باقی سب دوستوں کی طرح میں بھی اس کائنات میں بہت اھم تھا بس میرا یہی وھم تھا ۔
دن رات کام کرنا ، سفرکرنا ہی زندگی تھی۔ کئی دفعہ سوچا یار اگر یہ کام میں نہیں کروں گا تو کون کرے گا۔
بس اسی دھن میں زندگی کے کئی برس گزار دیئے ،
پہلے سوچا جب نوکری سے ریٹائرمنٹ ہوگی تو بیگم کو ساتھ لیکر دنیا گھوموں گا پھر 2016 میں سیڑھیوں سے گر کر گھٹنا زخمی کروا بیٹھا تو کچھ عرصہ علاج ہوتا رھا سوچا زندگی کا کیا پتہ پھر 2018 میں پہلی دفعہ میں اور بیگم سیر کیلئے نکل کھڑے ہوئے سات دن کا ٹور تھا اسلام آباد ۔ خنجراب ۔ اسلام آباد اور طے پایا ہر سال سیر کو جائیں گے۔ پر اگلے سال سے کرونا آگیا اور سال گزر گیا پھر 2020 میں اکتوبر میں خود کرونا کا شکار ہوگئے اور میں اپنے ارادوں کو وھم سمجھ کر جھٹلا گیا۔ فوٹوگرافر کی زندگی میں اپریل بہار کا مہینہ اور اکتوبر، نومبر خزان کا مہینہ بہت اھمیت رکھتا ہے۔ وہ موسموں کے حساب سے زندگی پلان کرتا ہے ، اور میرا رب یا تو ہمیں جانے دیتا ہے یاپھر روک لیتا ہے۔ اس سال پھر نومبر میں شمالی علاقہ جات کا سوچا اور رب سے بہت دعائیں کی کہ اس موذی وباء کو ٹال دے سفر پر جانا ہے۔ پر یہ سال بھی گزر گیا ۔ اور ہمارے ارادے ھوا کے جھونکے ثابت ہوئے۔ میرے بہت ہی محترم استاد دوست بابا جی سید شاکر عزیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو دعا دی اور کہنے لگے جلدی سے ٹھیک ہوجاو کاکا جی فروری میں للہ شریف عرس پر ساتھ چلیں گے میں بھی حسب عادت وعدہ کر آیا مجھے دکھ ہے کہ یہ وعدہ بھی وفا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
شاید میں بے وفا نہیں ہوں پر وفا کوشش کے باوجود ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
بہت دن ہوگئے امی جی اور ابا جی کی قبروں پر دعا کیلئے نہیں جاسکا ۔ بہت کوشش کی پر ممکن نہ ہوا۔ کل ایک ٹیسٹ کرواتے ہوئے یکدم منہ سے نکل گیا ہائے امی ۔ تھوڑا شرمسار بھی ہوا ڈاکٹر سے پہلے سوری کیا اور پھر شکریہ ادا کیا ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کیا ہوگیا سر۔ سوری کس بات کا اور شکریہ کس بات کا ۔
میں نے کہا کہ ہائے امی کی آواز سے آپ کے کام میں مخل ہوا اور شکریہ اس بات کا کی آپ نے امی جی کی یاد دلا دی ورنہ میں تو غافل بھولا ہوا تھا۔ میرا خیال ہے میرے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کی آنکھوں میں بھی نمی تھی۔
ڈاکٹر نے میرے چھاتی میں سے انجیکشن کی سوئی باھر نکال لی ۔ کیا ہوا ڈاکٹر صاحب سر شاید آپ کو تکلیف زیادہ ہورھی ہے ۔ اس جگہ کو لوکل لگا کر سن کر لیتے ہیں ۔ اس طرح دوبارہ سن کرنے کیلئے انجکشن لگایا گیا اور تیسری دفعہ پھر کینولا چھاتی میں پاس کرکے پھیپھڑوں سے پانی کا نمونہ حاصل کیا گیا ۔ ڈاکٹر الله کا بہت نیک بندہ تھا۔ جس نے امی جی کی یاد بار بار دلائی۔ اللہ آپکا بھلاکرے ڈاکٹر صاحب جو بھولے ھووں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ میں ٹیسٹ کروا کر بیڈ پر لیٹ گیا تکلیف زیادہ تھی بڑی بیٹی کا فون آگیا بابا آپ ٹھیک تو ہیں ناں ۔ جی بیٹے ۔
مجھ سے بات نہیں ہورھی تھی اور وہ رونے لگ گئی۔ یار بابا کیا بات ہے۔ کچھ بھی تو نہیں مجھے پتہ ہی نہیں تھا وہ ویڈیو کال تھی ۔ کال بند کی اور میں لکھنے لگ گیا دو گھنٹے بعد ایکسرے کروایا اور گھر آنے کی اجازت ملی۔
لکھنا بھی ایک نعمت ہے جو درد سے توجہ ھٹا دیتا ہے ۔ اور اب میں ہر وقت لکھتا رھتا ھوں۔ میرا اھم ہونے کا وھم تو ختم ہو چکا۔ کیونکہ مجھے بھی عام لوگوں کی طرح سوئی چھبتی ہے اور میں بھی عام سے عام ہوتا جارھا ھوں۔
میرے سارے وھم اور اھم قابو میں آچکے ہیں۔
میں اب عام انسانوں والی زندگی انجوائے کر رھا ہوں۔ کل چائے میں ایک رس بھگو کر کھایا۔ پر مزا نہیں آیا نہ وہ ٹوٹ کر چائے میں گرا نہ مزا آیا۔ شاید رس بھی کسی وھم میں تھا یا کوئی اھم تھا۔ میں نے اپنے بھائی طارق اور بھائی وسیم سے کہا یار میں اس دفعہ کیمرہ ساتھ لیکر آیا ہوں۔ اگر دھند پڑی تو کل صبح صبح موٹروے کی طرف جائیں گے اور تصاویر بنائیں گے ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پر کہا کچھ نہیں۔
پھر مجھے ڈاکٹر صاحب کے کوارڈینیٹر کے الفاظ یاد آگئے سر آپ نے چھاتی کو سردی سے بچانا ہے سردی کا لگنا آپ کیلئے مناسب نہیں۔
پھر خود ہی طے کرلیا تصویریں محفوظ کرنا اھم لوگوں کاکام ہے ہم نے بس اپنی چھاتی کو سردی سے محفوظ رکھنا ہے۔
کچھ لوگ مجھے دیکھنے اور ملنے کیلئےبچوں کی طرح بضد ہیں۔ میرے علم میں ہے عیادت سنت رسول صلی الله و علیہ وسلم ہے۔ پر مجھے کچھ عرصہ کیلئے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ مجھے آپ کی محبتوں کی دل سے قدر ہے۔ اگر آپ میرا یقین کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ایک عام انسان ہوں ۔ اور بلکل آپ جیسا ہوں۔ اپنے آپ کو دیکھئے اور مجھے محسوس کیجئے۔ میرا اور آپ کا رابطہ کچھ وقت کیلئے تحریر سے ہی ممکن ہے۔ انشاء الله جلد ملاقات ہوگی ۔ دعاوں کی درخواست ہے۔
Load/Hide Comments