اقتدار اتنا پیارا کیوں؟ : تحریر سلیم صافی


یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ روزِجزا ان لوگوں کا حساب عام آدمی کےنسبت کئی گنا زیادہ سخت ہوگا جو اس دنیا میں اقتدار کی کسی پوزیشن پر فائز رہے ہیں ۔ اسی لئے خان عبدالولی خان کے بھائی اور عظیم پشتو شاعر غنی خان فرماتے ہیں کہ :

بادشاہی دجہان سہ کڑے ، زان ولے زیاتے غم

د انصاف تلل مشکل دی، سہ بہ زیات کڑے سہ بہ کم

(دنیا کی بادشاہی کے پیچھے دوڑ کر اپنے لئے غم کیوں بڑھاتے ہو، (اس میں تمہارا بچنا مشکل ہے) کیونکہ انصاف کے مطابق تولنا بڑا مشکل کام ہے اور تم سے اس میں ضرور کوئی نہ کوئی غلطی ہو جائے گی)

لیکن اس کے باوجود اقتدار کے پیچھے ہمارے سیاستدان تو کیا غیر سیاستدان بھی مرے جارہے ہیں۔ ان دنوں الیکشن کا مرحلہ ہے اور جہاں بڑے لیڈر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بننے کیلئے مرے جارہے ہیں، وہاں نچلی سطح کے لیڈر ایم این اے اور ایم پی اے بننے کیلئےہر حد پار کررہے ہیں۔ حالانکہ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اس تالاب سے بہت کم لوگ عریاں ہوئے بغیر نکلتے ہیں۔

دور مت جائیے ۔ ماضی قریب میں دیکھ لیجئے ۔ صدام حسین کے لہجے میں کیا تمکنت تھی۔ وہ تنہا عراق کے سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔ ان سے معمولی اختلاف کرنے والا زندہ نہیں رہ سکتا تھا ۔ وہ اس اقتدار کی طوالت کیلئے لمبے عرصے تک امریکیوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا لیکن پھر وہ وقت آیا کہ انہی امریکیوں کے ہاتھوں بے سروسامانی میں پھانسی چڑھ گیا۔ کرنل قذافی ہمارے سامنے ایک اور مثال ہے ۔ لیبیا کے مطلق العنان حکمران تھے اور ہمارے بعض دینی لیڈر بھی انکے خزانے سے استفادے کیلئے وقتاً فوقتاً حاضری لگایا کرتے تھے ۔ اپنی حفاظت پر سینکڑوں مردو خواتین کو مامور کررکھا تھا۔ ملک کے اندر اپنے خلاف کوئی اختلافی آواز نہیں چھوڑی لیکن بالآخر وہ بھی امریکیوں کے ہاتھوں اقتدار سے محروم اور پھر انہی کے ہاتھوں مارے گئے ۔ اپنے پڑوس میں افغانستان کو دیکھ لیجئے ۔ ڈاکٹراشرف غنی امریکیوں کی حمایت سے اقتدار میں آئے تھے ۔ اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے وہ آخری حدوں تک گئے لیکن طالبان کے ہاتھوں انہیں ملک سے فرار ہونا پڑا اور امریکیوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ اپنے پاکستان کو دیکھ لیجئے۔ ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیا کے ہاتھوں پھانسی چڑھ گئے ۔ دونوں بیٹے غیرفطری موت مرے اور بیٹی بے نظیر بھٹو کو پنڈی میں دہشت گردوں نے زندگی سے محروم کردیا۔ میاں نواز شریف ایک نہیں بلکہ دو بار فوج کے ہاتھوں اقتدار سے محروم کیےگئے ۔ بھائی ، بھتیجوں اور بیٹی سمیت قیدوبند اور جلاوطنی کی صعوبتیں کاٹیں لیکن پھر بھی سیاست سےباز نہیں آرہے ہیں ۔اندراگاندھی انڈیا کی ایک طاقتور وزیراعظم تھیں لیکن انہیں انکے ایک سکھ سیکورٹی گارڈ نے موت کی نیند سلا دیا ۔ ان کے بیٹے راجیو گاندھی کو ایک تامل نے مار ڈالا جبکہ ایک اور بیٹا سنجے گاندھی جسے انہوں نے اپنی جانشینی کیلئے تیار کیا تھا، طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوا ۔

سکندر اعظم کی مثال لے لیجئے ۔ اس نے دنیا کے بیشتر حصے کو فتح کیا ۔ مصر کا شہر سکندریہ آج بھی اسکے نام سے منسوب ہے لیکن وہ بابل کی ایک جھونپڑی میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مر گیا ۔ اس کا اکلوتا بیٹا اس کی زندگی میں قتل کیا جاچکا تھا جبکہ اس کی موت کے بعد اسکی سلطنت اسکے تین جرنیلوں میں تقسیم ہوگئی۔زندگی کے آخری وقت میں فتوحات کیلئے مشہور سکندر اعظم نے کہا کہ افسوس میں دنیا کو فتح کر نا چاہتا تھا لیکن موت نے مجھے فتح کر لیا اور افسوس کہ مجھے زندگی میں وہ سکون بھی نہ مل سکا جو ایک عام آدمی کو میسر ہوتا ہے ۔بنگلہ دیش کے سابق صدر ضیاالرحمان نے بڑی مشقتوں کے ساتھ وزیراعظم کا مقام حاصل کیا لیکن ایک فوجی افسر میجر جنرل منظور نے یہ سوچ کر انہیں قتل کر وادیا کہ انکی جگہ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹیو کی منزل حاصل کر لے۔

نپولین بوناپارٹ جو بنیادی طور پر فوجی تھا ،نے پہلے فرانس کے اقتدار پر قبضہ کرلیاپھر دوسرے ممالک میں دراندازی شروع کی اور ایک وقت ایسا آیا کہ پورے یورپ پر قابض ہوگیا ۔پہلے فرانس کی ایک حسینہ سے شادی کی اور پھر اس سے علیحدگی اختیار کرکے آسٹریا کے بادشاہ کی بیٹی کو بیوی بنا لیا لیکن اس سب کچھ کے باوجود نپولین بوناپارٹ زندگی کے آخری ایام میں کہا کرتا تھا کہ مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان کوئی اور نہیں۔میں حکومت اور محبت کا بھوکا تھا۔ حکومت مجھے ملی لیکن ساتھ نہیں نبھایا جبکہ بے تحاشا تلاش کے باوجود محبت مجھے مل ہی نہ سکی ۔

اللہ کی اصل نعمت خوشی، سکون اور قناعت ہے لیکن سیاست اور اقتدار ان سب کو چھین لیتا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں ہمارے لوگ اس کیلئے نہ صرف تگ و دو میں رہتے ہیں بلکہ اس کی خاطر ہر چیز قربان کردیتے ہیں ۔عمران خان اگر صرف سوشل ورکر رہتے اور شوکت خانم جیسے ہسپتال یا یونیورسٹیاں بناتے تو ملک بھر کے لوگ ان سے محبت کرتے ۔ مجھ سمیت کوئی بھی ان سے اختلاف نہ کرتا اور ان پر محبتیں نچھاور کرتا لیکن انہیں سیاست اور اقتدار کی کشش اپنی طرف کھینچ لائی چنانچہ وزیراعظم ہاؤس سے ہوتے ہوئے آج جیل میں ہیں۔ ان دنوں الیکشن کا میدان گرم ہے ۔ ہر کسی نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نہیں بننا ۔ صرف ایک وزیراعظم اور چار وزرا اعلیٰ بنیں گے لیکن ہر سیاستدان دوڑ میں ہے ۔ ہر اصول کو قربان کر رہا ہے ۔خونی رشتے تک قربان کررہا ہے ۔ دینی اقدار قربان کررہا ہے، خوشامد اور چاپلوسی کررہا ہے، پانی کی طرح پیسہ بہارہا ہے، حالانکہ خوشی اور سکون اقتدار میں نہیں اور کوئی سکندر اعظم بن جائے تو بھی اسے زندگی کے آخری اوقات میں یہ کہنا پڑے گا کہ میں دنیا کو فتح کرنا چاہ رہا تھا لیکن افسوس کہ موت نے مجھے فتح کرلیا اور افسوس کہ مجھے وہ سکون بھی نہ مل سکا جو ایک عام آدمی کو میسر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی نپولین بوناپارٹ بھی بن گیا توآخری وقت میں اسے یہی کہنا پڑے گا کہ مایوسی میرے نزدیک جرم تھی مگر آج مجھ سے زیادہ مایوس انسان کوئی نہیں ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ