سرِ راہ چلتے لوگوں سے اچانک ملاقات ہوجائے تو ان کی اکثریت 8فروری 2024 کے روز انتخاب کے انعقاد کے بارے میں پراعتماد سنائی نہیں دیتی۔ گھر کا سودا سلف لینے کی خاطر مجھے اپنے گھر کے قریب واقع مارکیٹ کی چند دوکانوں میں جانا پڑا تو دوکانداروں کے علاوہ وہاں موجود گاہکوں کی معقول تعداد بھی مجھ سے پوچھتی رہی کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں۔پاکستانی معیشت کا چند طاقت ور ممالک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں پر کامل انحصار مجھے جبلی طورپر یہ طے کرنے کو مائل کرچکا ہے کہ انتخاب سے فرار فی ا لحال ممکن نہیں۔ وجوہات بتائے بغیر میں خود سے سوال کرنے والوں کو مختصرا یہ جواب دیتا ہوں کہ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ انتخاب ہوں گے۔فرض کیا موخر بھی ہوئے تو انہیں مارچ سے آگے لے جانا ممکن نظر نہیں آرہا۔ میری رائے کو مگر زیادہ تر لوگ طنز چھپاتی مسکراہٹ سے تسلیم کرتے نظر نہیں آتے۔
انتخاب کے انعقاد کے حوالے سے لوگوں کے دلوں سے چمٹے شکوک وشبہات سرِ راہ ہوئی ملاقاتوں کی بدولت مجھ تک پہنچے تو میں پریشان ہوگیا۔سپریم کورٹ ریاست پاکستان کا اہم ترین ستون ہے۔اس کے معزز چیف جسٹس صاحب نے دیگر سینئر ججوں کے ساتھ مل کر اٹارنی جنرل کو مجبور کیا کہ وہ صدر پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کے مابین مشاورت کی راہ نکالیں۔ اٹارنی جنرل متحرک ہوئے تو بالآخر عام انتخاب کے لئے 8فروری 2024 کی تاریخ طے ہوگئی۔ اس تاریخ کو بعدازاں عالی جناب چیف جسٹس صاحب نے پتھر پر لکھی تحریر پکارا۔اس فرمان کے بعد شک وشبے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہنا چاہیے تھی۔ حکم یہ بھی ہوا کہ صحافی شکوک وشبہات اکسانے سے باز رہیں۔پیدائشی بزدل ہوتے ہوئے میں اس حکم کی تعمیل کرتا رہا۔
مولانا فضل الرحمن کا شمار لیکن وطن عزیز کے صف اول کے سیاسی قائدین میں ہوتا ہے۔پیر کی شام ہی ان کی ذات سے منسوب ایک بیان ٹی وی سکرینوں پر ٹِکروں کی صورت گردش کرتا رہا۔ موصوف کو انتخاب ہوتے نظر نہیں آرہے تھے۔چند علاقوں میں سردی کی شدت اور برفباری کے امکانات سے کہیں زیادہ انہیں یہ فکر بھی لاحق ہے کہ دین اسلام کے ازخود پاسبان ہوئے چند انتہاپسند دہشت گرد کارروائیوں کے ذریعے ریاستی مشینری کو انتخابات سے مطلوب سکیورٹی فراہم کرنے کے ناقابل بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ پرامن انتخاب کا ا نعقاد یقینی بنانے کے لئے ریاست کو ایسے عناصر کے خلاف فیصلہ کن پیش قدمی لینا ہوگی۔
مولانا فضل الرحمن کے خیالات کو یہ سوچ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ ان کی جماعت اپنے گڑھ یعنی خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا توڑ ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہے۔اسی باعث انتخاب سے فرار کے جواز تراش رہی ہے۔تحریک انصاف انتخابی میدان میں مولانا کی جماعت سے یقینا زیادہ طاقت ور نظر آرہی ہے۔ ذاتی طورپر لیکن میں یہ بھی سوچنے کو تر جیح دوں گا کہ انتخابی میدان کے دیرینہ کھلاڑی ہوتے ہوئے مولانا اس کھیل میں ہار جیت کے عادی ہیں۔فرض کیا غیر جانبدارانہ انداز میں ہوئے انتخاب انہیں واقعتا شکست سے دو چار کردیں گے تو وہ اسے کڑوا گھونٹ سمجھ کر برداشت کرلیں گے۔
یہ لکھنے کے بعد مگر یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ عالمی سطح پر جانی پہچانی ایک انتہا پسند تنظیم نے چند ماہ قبل ہمارے دین کے چند بنیادی اصولوں کی اس انداز میں تشریح کی جو انتخابی عمل میں حصہ لینے کو کفر قرار دیتا ہے۔مذکورہ تشریح کی ر وشنی میں مولانا کی ذات اور جماعت پر شدید نکتہ چینی ہوئی۔ انہیں گویا چارج شیٹ لگاکر نامزد کردیا گیا۔دریں اثنا ان کی ذات کے علاوہ ان کی جماعت کے دیگر لوگوں پر حملے بھی شروع ہوگئے۔ کچھ مساجد اور مدرسے بھی مولانا کے مسلکی اعتبار سے قریب ہونے کے سبب دہشت گرد کارروائیوں کا نشانہ بنے۔مذکورہ تناظر میں مولانا کے اس مطالبے سے سو فیصد اتفاق کرنا ہوگا کہ8فروری 2024 کے روز انتخاب کویقینی بنانے کے لئے ریاست پاکستان کو جامع حکمت عملی کے تحت انتہا پسندوں کے خلاف پیش قدمی دِکھتے اقدامات لینا پڑیں گے۔
مولانا فضل الرحمن کے بیان کردہ خدشات واجب سنائی دینے کے باوجود شاید بہت اہم محسوس نہ ہوتے اگر دیگر جماعتیں بھرپور انتخابی مہم میں مصروف نظر آتیں۔ مسلم لیگ (نون) اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرسکتی تھی۔ اس کے قائد 21اکتوبر کو لندن میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد وطن لوٹے ہیں۔بیرون ملک سے واپسی کے بعد انہوں نے محض لاہور میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔نومبر اور دسمبر کے دو مہینے انہوں نے اپنی جماعت کے سرکردہ لوگوں سے مشاورت کے علاوہ اپنی جماعت کے متوقع امیدواروں کے چنائو کی نذر کردئے۔ وہ روز انہ کی بنیاد پر انتخابی مہم کے لئے شہر شہر جارہے ہوتے تو لوگوں کو یقین آجاتا کہ 8فروری کے روز انتخاب کا انعقاد طے ہوچکا ہے۔فی الوقت میدان میں ہمیں روزانہ کی بنیاد پر فقط بلاول بھٹو زرداری ہی لوگوں سے براہ راست رابطے کی کوششو ں میں مصروف نظر آرہے ہیں۔
تحریک انصاف کے قائدین کی اکثریت اگر جیل میں نہیں تو 9مئی 2023 کے واقعات کی وجہ سے بنائے مقدمات کے خوف سے روپوش ہوچکی ہے۔ان کی روپوشی نے تحریک انصاف کے دیرینہ مداحین کو سوشل میڈیا کے ذریعے ایسا بیانیہ تشکیل دینے کو اکسایا جو عملی سیاست کو درکار لچک سے قطعا محروم ہے۔اس کے ذریعے پھیلایا انقلابی پیغام مگر لوگوں کی کماحقہ تعداد کو متاثر کررہا ہے۔ایسے حالات میں روایتی میڈیا کے لئے لکھنے والے مجھ جیسے محتاط کالم نگار اور پیمرا کے لائسنس کے تحت چلائے ٹی وی چینلوں کیلئے ٹاک شوز کرنے والوں کی ا کثریت قارئین وناظرین کو سچ بتاتی اور دکھاتی محسوس نہیں ہورہی۔ خبر اور سچ کا واحد ذریعہ اب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہی تصور کئے جارہے ہیں۔پرانی وضع کا صحافی ہوتے ہوئے اپنی ساکھ لٹ جانے کا احساس مجھے بہت دنوں سے پریشان کئے ہوئے ہے۔اکثر یہ سوچتا ہوں کہ اگر عمر کے آخری حصے میں سچ بیان کرنے کے ناقابل بکاؤ یا بزدل صحافی ہی ثابت ہونا تھا تو ساری زندگی اس کارِ بے سود میں کیوں صرف کردئے۔میں تاہم فقط ایک فرد ہوں۔میری ذات کو لاحق فکر اجتماعی تناظر میں ذرہ برابر حیثیت کی حامل نہیں۔پریشان کن حقیقت مگر یہ ہے کہ لوگ سپریم کورٹ جیسے ریاستی ستون کی جانب سے پتھر پر لکھی تحریر ٹھہرائی تاریخ کا بھی اعتبار نہیں کررہے۔ اس کے علاوہ انتخاب کے حوالے سے اہم ترین ادارہ الیکشن کمیشن ہے۔ اس کے نامزد کردہ ریٹرننگ افسروں نے تھوک کے حساب سے کاغذات نامزدگی مسترد کئے ہیں۔آخری فیصلہ اب عدلیہ سے چنے ٹربیونل کریں گے۔اپنی ساکھ پر توجہ دینے کے بجائے الیکشن کمیشن اب میڈیا پر ضابطہ اخلاق کے نام پر قطعا معقول دکھتی پابندیاں لاگو کرنا چاہ رہا ہے۔ فرض کیا اس کی خواہش پر ہوبہو عمل ہوا تو روایتی میڈیا کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل جائے گی اور لوگ فقط سوشل میڈیا ہی سے رجوع کرنے کو مجبور ہوجائیں گے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت