کراچی سیاسی طورپرکسی ایک نظریہ سے جڑا رہنے والا شہر نہیں۔ یہاں دائیں بازو کی بھر پور سیاست رہی اور بائیں بازو کی بھی۔ مذہبی جماعتوں کا زور بھی رہا اور لسانی سیاست نے بھی بڑے عرصے تک اپنا رنگ جمایا۔ سب میںایک بات مشترک رہی اور وہ یہ کہ اس شہر کی شناخت اپوزیشن کے شہر کے طور پر رہی جس کا شاید نقصان بھی ہوا مگر ہر تحریک نے یہاں سے ہی جنم لیا۔ پھر اس شہر کا مزاج بدلا اور پہلی بار 2018 میں وہ جماعت کراچی سے جیتی جس نے وفاق میں حکومت بنائی۔ اب کیا کچھ تبدیل ہونے والا ہے۔ پی ٹی آئی ہی جیتے گی یا کوئی اور۔نئے بلدیاتی بل پر ماسوائے پی پی پی تمام سیاسی جماعتیں یک زبان نظر آتی ہیں اور بہتر تو یہ ہے کہ اسے انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی اس کو کوئی لسانی رنگ دیا جائے بات اختیارات دینے اور لینے کی ہے۔
پاکستان کے اس معاشی حب میں سب کچھ تو تھا مگر ہم نے اجتماعی طور پر سب تباہ کیا، پاکستان اسٹیل سے لے کر کراچی پورٹ تک کشادہ سڑکیں بھی تھیں، بڑی بسیں بھی چلتی تھیں اور سرکلر ریلوے بھی۔ اس تباہی کی ذمہ داری پچاس سال سے حکومت کرنے والوں کو لینی پڑے گی، یہاں کی معیشت، سیاست اور ثقافت کی تباہی کی۔ اس کی ذمہ دار پی پی پی بھی ہے، متحدہ قومی موومنٹ بھی ہے اور طویل مارشل لا ادوار بھی۔تصور کریں آج پچاس سال بعد وہی منصوبے دوبارہ شروع کئے جا رہے ہیں۔ سرکلر ریلوے، نئی بس سروس، نالوں کی صفائیاں اور دیگر منصوبے جو ایک مثبت سوچ ضرور ہے اور اگر جلد اس پر عمل ہو جاتا ہے تو شہریوں کو سکون کا سانس بھی ملے گا مگر بنیادی مسئلہ اپنی جگہ موجود رہے گا اور وہ ہے ’’اختیارات کی جنگ‘‘۔
آخر اس شہر کو ایک ’میٹرو پولیٹن سٹی‘ کا درجہ کیوں نہیں دیا جاتا جو شہر پورے ملک کو 75 فیصد ریونیو دیتا ہے اس کا میئر 34 فیصد شہر کا میئر کیوں ہے۔ کمال نہیں کہ تین ساڑھے تین کروڑ کے شہر کو دو کروڑ دکھایا جاتا ہے؟ سارا مسئلہ ایک سوچ اور مائنڈ سیٹ کا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تو ہر چند ماہ بعد شیر شاہ اور مہران ٹائون جیسے واقعات ہوں گے اور بڑے سے بڑے منصوبے بھی مسائل حل نہ کر پائیں گے۔ کچی آبادیاں بنتی جائیں گی یا پھر سہراب گوٹھ سے لے کر حیدرآباد تک لاکھوں لوگ غیر قانونی پروجیکٹس میں رہیں گے۔ پتا نہیں کتنے نسلہ جیسے ٹاورز کھڑے ہیں، کتنی عمارتیں نالوں پر بنی ہیں۔ یہاں تو بھائی لوگوں نے اسپتالوں اور کھیلوں کے میدانوں کو پلازہ بنا دیا ہے۔چائنا کٹنگ تو آج بھی جاری ہے، ان علاقوں میں جہاں ’ریڈ لائن‘ آتی ہے۔رہ گئی بات سیاست کی تو آئندہ بلدیاتی انتخابات میں اصل معرکہ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک لبیک پاکستان، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی میں متوقع ہے۔ یہ بڑا امتحان پاک سر زمین پارٹی کے لیے بھی ہے جو اب تک کامیابی حاصل نہیں کر سکی کچھ ایسی ہی صورتحال مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کی بھی ہے۔
بظاہر ایم کیو ایم (پاکستان) اس وقت خاصی پیچھے نظر آتی ہے جس کی وجہ 22اگست 2016 کے بعد پیدا ہونے والی سیاست ہے۔ مہاجر سیاست اب سمٹ رہی ہے۔ اردو بولنے والوں کی ایک بڑی اکثریت خاص طور پر مڈل کلاس کا رجحان پی ٹی آئی کی جانب ہو گیا ہے جس کو خود اس وقت کی متحدہ کی قیادت نے 2013 میں محسوس کیا مگر اپنی سیاست پر نظرثانی کرنے کے بجائے وہ ردعمل ظاہر کیا جس کو اس شہر کے لوگ مزید قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ نقصان اپنا ہی کیا اور اب واپسی تقریباً ناممکن سی لگتی ہے۔پی پی پی کے پاس شاید کام کرنے کے سب سے زیادہ مواقع تھے۔ ماضی کو ایک طرف رکھ بھی دیں تو بڑا سیاسی فیصلہ یہ ہوتا کہ تمام اختیارات بلدیہ کو منتقل کردیتے۔ پورے صوبہ میں اداروں کو اختیارات کی منتقلی دراصل 18ویں ترمیم کی اصل روح تھی۔ یہاں تو پہیہ ہی الٹا چلا دیا گیا ابتدا کراچی بلڈنگ کنٹرول سے کی گئی اور اختتام بلدیاتی بل پر۔ اس شہر میں پی پی پی کا ایک ووٹ بینک رہا ہے یہاں سے دو بار 1979 اور 1983 میں ڈپٹی میئر بھی اس کا رہا ہے۔ جماعت اسلامی کو اس شہر نے ماضی میں ووٹ بھی دیا اور تین بار اس کا میئر بھی منتخب کرایا مگر مثال وہ صرف نعمت اللہ مرحوم کی دیتے ہیں جبکہ اختیارات لینے کی اصل لڑائی عبدالستار افغانی مرحوم نے لڑی تھی۔ نعمت صاحب ہوں یا مصطفیٰ کمال یہ دونوں اس لیے کامیاب رہے کیونکہ وسائل کی تقسیم میں کہیں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ وفاق، سندھ اور شہری حکومت کے درمیان اب اگر تمام اختیار صرف بلدیاتی اداروں کے پاس ہوں تو یہ رونا بند ہو جائے گا کہ فنڈز نہیں مل رہے۔
بہرحال پچھلے تین برسوں میں جماعت نے ایم کیو ایم کی تقسیم اور زوال سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے محنت بہت کی ہے، پروگرام بھی کئے ہیں، مسائل کا حل بھی سامنے رکھا ہے مگر قیام پاکستان سے پہلے قائم ہونے والی جماعت اسلامی جمہوری پاکستان میں بڑی انتخابی کامیابی کیوں نہ حاصل کرپائی یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد آنے والے حکومت کرکے چلے بھی گئے۔ ذراسوچیں؟
2018 میں جہاں پی ٹی آئی نے حیران کن نتائج دیئے وہاں ایک لہر تحریک لبیک پاکستان کی بھی محسوس کی گئی۔ سب سے چونکادینے والا نتیجہ لیاری کا تھا جہاں ٹی ایل پی کے امیدوار نے بلاول بھٹو سے زیادہ ووٹ لیے۔ گو کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کی دو نشستیں جیت پائے مگر بلدیاتی انتخابات میں وہ کئی جماعتوں کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کا یہاں ووٹ تو ضرور موجود ہے مگر قیادت صرف مہینوں میں یا برسوں میں آئے گی تو سیاست کیا کریں گے؟ اس وقت اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ گنجائش ہے مگر کراچی کو اپنا حلقہ تو سمجھیں۔پی ایس پی اور مصطفیٰ کمال کے لیے یہ شاید آخری موقع ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں بہتر نتائج نہ دے سکے تو ’برانڈ‘ بدلنا پڑے گا۔ کوشش بہرحال وہ کر رہے ہیں۔ ایک بڑا ’گرینڈ کراچی‘ منصوبہ سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد بھی بنا رہے ہیں اور وہ ایم کیو ایم، پی پی پی اور جماعت اسلامی سے بھی رابطہ میں ہیں مگر ملک سے باہر رہ کر سیاست کسی حد تک تو کی جا سکتی ہے واپس آکر عملی اقدامات کریں تو کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ