ایک طویل جنگ کے اختتام پر ہارے ہوئے سپاہی کی طرح دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوئے فریاد کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ جمہوریت نام ہے جس کا وہ ہماری سرشت میں شامل ہی نہیں۔ہم دھڑوں میں بکھری قوم ہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت ہمیں ریاستی ظلم فقط اسی وقت ہوا دکھاتی ہیں جب وہ ہماری پسندیدہ جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف ہورہا ہو۔ایسا ظلم مثال کے طورپر عاشقان عمران خان کو مسلم لیگ (نون) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف ہوتا ہوا نظر نہیں آیا تھا جب انہیں فیصل آباد کو لاہور سے ملانے والی موٹروے پر منشیات کی بھاری بھر کم تعداد سمیت کیمروں کے روبرو ذلت آمیز انداز میں گرفتار کیا گیا تھا۔ان دنوں مسلم لیگ (نون) کے متوالوں کو وہ ریاستی دہشت محسوس تک نہیں ہورہی جس نے تحریک انصاف کے اہم رہ نماؤں اور جذباتی کارکنوں کو گرفتاریوں سے بچنے کے لئے روپوش رہنے کو مجبور کررکھا ہے۔
منگل کی صبح سے اب ایک نیا قضیہ ا ٹھ کھڑا ہے۔واقعہ سیالکوٹ سے متعلق ہے۔الزام وہاں زیادتی کا مسلم لیگ کے ایک صف اول کے رہ نما خواجہ آصف پر لگایا جارہا ہے۔ان کے خلاف مبینہ بربریت کی دہائی مچانے والی خاتونِ محترم تحریک انصاف کے ایک مقامی رہ نما عثمان ڈار کی والدہ ہیں۔ان کا دعوی ہے کہ مقامی پولیس انہیں خواجہ آصف کے خلاف انتخاب لڑنے کے لئے کاغذات نامزدگی کے حصول سے روکنا چاہ رہی ہے۔ اسی باعث پیراور منگل کی رات ان کے گھر پر پولیس نے ان کے ایک اور فرزند عمر ڈار کو گرفتار کرنے کے بہانے حملہ کیا۔ دروازے توڑ کر پولیس گھر کے اندر داخل ہو گئی اور وہاں موجود خواتین اور بچوں کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی۔
عثمان ڈار کی والدہ نے اپنا بیان سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کی غرض سے کیمرے کے روبرو ریکارڈ کروایا تو تھرتھلی مچل گئی۔ خواجہ آصف مصررہے کہ ان کا مذکورہ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ کلیدی بات یہ بھی دہراتے رہے کہ وہ دہائی مچاتی خاتون کو اپنی والدہ کے برابر سمجھتے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے وہ اور ان کے والد خواجہ صفدر سیالکوٹ کی سیاسی اعتبار سے پہچان رہے ہیں۔ خواجہ صاحب کے ساتھ 1990 کی دہائی میں بطور پارلیمانی رپورٹر میری شناسائی استوار ہوئی جو بتدریج بے تکلف دوستی میں بدل گئی۔ مشرف حکومت کے ابتدائی دنوں میں نواز شریف سے وفاداری کی انہیں بھاری قیمت ادا کرناپڑی تھی۔ وہ مگر ڈٹے رہے اور بالآخر احتساب بیورو کے بانی جنرل امجد کو برملا اعتراف کرنا پڑا کہ ان کے ادارے کے پاس خواجہ صاحب سے منسوب مبینہ بدعنوانی کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔مذکورہ اعتراف کے بعد وہ خواجہ صاحب سے معافی کے طلب گار بھی ہوئے۔ فوجی آمریت کے حوالے سے یہ ایک انوکھا واقعہ تھا۔
خواجہ صاحب کے ساتھ اپنے تعلق کے اعتراف کے بعد میں یہ اطلاع بھی دینا چاہوں گا کہ بحیثیت رپورٹر میرا شمار اسلام آباد کے معددودے چند ان صحافیوں میں کیا جاسکتا ہے جنہیں بروقت اطلاع مل گئی تھی کہ جنرل باجوہ کی معیادِ ملازمت میں تین سالہ توسیع کے لئے خواجہ صاحب کو استعمال کیا جارہا ہے۔یہ اطلاعنوائے وقت اور دی نیشن کے ذریعے قارئین تک پہنچانے کے بعد میں ان دونوں اخبارات کے لئے لکھے کالموں میں مذکورہ توسیع اور اسے یقینی بنانے میں سہولت کاری کا کردار ادا کرنے والوں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بھی بناتا رہا۔ یہ رویہ میں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کے خلاف بھی اپنائے رکھااور خواجہ صاحب بھی ان لوگوں میں شامل تھے۔ میری تنقید کا تاہم خواجہ صاحب نے کبھی برا نہیں منایا۔جس خواجہ آصف کو میں 1990 کی دہائی سے بہت قریب سے جانتا ہوں وہ میری دانست میں ایسی حرکت کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا جو گزشتہ دو دنوں سے عثمان ڈار کی والدہ کے حوالے سے ان کے سرتھوپی جارہی ہے۔
یہ لکھنے کے بعد بھی تاہم مصر رہوں گا کہ عرصہ ہوا اسلام آباد میں اپنے گھر تک محدود ہوچکا ہوں۔سیاستدان اور خاص طورپر انتخابی سیاست اس میں ملوث فریقوں کو اکثر غضب ناک بنادیتی ہے۔ پاکستان کا عام شہری ہوتے ہوئے میں شدت سے اس امر کا خواہش مند ہوں کہ کسی قابل اعتبار فورم کے ذریعے معاملے کی صاف شفاف تحقیق ہو۔ اس کی بدولت ہم جان سکیں کہ عثمان ڈار کی والدہ کا دعوی درست ہے یا سیالکوٹ پولیس کے اس حوالے سے دئے دفاعی بیانات۔ مطلوبہ فورم کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ پولیس یا سرکار کی ڈار خاندان کے ساتھ چپقلش میں خواجہ آصف نے ذاتی طورپر کلیدی کردارادا کیا ہے یا نہیں۔
سوال مگر یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہمارے ملک میں واقعتا ایسا کوئی فورم باقی بچا ہے جس کے فیصلوں پر ہم سب سرجھکائے اعتبار کرلیں۔یہ لکھتے ہوئے دل دہل رہا ہے کہ نہیں اور نہیں کے نیچے خط کشیدہ لگانا ہوگا۔ صحافت کسی زمانے میں حتمی منصف بھی شمار ہوتی تھی۔ اس شعبے میں لیکن لفافے رونما ہونا شروع ہوگئے۔ لفافوں کی سچی جھوٹی تہمتوں سے جو صحافی بچ رہے بالآخر ریگولر اور سوشل میڈیا پر زیادہ سے ز یادہ لائیکس اور شیئرز کے حصول کے لئے صحافت کے بجائے ذہن سازی میں مصروف ہوگئے۔ اب صحافی کو دیکھتے ہی لوگ طے کرلیتے ہیں کہ وہ کس جانب یا سیاسی لیڈر کی حمایت یا مخالفت میں رطب اللسان ہوگا۔
صحافت کے علاوہ حقیقی سچ کی تلاش کے لئے عدلیہ سے رجوع کیا جاتا تھا۔ عدلیہ نے بھی تاہم افتخار چودھری کے شوق مسیحائی کی وجہ سے اپنا اعتبار کھونا شروع کردیا۔ بالآخر تشریف لائے ثاقب نثار اور اس کے بعد سے چراغوں میں روشنی نہ رہی والا معاملہ ہوچکا ہے۔ کئی بار اس کالم میں فکر مندی سے یاددلانے کی کوشش کی ہے کہ شام اور یمن جیسے ملک بالآخر طویل اور وحشیانہ خانہ جنگیوں کی اس وجہ سے نذر ہوئے کیونکہ وہاں ریاستی اداروں نے اپنا اعتبار ووقار کھودیا۔ وہ اشرافیہ کے کسی ایک گروہ کے لئے کرائے کے قاتلوں والا کردار ادا کرتے نظر آئے۔اداروں سے انصاف اور غیر جانب داری کی امید باقی نہ رہی تو حقوق سے محروم ہوئے افراد نے بندوق اٹھالی۔ جنگ مگر ابھی تک جاری ہے اور جیت کسی ایک فریق کا مقدر ہوتی بھی نظر نہیں آرہی۔
وطن عزیز کے ہرباشعور شہری کو تھوڑی دیر کے لئے تنہائی میں بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ رواں صدی کی دوسری دہائی یعنی 2010 سے ہم بھی کہیں اندھی نفرت وعقیدت میں مبتلاہوکر اس راہ پر تو نہیں چل پڑے جو فقط شام اور یمن میں جاری خانہ جنگیوں کی طرف لے جاتی ہے۔نہایت فکرمندی سے اکثر تنہائی میں بیٹھ کر اس سوال پر غور کیا۔ہمیشہ یہ ہی نتیجہ نکالا کہ ہم شام اور یمن جیسے انجام سے یقینا بچ سکتے ہیں۔اس کے لئے مگر لازمی ہے کہ ریاستی ادارے اندھی نفرت وعقیدت سے بالاتر ہوکراپنا کردار ادا کریں۔ صحافت اپنے اصل تقاضوں کی پیروی کرے اور عدالت سے انصاف ملے بھاشن نہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت