مجھے پراڈو نہیں چاہیے! … تحریر : ذوالفقار احمد چیمہ


گاؤں چھوٹا تھا مگر گاؤں کے چوہدری جی اپنے کردار کے لحاظ سے بہت بڑے تھے۔ آس پاس کے دیہاتوں کے چوہدریوں سے بالکل مختلف۔ دوسرے چوہدری اپنے مزار عین اور غربا کو حقیر سمجھتے تھے۔

وہاں کسی بے زمین محنت کش (کمی) کو چوہدری صاحبان کے ساتھ چارپائی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی مگر یہ کوئی وکھری ٹائپ کے چوہدری تھے جو مزارعوں کو اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتے، ان کی عزت کرتے، انھیں پورے نام سے بلاتے تھے۔

اسی لیے دوسرے چوہدری شکوہ کرتے کہ ِاس چوہدری نے کمیوں کا دماغ خراب کردیا ہے۔ دوسرے چوہدری اپنے دیہاتوں میں اسکول نہیں بننے دیتے تھے کہ غریب مزارعین کے بچے تعلیم حاصل کرگئے تو ہماری چاکری کون کرے گا مگر اس چھوٹے گاؤں کے بڑے چوہدری جی نے (جو خود بھی گریجویٹ تھے) کوشش کرکے اپنے گاؤں میں پہلے لڑکوں کا اور پھر لڑکیوں کا اسکول بنوایا اور پھر کوشش کرکے انھیں اپ گریڈ کروادیا۔
گاؤں کی چوہدرانی یعنی چوہدری جی کی شریکِ حیات ( گاؤں کی بی بی جی)بھی انتہائی پارسا اور عبادت گزار خاتون تھیں، وہ بھی غریبوں کا خیال رکھتیں اور ان کی بچیوں کی شادی پر دل کھول کر مدد کرتیں۔

خالق ومالک نے انھیں تین بیٹے اور دو بیٹیاں عطا کی تھیں، جن کی وہ اپنے عمل اور کردار سے دن رات تربیت کرتے۔ گاوں کی چوہدرانی یعنی بی بی جی کا معمول تھا کہ صبح تہجد اور فجر کی نماز کے بعد دودھ بلوتیں، طلوعِ آفتاب سے پہلے ہی گاؤں کی عورتیں درجنوں کی تعداد میں لسی لینے کے لیے اپنے اپنے برتن لے کر ان کے صحن میں آجاتیں اور بی بی جی ان کے برتن لسی سے بھردیتیں، کچھ حقداروں کو لسی کے ساتھ مکھن بھی دیتیں۔

قرآن ِ مجید کی تلاوت کے بعد بی بی جی خالص مکھن سے پراٹھے بناتیں اور ان کے بچے ان کے ارد گرد پیڑھیوں پر بیٹھ پر ساگ یا خالص دہی کے ساتھ ناشتہ کرتے۔ رات کا کھانا وہ سب گھر کے چھوٹے کمرے میں اکٹھے مل کر کھاتے۔ بیٹے ابا جی کے ساتھ چارپائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے۔ اور امی جی سالن اور میٹھا ڈال کر دیتیں۔ کھانے کے بعد ابا جی بچوں کو کوئی کہانی سناتے جس میں ہیرو کی ایمانداری، سچائی ، بہادری یا قناعت کو گلوری فائی کیا جاتا۔

کہانی سننے کے بعد بچے وہی اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی جستجو اور خواہش کرتے۔خالق ومالک نے چوہدری جی کو غیر معمولی خوبیوں سے نوازا تھا، ان کے منہ سے کبھی کسی نے جھوٹ کا ایک لفظ نہیں سنا تھا، وہ کبھی کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے، گھر کا کوئی فرد کسی شخص کے کسی کمزور پہلو کا ذکر کرنے لگے تو روک دیتے اور کہتے کہ دوسروں کی خامیوں کا نہیں خوبیوں کا ذکر کرنا چاہیے قناعت پسندی ان پر ختم تھی، ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر بجا لاتے تھے۔

کبھی ساری فصل تباہ ہوجائے تو کوئی غم نہیں لگاتے بلکہ گھر والوں کو حوصلہ دیتے اور اللہ کی دوسری نعمتیں یاد کراتے تھے۔ کبھی فصل بہت اچھی ہوجائے یا کنو کاباغ اچھا بک جائے توexcited نہیں ہوتے تھے۔

ایک بار باغ کا خریدار آیا اس نے جو پیشکش کی، چوہدری جی نے مان لی، لوگوں کے خیال میں انھوں نے باغ بہت سستا بیچ دیا تھا۔

تھوڑی ہی دیر بعد ایک اور گاہک آیا جس نے تین گنا زیادہ رقم آفر کی، ایک بیٹے نے ڈرتے ڈرتے بات کی تو ابا جی نے تقدیروں کے خالق کی آیات اور نبی کریم کے فرمودات سنا کر سمجھایا کہ جو بات کرو اسے پورا کرو، دل میں پیسے کی محبت کبھی پیدا نہ ہونے دو۔

چوہدری جی بڑے غیر محسوس طریقے سے اپنے بیٹوں کی کردار سازی کررہے تھے اور ان کے رگ وپے میں انصاف، رزقِ حلال اور ایمانداری اور اصول پسندی کی اہمیت اور فضیلت، بڑوں کا احترام، غریبوں سے محبت اور حرام خوری، بدکاری، شراب اور نشے سے نفرت کے جذبات اتار رہے تھے، وہ پوری کوشش کررہے تھے کہ ان کے بچے پاکیزہ کردار اور قناعت پسند بنیں اور ان کے دلوں میں دولت کے لیے رغبت اور کشش پیدا نہ ہو۔

بیٹے عمر اور تعلیم کے ابتدائی زینے طے کرکے کالجوں میں پہنچ گئے۔ لاہور کے کلاس فیلوز اور دوستوں کا بلند معیارِ زندگی دیکھ کر ان کے دل میں شوق پیدا ہونے لگا کہ ہمارا بھی بڑا بنگلہ ہو اور ہمارے پاس بھی کار ہو۔

ایک شام کھانے کے بعد کچھ ایسی باتیں ہوئیں تو کھانے کے بعد چوہدری جی تینوں بیٹوں کو باہر لے گئے، گاؤں کی مسجد کے ساتھ ایک برگد کا بہت بڑا درخت تھا اور اس کے ساتھ ہی گاؤں کے ایک غریب مزدور غلام رسول مصلی کا کچا گھر تھا۔ غلام رسول اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ مزدوری کرتا تھا، ان دنوں بہت معمولی دیہاڑی ملتی تھی، جس سے وہ بمشکل اپنے کنبے کے لیے ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی کا بندوبست کرپاتا تھا۔

چوہدری جی برگد کے درخت کے نیچے کھڑے ہو کر بیٹوں سے مخاطب ہوئے یہ جو سامنے کچا گھر ہے، جانتے ہو کس کا ہے؟ بیٹوں نے کہا جی غلام رسول کا ہے۔ پھر کہا اس کی کوئی زمین نہیں، وہ اور اس کے بچے سالن سے نہیں چٹنی سے روٹی کھاتے ہیں۔

ان کے گھر میں کوئی رضائی نہیں، اس کے بچوں کے پاس پہننے کے لیے کپڑے بھی نہیں، اب ادھر آکر ذرا خاموشی سے سنو! بیٹے خاموش ہوئے تو انھوں نے سنا، غلام رسول کے گھر سے قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ بات کرتا تو اس کی بیوی اور بچے کھلکھلا کر ہنستے، اس کی بیوی کوئی بات کرتی تو غلام رسول اور اس کے بچے ہنس ہنس کر دہرے ہوجاتے۔ اب چوہدری صاحب بیٹوں سے مخاطب ہوئے دیکھو! یہ لوگ کتنے خوش ہیں۔

انھیں آپ جیسی کوئی نعمت حاصل نہیں مگر اللہ نے انھیں کس قدر خوشیاں نصیب کی ہیں۔ خوشی دولت سے نہیں اطمینانِ قلب سے ملتی ہے اور اطمینانِ قلب، قناعت سے حاصل ہوتا ہے، اللہ تعالی سے دعا کیا کریں کہ وہ آپ کو اطمینانِ قلب عطا کرے اور آپ کو قناعت کی دولت سے مالا مال کردے، اس شام کے عملی مشاہدے سے قناعت کا سبق مکمل ہوگیا۔ بیٹے گھر پہنچے تو ان کے دلوں میں قناعت کی فضیلت نقش ہوچکی تھی۔

پانچوں بچوں کی شخصیت تشکیل پارہی تھی اور ان کے دلوں میں یہ بات راسخ ہوتی جارہی تھی کہ دنیاوی مال ودولت کی کوئی اہمیت نہیں، والدین بچوں کو یہ بھی بار بار بتاتے رہتے کہ اگر مال ودولت کی اہمیت ہوتی تو اللہ تعالی اپنے افضل ترین نبی کو دنیا کا امیر ترین شخص بنادیتے۔

چوہدری جی نے بیٹیوں کو بھی آخری درجے تک تعلیم دلوائی اور بیٹوں کو اعلی تعلیم کے لیے باہر بھی بھیجا، بڑا بیٹا بیرسٹر بن کر واپس آیا، پہلے وکالت کی اور پھر ایڈیشنل سیشن جج بن گیا۔ بیٹا جج بنا تو والدہ نے پروردگار سے دعا مانگی یا رب العالمین، میرے بیٹے کو حرام کی کمائی سے بچا کر رکھنا، اس کے اور اس کی اولاد کے منہ میں حرام کا ایک لقمہ بھی نہ جانے دینا، لیکن اگر شیطان نے اسے گمراہ کرکے رشوت خوری پر لگادیا تو پھر اسے دنیا سے ہی اٹھالینا۔

گھر میں حلال وحرام کی تمیز ہر روز سکھائی جاتی تھی، والدہ کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو بیٹوں کی ساری تربیت مکمل ہوگئی۔ نیک والدین کے تربیت یافتہ بیٹے نہ صرف اعلی عہدوں تک پہنچے بلکہ وہ اپنی اپنی سروس کے رول ماڈل قرار پائے۔ بیرسٹر صاحب ہائی کورٹ کے جج بنے، دوسرا ڈاکٹر تھا، وہ پورے پنجاب کا ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ بنا اور تیسرا آئی جی پولیس بنا۔

اولاد کی رزقِ حلال سے پرورش کرنے والے والدین کی دعا قبول ہوئی اور تینوں بیٹوں نے رزقِ حلال کو ایمان کا حصہ بنالیا۔ جج صاحب ہائیکورٹ سے ریٹائر ہوئے تو گاؤں میں آبسے کیونکہ کسی شہر میں ان کا کوئی مکان نہیں تھا۔ 2008 میں لوگوں نے انھیں انتخابات میں اتاردیا، مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر وہ اپنے حریف کو پچیس ہزار کی لیڈ سے ہراکر ایم این اے بن گئے۔

ترقیاتی فنڈز ملے تو جلسہ عام میں اعلان کیا کہ فنڈز میں سے کمیشن لینا سور کے گوشت کی طرح حرام ہے، اس پر ان کے کئی ساتھی ناراض ہوگئے۔ دس سال ایم این اے رہنے کے بعد بھی وہ گاؤں میں انتہائی سادہ اور پرسکون زندگی گذارتے ہیں۔

2018میں دوسرے بھائی ڈاکٹر انتخابی میدان میں اترے۔ مخالفین کی انتخابی مہم میں دس دس پراڈو گاڑیوں کا قافلہ ہوتا تھا مگر ڈاکٹر صاحب دو پرانی سے کاروں پر پھرتے رہے۔

اللہ کو ان کی دیانت اور عوا م کو سادگی پسند آئی اور ضلع بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر ایم این اے بنے۔ ترقیاتی فنڈز کے ایک ایک پیسے کو عوام کی امانت سمجھا اور کمیشن کو دوزخ کی آگ سمجھ کر اس سے دامن بچا کر رکھا۔

2024 والے انتخابات کا شور اٹھا تو ٹکٹوں کے سوداگر کروڑوں روپے لے کر خریداری کے لیے نکل پڑے۔ ایک سوداگر نے، جو نہیں جانتا تھا کہ ڈاکٹر نثار چیمہ کس تربیت گاہ کا فارغ التحصیل ہے، انھیں بھی بیس کروڑ الیکشن فنڈ اور پراڈو گاڑی کی آفر کردی کہ اس کے بدلے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے میری سفارش کریں۔

انھوں نے پہلے غصے پر قابو پایا اور پھر حواس بحال کرکے کہا ،تمہیں شرم آنی چاہیے، اگر میں نے حرام کے پیسے کو ہاتھ بھی لگایا تو اللہ کے ہاں تو بعد میں سزا ملے گی مگر مجھے یقین ہے کہ میرے والدین کی قبریں پھٹ جائیں گی اور ان کی روحیں قبروں سے نکل کر میری گردن دبوچ لیں گی۔ میں لعنت بھیجتا ہوں ایسے پیسوں پر، نہیں چاہیے مجھے پراڈو۔

قوم ہر سیاستدان کے منہ سے یہی الفاظ سننا چاہتی ہے مگر اس کے لیے پاکباز والدین کی برسوں کی تربیت درکار ہوتی ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس