اقوال زریں … تحریر : سلیم صافی


حقیقت یہ ہے کہ تاثر جتنا شدید ہو، الفاظ اتنے ہی کم ہوجاتے ہیں۔ بے حد خوشی ہو تب بھی آدمی زیادہ نہیں بول پاتا اور بے حد غم ہو تب بھی زیادہ بولنا آدمی کے لئے ممکن نہیں رہتا ۔ جو لوگ دین و ملت کے غم میں ہر روز الفاظ کے دریا بہاتے رہتے ہیں وہ صرف اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ دین و ملت کے غم میں وہ سب سے پیچھے ہیں ۔ جو شخص درد وغم میں مبتلا ہو تو چپ لگ جاتی ہے نہ یہ کہ وہ لفظی اکھاڑوں میں لسانی پہلوانی کے کرتب دکھائے۔کسی کو اسباب و وسائل ہاتھ آجائیں تو اس کے اندر بے جا خود اعتمادی کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اقتدار مل جائے تو گھمنڈ پیدا ہوتا ہے ۔ اسی طرح دولت کے ساتھ بخل، علم کے ساتھ فخر، مقبولیت کے ساتھ ریا اور سماجی عزت کے ساتھ نمائش کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ تمام چیزیں گویا خودروگھاس ہیں جو کسی آدمی کی خوبیوں کو کھاجانے والی ہیں۔ ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اس اعتبار سے اپنا نگران بن جانے اور جب اپنے اندر کوئی نکمی گھاس اگتے ہوئے دیکھے تو اس کو اکھاڑ پھینک دے۔ جو شخص اپنا محاسبہ نہ کرے گا وہ یقینی طور پر اس دنیا میں برباد ہوجائے گا۔ وہ ایسا کھیت ہوگا جس کی فصل تباہ ہوگئی ، وہ ایسا باغ ہوگا جس کی ساری بہار خزاں میں تبدیل ہوگئی۔

جس چیز کو اسلامی نظام کہا جاتا ہے وہ کسی قسم کے سیاسی اکھیڑ پچھاڑ سے وجود میں نہیں آتا اور نہ گولی اور پھانسی کی منطق سے اسکو برپا کیا جاسکتا ہے ۔ جو لوگ اس قسم کی کارروائیوں سے اسلامی نظام قائم کرنے کا اعلان کرتے ہیں وہ یقینی طور پر یا تو غیرسنجیدہ ہیں یا مجنون ہیں ۔ اسلامی نظام یا اسلامی سماج اس وقت وجود میں آتا ہے جب کسی انسانی مجموعہ کی قابل لحاظ تعداد میں یہ مزاج پیدا ہوجائیگا کہ وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھ کر زندگی گزارنے لگے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شکایتوں اور تلخیوں سے اوپر اٹھ کر جینا جانتے ہوں ۔ جو اپنے خلاف مزاج باتوں کو نظرانداز کردینے کی طاقت رکھتے ہوں ۔ جو اپنی غلطی فورا محسوس کرلیں اور اعتراف کرنے کیلئے تیار ہوجائیں، جو دوسروں کو الزام دینے کے بجائے خود ذمہ داری قبول کرلیں ۔ جو غلط فہمی کے مواقع پر خوش فہمی سے کام لینے کا حوصلہ رکھتے ہوں ۔ جو کسی انسان کو اس کے آج کی بجائے کل کے لحاظ سے دیکھ سکیں۔

بنجمن فرینکلن اپنے بچپن میں مشہور نہیں تھا لیکن بعد میں اس نے اتنا مقام پیدا کیا کہ وہ امریکہ کی طرف سے فرانس میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ اس کی کامیابی کا راز کیا تھا صرف یہ کہ تجربات سے اس نے جانا کہ لوگ اپنے خلاف تنقید سے بہت برہم ہوتے ہیں ۔ اس نے طے کیا کہ میں کبھی کسی کی کوئی خرابی نہیں بیان کروںگا ۔ میں ہر ایک کی صرف خوبیاں بیان کروں گا ۔ یہی وجہ ہے کہ بااصول آدمی ہمیشہ سب سے زیادہ مبغوض ہوتا ہے اور بے اصول آدمی کو لوگوں کی نظر میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے ۔ بااصول آدمی ہمیشہ حق کہتا ہے خواہ وہ کسی کے موافق ہو یا کسی کے خلاف ۔ جبکہ بے اصول آدمی ہر موقع کے لحاظ سے وہ بات کہتا ہے جس کو سن کو لوگ خوش ہوجائیں ۔ سب کی پسند کی بات کہنے کی اسے یہ قیمت ملتی ہے کہ وہ سب کی نظر میں پسندیدہ شخص بن جاتا ہے۔

دولت زندگی نہیں ہے ۔ دولت زندگی کا ایک وسیلہ ہے ۔ وسیلہ کی اہمیت ہمیشہ دوسرے درجہ کی ہوتی ہے ۔ زندگی ہے تو وسیلہ کی بھی اہمیت ہے اور اگر زندگی نہیں ہے تو وسیلہ کی کوئی اہمیت نہیں ۔ مگر انسان اکثر اس فرق کو بھول جاتے ہیں۔ وہ دنیا کی دولت حاصل کرنے میں اتنے مشغول ہوجاتے ہیں جیسے کہ دنیا کی دولت بذات خود مقصود ہو، جیسے کہ دنیا کی دولت ہی کا دوسرا نام زندگی ہو۔

جھوٹ کا سب سے بڑا قاتل وقت ہے ۔ آپ آنے والے وقت کا انتظار کیجئے اور اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ وقت نے اس فتنہ کو زیادہ کامل طور پر ہلاک کردیا ہے جس کو آپ صرف ناقص طور پر ہلاک کرنے کی تدبیر کررہے تھے۔

کوئی بدترین موذی جانور بھی اس کو نہیں جانتا کہ وہ کسی کو ذلیل کرنے کا منصوبہ بنائے۔ وہ کسی کو نیچا دکھا کر اپنے غرور کے لئے تسکین کا سامان فراہم کرے ۔ کسی کو خواہ مخواہ مصیبتوں میں پھنسا کر اس کی پریشانی کا تماشا دیکھے۔ یہ صرف انسان ہے جو ایسا کرتا ہے ۔ خدا نے انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا ہے مگر انسان اپنی نادانی سے اپنے آپ کو اسفل سافلین کی پستی میں گرا دیتا ہے۔

آزادی کے بعد ہندوستان کی جو پہلی منتخب پارلیمنٹ بنی اس کے ایک ممبر پروفیسر ہیرن مکرجی تھے۔ پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں شرکت کے بعد جب وہ دہلی سے کلکتہ کے لئے روانہ ہوئے تو ان پر ایک عجیب قسم کی کیفیت گزری۔ تیز رفتار ٹرین کی فرسٹ کلاس بوگی ان کو لئے ہوئے دہلی کے جنوبی علاقہ سے گزر رہی تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ ریلوے لائن کے کنارے جھگی جھونپڑیوں اور گندے محلوں کا سلسلہ ہے جو دور تک چلا گیا ہے ۔ ان کو یہ سوچ کر سخت صدمہ ہوا کہ آزادی کے انقلاب نے چند خوش قسمت لوگوں کو تو بہت کچھ دیا ہے مگر کروڑوں عوام کے لئے اس انقلاب کے پاس کوئی چیز نہیں ہے ۔ کلکتہ پہنچ کر انہوں نے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک خط لکھا جس میں اپنے مذکورہ تاثر کا ذکر کرتے ہوئے یہ درج تھا کہ جب میں دہلی کی ان غریب بستیوں سے گزرا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ لوگ اگر مجھ سے پوچھیں کہ تمہاری آزادی سے ہم کو کیا ملا تو میرے پاس اس کا کیا جواب ہوگا۔ پنڈت نہرو نے پروفیسر ہیرن مکر جی کے اس خط کا جو جواب دیا اس کا ایک فقرہ یہ تھا کہ تم اپنے احساس کی قیمت ادا کررہے ہو۔

بے ضمیر انسان کو کروڑوں جھونپڑیوں کا منظر کسی پریشانی میں مبتلا نہیں کرتا مگر جس شخص کا ضمیر زندہ ہو اس کو یہ گندی جھونپڑپاں اس طرح تڑپا دیں گی کہ اس کا نرم گدا اس کے لئے کانٹوں کا بستر بن جائے ۔ اعلی انسانیت ہمیشہ تلخ گھونٹ پی کر ملتی ہے جب کہ گھٹیا انسان بننے کے لئے سطحیت اور موقع پرستی کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔

دہلی سے شائع ہونے والی کتاب اللہ اکبر سے چند اقتباسات۔

بشکریہ روزنامہ جنگ