ھیں لیکن یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ کل کلاں اگر کوئی گلی یا نالی پکی کروانی پڑ گئی، کہیں بجلی کا کھمبہ ضرورت پڑ گیا یا ہھر کوئی ٹرانسفارمر ھی تبدیل کروانا پڑ گیا تو تمہیں انہی پیشہ ور سیاستدانوں کے نمائندوں کے پاس جانا پڑے گااور اگر یہ باتیں ان کے علم میں ھوئیں تو وہ تمہیں اپنے گھر کی دھلیز سے اندر نہیں جانے دیں گے..
ھم نے دیکھا کہ جیدو کی اس پوری تنقیدی تقریر کے دوران مکمل خاموش مجمع ھمارے محض چند جملوں پر ھی اثبات میں سر ھلا رھا تھا…
گویا ھماری بات ان کے دل کی آواز تھی..؛
Load/Hide Comments