حالیہ دنوں ہونیوالی کچھ سیاسی پیش رفت نے بہت سے پاکستانیوں کو پریشان کردیا ہے ۔ وہ محسوس کررہے ہیں جیسے باقاعدہ منظم طریقے سے بے دست و پا کرتے ہوئے انھیں اپنے مستقبل کا تعین کرنے کے کردار سے محروم کیا جارہا ہے ۔ لیکن وہ جن کی معلومات کا بنیادی ذریعہ سوشل میڈیا ہے، ان کا خیال ہے کہ یہ منفرد واقعات ہیں یا ایسا کچھ پہلی مرتبہ ہونے جا رہا ہے۔
عالمی معیار پر پرکھیں تو پاکستان نوجوان آبادی رکھتا ہے۔ اس کے 240 ملین افراد میں سے نصف سے زیادہ کی عمر اکیس سال سے کم ہے۔ ایک نوجوان آبادی میں کام کرنیوالے افراد کی زیادہ تعداد ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اکثر معاشی نمو کے مواقع کھلتے ہیں۔ لیکن جب بہت زیادہ نوجوان تو ہوں اور انھیں تعلیم، مہارتوں اور روزگار کے مواقع میسر نہ ہوں، جیسا کہ پاکستان میں دیکھنے میں آ رہا ہے، تو یہ آبادی تشویش اور بے چینی کا باعث بن جاتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی غیر یقینی پن کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ایک بڑی تعداد میں ناراض نوجوان آبادی ان میں سے ایک ہے۔
اس وقت نوجوان پاکستان سوشل میڈیا کے رسیا ہیں، لیکن وہ ایسی معیاری تعلیم نہیں رکھتے جو انھیں سوچنا سکھائے کہ ضروری نہیں کہ سوشل میڈیا پرپیش کی جانے والی ہر چیز درست ہو اور یہ کہ جو چیز انھیں کبھی سوشل میڈیا پر دکھائی نہیں دی، اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست پر بہت عرصے سے اشرافیہ کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ اسے آئینی اور قانونی تقاضوں، جو ایک جمہوری ریاست کی بنیاد ہیں، سے کوئی سروکار نہیں۔ پاکستانی تاریخ کی حماقتوں سے بے خبر رہنے کا نتیجہ ہے کہ نوجوان نسل ماضی کی غلطیوں کو یاد تو کرتی رہتی ہے لیکن یہ نہیں سمجھ پاتی کہ وہ کیا تھیں اور ان سے کس طرح گریز کیا جاسکتا تھا۔ جس دوران آنیوالے عام انتخابات کے بارے میں افواہوں کا بازار گرم ہے، فیلڈ مارشل ایوب خان کے بطور صدرِ پاکستان کرائے گئے 1965ء کے انتخابات کا جائزہ لینا فائدہ مند ہو گا۔ وہ نوجوان جو شاید جانتے ہوں کہ ایوب خان ، جنھو ں نے پاکستان میں سب سے پہلے مارشل لا لگایا، تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل، عمر ایوب خان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، میاں گل حسن اورنگ زیب کے دادا تھے۔ ایوب خان نے پہلے اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا کی حمایت کرتے ہوئے، اور پھر 1956 ء کا آئین معطل کرکے مارشل لا لگاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد اسکندر مرزا کو گھر بھیج کر خود صدر پاکستان بن گئے۔
اکیڈمک جرنل ایشین سروے کے جون 1965ءکے شمارے میں ایک مضمون میں، پروفیسر شریف المجاہد نے لکھا، ’’چار سال سے بھی کم عرصے تک ایوب نے آہنی ہاتھوں سے حکومت کی، لیکن کئی ایک مفید اصلاحات متعارف کروائیں (جیسے زمین سے متعلق، زراعت، اور عائلی قوانین)۔ انھوں نے انتظامیہ کی کارکردگی بہتر بنائی اور بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ اور اسمگلنگ جیسی سماجی برائیوں کیخلاف عملی اقدامات کیے۔‘‘ پاکستان کی معیشت نے ایوب کے دور میں امریکی اور مغربی اقتصادی امداد اور سرمایہ کاری کے بڑے ادغام کے ساتھ متاثر کن ترقی کی۔
ایوب نے کھلے عام اس یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک ’’مغربی جمہوری نظام کے دباؤ اور تناؤ‘‘ میں ترقی نہیں کر سکتے۔ لیکن پاکستانی اور بین الاقوامی رائے عامہ کے اہم طبقات ان سے جمہوریت کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے۔ 1964ءتک ایوب خان نے محسوس کیا کہ ملک نسبتاً کنٹرولڈ جمہوریت کیلئے تیار ہے۔ ان کی طرف سے مسلط کردہ آئین کے تحت، ملک (جس میں اس وقت کا مشرقی پاکستان بھی شامل تھا) کو 80,000 چھوٹے انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا جن میں سے ہر ایک میں تقریباً 200-600ووٹر تھے، جنہوں نے ’بنیادی ممبران‘ کو منتخب کیا ۔ ان بنیادی ممبران کو صدر اور اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کو منتخب کرنا تھا۔
ایوب کے حامیوں کا استدلال تھا کہ انھیں ’’مسلم دنیا کیلئے ان کے منفرد کارنامے، انتظامیہ کے استحکام اور مجموعی ترقی،سیاسی اور اقتصادی استحکام اور ملک کا خوشحال مستقبل اور مسلم دنیا میں اتحاد‘‘ کو یقینی بنانے کے اعتراف میں بلامقابلہ منتخب کیا جانا چاہیے۔ لیکن حزب اختلاف نے اپنی کمزوری پر قابو پاتے ہوئے اکٹھے رہ کر ایوب کے بلامقابلہ انتخاب کا راستہ روک لیا۔ بانی پاکستان کی انتہائی قابل احترام بہن محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار کے طور پر فیلڈ مارشل کے خلاف الیکشن لڑنے میدان میں اتریں۔ مس جناح نے مغربی پاکستان کا آٹھ روزہ دورہ کیا۔ پشاور سے کراچی تک پورے راستے بھرپور، ہنگامہ خیز استقبال کیا گیا، اپوزیشن کیمپ میں جان ڈال دی، اور اسے دلیر اور پرعزم اور اپنی بات کہنے کے قابل بنا دیا۔ لیکن اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ مستقبل کے انتخابی جوڑ توڑ کا سانچہ بن گیا ہے۔
پروفیسر مجاہد کے بیان کے مطابق، میڈیا نے حزب اختلاف کو ’’سماج دشمن‘‘، اسکی سرگرمیوں کو ’’ناپاک‘‘ اور اسکے مشن کو ’’افراتفری پھیلانا‘‘ قرار دیا۔ اپوزیشن کی میڈیا تک رسائی، مہم چلانے کی آزادی، اور پولنگ اور پریزائیڈنگ افسران کی تقرری کے بارے میں بھی تنازعات تھے۔ اپوزیشن نے رپورٹ کیا کہ ووٹروں، پولنگ ایجنٹوں، کارکنوں اور حامیوں کوپورے ملک میں اغوا، دباؤ اور جبر اور گرفتاریاں کا سامنا ہے۔ جب پاکستان میں 2جنوری 1965کو انتخابات ہوئے تو نتائج کے مطابق ایوب کو واضح، بھرپور، بلکہ زبردست فتح حاصل ہوئی، جبکہ اپوزیشن کو دندان شکن شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بڑے شہروں نے عموماً اپوزیشن کا ساتھ دیا جبکہ دیہی علاقوں میں ایوب کو ’’زبردست پذیرائی‘‘ ملی۔اپریل میں ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی ایوب خان کی پارٹی کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ اپوزیشن نے انتخابی نتائج پر احتجاج کیا اور محترمہ فاطمہ جناح نے انہیں ’’دھاندلی زدہ‘‘ قرار دیا لیکن فوری طور پر سڑکوں پر احتجاج یا دھرنا نہیں دیا گیا۔ ایوب خان کا خیال تھا کہ انھوں نے پانچ سال کی مدت حاصل کر لی ہے، لیکن وہ صرف مارچ 1969تک اقتدار میں رہ سکے۔ اس کے بعد سڑکوں پر پرتشدد مظاہرے ہونے لگے اور انھوں نے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ اپنی انتخابی فتح اور انکے اقتدار سے بے دخلی کے درمیانی عرصے میں ایوب نے جنگ میں ملک کی قیادت بھی کی، جنگ کے بعد بھارت کے ساتھ امن معاہدہ، امریکہ سے دوری، اور چین اور روس کے ساتھ معاہدہ بھی کیا۔
تاریخ کا یہ 59سال پرانا صفحہ واضح کرتا ہے کہ نوجوان پاکستانی ان دنوں جس بات پر ناراض نظر آتے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن پاکستانیوں کو آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر تلملانے کا اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا تھا، جتنا 1965 ء میں ہوا تھا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ