وہ اپنی نوعیت کا منفرد انسان تھا۔ بہت ہی منفرد۔اٹک شہر کا رہنے والا یہ نوجوان قیامِ پاکستان سے قبل حصول علم کے لئے ہند کے صوبے یو پی (سرائے میر) میں چلا گیا۔ مدرسہ الاصلاح سے تعلیم مکمل کی اور اسی سبب سے اصلاحی کہلایا۔
پاکستان بن رہا تھا۔ ہند سے لاکھوں مسلمان خاندان ہجرت کر کے جوق در جوق پاکستان آرہے تھے۔وہ ہفتوں نہیں مہینوں بے قرار رہا۔سوچتا رہا، “اگر ہند کے سارے پڑھے لکھے مسلمان ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے تو پیچھے رہ جانے والےبے وسیلہ اور ان پڑھ مسلمانوں کا سہارا کون بنے گا؟”
اُس کی راتیں جاگتے اور سوچتے گزرتے رہیں۔ بالآخر اُس کے عزم نے اُس سےایک مضبوط فیصلہ کروا لیا۔ وہ پیچھے رہ جانے والے بے بس ہندی مسلمانوں کا سہارا بنیں گا۔ لوگ ہند سے مہاجر ہو کر پاکستان آرہے ہیں، مگر وہ پاکستان کی شہریت ترک کر کے ایک بڑے مقصد کے لئے ہند میں ہجرت اختیار کرے گا اور بے سہاروں کے لئے رام پور ( یو پی) میں علمی و تعلیمی کام کی بنیاد رکھے گا۔
یہ جذباتی فیصلہ نہ تھا۔ اُس نے جو کچھ سوچا اسے سچ کر دکھایا۔ رامپور میں ہزاروں طالبات کے لئے بڑی سطح کا ایک خوبصورت ادارہ بنایا۔ذکریٰ کے نام سے ماہنامہ کا اجرا کیا۔ آدابِ زندگی اور آسان فقہ کی طرز پر درجنوں شہرۂ آفاق کتب لکھیں۔ ہند سے باہر نکل کر براعظم امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ اور مڈل ایسٹ میں سینکڑوں تبلیغی و تربیتی پروگراموں میں لاکھوں انسانوں کا مربّی بنا اور ان کے دل و دماغ کو اسلامی آداب میں ڈھالا۔ وہ خوبصورت تحریریں لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک بے بدل خطیب بھی تھا۔
مگر یہ سارے کام کرتے ہوئے
متانت، دیانت
وجاہت، سنجیدگی اور سادگی
عمر بھر اُس کا پیرہن بنی رہیں۔
اس دبلے پتلے اور خوش قامت انسان سے میری ملاقات 1982 میں نیویارک کے ایک تربیتی پروگرام میں ہوئی۔ اُن کی ذہانت، سادگی اور خوش دلی نے دل میں ایسا گہرا نقش بنایا کہ آج تک کوئی دوسرا اُس کی جگہ نہ لے سکا۔ نیو یارک قیام کے دوران وہ جب بھی امریکہ تشریف لاتے اکثر میں ان کا میزبان ہوتا۔ پھر یہ جگہ ایچ ایچ آر ڈی کے بانی اور سابق صدر برادم فرخ رضا نے سنبھال لی اور ان کی خدمت کو
حدِ کمال تک پہنچایا۔ پاکستان منتقلی کے بعد میں تقریباً ہر سال ہی امریکہ جاتا رہا۔ یہ خواہش ہمیشہ دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی کہ کاش مولانا یوسف اصلاحی بھی امریکہ آئے ہوں اور ان سے شرفِ ملاقات ہو جائے۔ وہ کمال انسان تھے، آپ گھنٹوں ان کے پاس بیٹھے رہیں وہ آپ کو بوریت کا احساس تک نہ ہونے دیں گے۔ خوشگوار علمی گفتگو، پرُلطف اشعار اور برجستہ جملے ان کے دائیں بائیں خوشبو کے انبار لگاتے رہیں گے۔
میری خوش بختی کہ وہ میری سب سے چھوٹی بیٹی عائشہ کی تقریبِ نکاح میں میری دعوت پر میرے گھر تشریف لائے اور نکاح پڑھایا۔ تقریبِ نکاح میں، میں نے انہیں خوش آمدید کہتے اور خوشی سے نہال ہوتے کہا“ مولانا میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ آپ کی پاکستان اور پھر میرے گھر تشریف آوری میرے لئے کس قدر خوشی کا باعث بنی ہے” اصلاحی صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور کہا “ بد قسمتی سے دنیا میں ابھی ایسا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جو دل میں ہونے والی خوشی کو ماپ سکے۔ایسا کوئی آلہ اگر ایجاد ہو چکا ہوتا تو میں عزیزم عبدالشکور کو ماپ کر بتا دیتا کہ مجھے آپ کے ہاں حاضر ہو کر یقیناً آپ سے زیادہ خوشی ہوئی ہے” ۔ مولانا کا جملہ سن کر مجلس مُسکراہٹوں سے کشتِ زعفران بن گئی۔
ایک مجلس میں اصلاحی صاحب نے بتایا کہ وہ مڈل ایسٹ کے سفر پر تھے ۔ہوائی سفر کے دوران ان کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے ، کوٹ ٹائی میں ملبوس ایک شخص سے بات چیت کا آغاز ہوا تو کئی قومی اور دینی موضوعات چِھڑ گئے۔ سفر اختتام کو پہنچنے لگا تو اُس نے ہینڈ بیگ کھولا اور اس میں سے ایک کتاب نکال کر مجھے دی اور کہا “ آپ پڑھے لکھے انسان لگتے ہیں، میں آپ کو یوسف اصلاحی صاحب کی یہ کتاب تحفہ کرتا ہوں۔ اسے ضرور پڑھیے گا۔ مجھے یقین ہے اسے پڑھ کر آپ کی دینی معلومات میں بھی اضافہ ہوگا اور آپ کے ادبی ذوق کو جِلا بھی ملے گی۔ میں نے اجنبی سے مسکراتے ہوئے اپنی ہی کتاب “آداب زندگی” شکریے کے ساتھ وصول کی۔پھر دونوں نے معانقہ کیا اور دونوں اپنی اپنی منزلوں کو روانہ ہو گئے۔
مولانا اب اپنے اُس رب کے پاس پہنچ چُکے ہیں جس کو راضی کرنے اور راضی رکھنے میں انہوں نے مشقتیں جھیلیں، صبر و عزم کا دامن تھامے رکھا اور مسکراتے ہوئے اس کے دربار میں جا حاضر ہوئے۔مجھے بہت امید ہے موت کی یہ تلخیاں انکی آخری مشکل گھڑی ہو نگی اوراب وہ ابد الآباد تک راحتوں، روشنیوں، خوشبوؤں اور مسکراہٹوں
کے لا متناہی سلسلے سے وابستہ ہو چکے ہونگے۔
محترم مولانا
آپ کو آپ کی پسند کی وہ دنیا بہت بہت مبارک ہو۔
محمد عبدالشکور
صدر الخدمت فاونڈیشن پاکستان