منو بھائی فرمایا کرتے تھے کہ بگڑا ہوا گائیک قوال، بگڑا ہوا عاشق شوہر اور بگڑا ہوا شاعر نقاد بن جاتا ہے۔ ویسے منو بھائی شاعر کی کایا کلپ کو کچھ اور عنوان دیا کرتے تھے جسے آج کل کے مشتعل ماحول میں دہرانا ممکن نہیں۔ البتہ یہ بتایا جا سکتا ہے کہ آج کے پاکستان میں از کار رفتہ اداکار سماجی کارکن، ریٹائرڈ اہلکار دفاعی تجزیہ کار اور مغرب کو اچھی طرح سمجھنے والے کھلاڑی سیاست دان بن جاتے ہیں۔ یہ نکتہ ناقابل فہم ہے کہ عمر تو مغرب کو سمجھنے میں گزاری اور شام ڈھلے اہل مشرق کو درس روحانیت دینے چلے آتے ہیں۔ شاید پرچہ آئوٹ آف کورس ہونے ہی کا نتیجہ ہے کہ ہر امتحان میں ناکامی دیکھنا پڑتی ہے۔ لیجیے، کامریڈ محمد عظیم یاد آ گئے۔ عزیز محترم میری ’اردو نوازی‘ سے سخت نالاں رہتے ہیں۔ درویش اپنی افتاد سے مجبور ہے۔ فیض، راشد، ناصر، انتظار، صادقین اور شاکر علی سے کٹ کے میرے لئے تو پاکستان کا تصور ہی ممکن نہیں۔ یوں بھی بابا فرید، شاہ حسین، رحمان بابا اور سچل سرمست سے فیض اٹھانے کے لئے اردو سے انکار لازم تو نہیں ہے۔ محبت کی زبان ممتاز ہے ساری زبانوں سے۔ کامریڈ عظیم سے معذرت کے ساتھ عسکری صاحب کا ایک قصہ سنانا ہے۔ عسکری صاحب علاوہ بڑے افسانہ نگار اور صف اول کے نقاد ہونے کے انگریزی ادب کے نادرِ روزگار استاد بھی تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ عام طور سے طالب علم اچھے اساتذہ سے عقیدت پالتے ہیں۔ عسکری صاحب اپنے شاگردوں کو غیرمعمولی بڑھاوا دیا کرتے تھے۔ ایک سامنے کی مثال تو سجاد باقر رضوی کی ہے۔ ایسے لفظوں میں پروفیسر حمید احمد خان سے تعارف کرایا کہ سجاد باقر لاہور پہنچے اور ایک عہد کا نشان ٹھہرے۔ ایسی ہی کسی رو میں عسکری صاحب نے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل خواجہ منظور حسین کو اپنی ایک شاگرد کے بارے میں لکھا کہ ’بے حد ذہین بچی ہے۔ ادبی مباحث پر مکمل عبور ہے۔ بس کچھ عجیب اتفاق ہوا کہ عین امتحان کے روز دماغ مائوف ہو گیا۔ اس کا کورا پرچہ آپ کے پاس ہے۔ مہربانی فرمائیے‘۔ خواجہ صاحب ایسی سخن سازی کا دماغ نہیں رکھتے تھے۔ صاف جواب دے دیا۔ یہ قصہ عمران صاحب کی مزعومہ سیاسی فراست اور پھر امتحانی کارکردگی کے ضمن میں یاد آیا۔ بہت سی گفتنی اور ناگفتنی تو مورخ کی امانت ہے، کچھ نکات او آئی سی کے افتتاحی اجلاس میں عمران صاحب کے کلیدی خطبے کی نسبت عرض کرنا ہیں۔
محترم عمران نے فرمایا کہ افغان قوم نے چالیس برس تک مسلح تصادم بھگتا ہے۔ یہ نہیں بتایا کہ یہ چالیس برس تین مختلف ادوار سے گزرے ہیں۔ دسمبر 1979 سے فروری 1989 تک، مارچ 89 ء میں جلال آباد شکست سے 11 ستمبر 2001 تک اور پھر 7 اکتوبر 2001 سے 15 اگست 2021 تک۔ ان تینوں مرحلوں میں تصادم کے عمل انگیز فریقین کا تعین کیے بغیر اس انسانی المیے کی پوری تفہیم ممکن نہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والی 50 فیصد افغان آبادی کی موجودہ تعداد 23 ملین خان صاحب کے نوک زبان ہے۔ کسی نورتن سے 60 اور 70 کی دہائی میں افغانستان کے معاشی اشاریے بھی پوچھ لیں۔ گزشتہ حکومتوں کی کرپشن خان صاحب کی سیاسی بصیرت کا اسم اعظم ہے۔ اسی جھونک میں سفارتی آداب روندتے ہوئے افغان بدحالی کی تشخیص بھی کر ڈالی۔ خیال ہی نہیں رہا کہ جنگ اور کرپشن میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کرپشن کی جوابدہی زمانہ امن اور شفاف سیاسی عمل میں ہوا کرتی ہے۔ قائد محترم نے ماضی قریب میں افغان بجٹ میں بیرونی امداد کی شرح بھی بیان کی۔ اپنے دیس کا احوال فراموش کر دیا جہاں 73 میں سے 71 برس خسارے کا بجٹ بیرونی امداد سے رفو کیا گیا اور 23 مرتبہ آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی گئی۔ امریکا میں منجمد 9.7 ارب ڈالر کی خان صاحب کو بہت فکر ہے۔ حضور یہ رقم طالبان کی وراثت نہیں، زر امداد کا تخمینہ تھا۔ افغان ثقافت کی حساسیت کی طرح اہل مغرب کی بھی کاروباری اقدار ہیں۔ محاوراتی ’کابلی والا‘ کی طرح دہشت گردی کا ڈنڈا دکھا کر سود نہیں مل پائے گا۔ خان صاحب خطے میں عدم استحکام کا ملفوف اشارہ بھی دیتے ہیں۔ صاحب کون سا خطہ؟ وسطی ایشیا میں افغانستان کے پانچ ہمسایہ ممالک تو اس اجلاس میں شرکت کے بعد سیدھے دہلی پہنچ گئےنیز یہ کہ 26جنوری کو پھربھارت جائینگے۔ عمران خان ثقافت اور روایت کی آڑ میں جدیدیت پر چاند ماری کیا کرتے ہیں۔ یہاں بھی لڑکیوں کی تعلیم کو پختون روایت سے جوڑ دیا۔ کون کہے کہ ثقافت اور روایت جامد مظاہر نہیں ہیں، علم اور معیشت کے تابع ’’کن فیکون‘‘ کی تصویر ہیں۔
وزیراعظم نے چلتے چلتے کابل میں سیاسی منظر بدلنے کی بات بھی کی۔ حضور منظر کی اس تبدیلی کی قیمت بھی اس کے معماروں کی ذمہ داری ہے۔ غلامی کی زنجیریں توڑنے کے بعد شکست خوردہ غنیم سے نان جویں کا سوال نہیں کیا جاتا۔ محترم عمران نے ایک دلچسپ نکتہ یہ بیان کیا کہ طالبان اور 4 کروڑ افغان باشندوں کو دو مختلف اکائیاں تصور کیا جائے۔ سبحان اللہ! طالبان تو افغان باشندوں کی مکمل حمایت سے حکمرانی کا جواز استنباط کرتے ہیں۔ ویسے دنیا میں کہاں حکومت اور باشندوں کو الگ الگ خانوں میں رکھا جاتا ہے۔ حکومت نام ہی عوام کے تحفظ اور ترقی کی ذمہ داری کا ہے۔ عمران خان نے سرحد پار سے داعش کے خطرے کا ذکر کیا، کسی وجہ سے پاکستان پر مسلسل حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی تحریک طالبان پاکستان کا ذکر بھول گئے۔ خیر فی البدیہ خطبات میں ایسے سہو ہو جاتے ہیں۔ بے شک عمران خان ایک عالمی مدبر ہیں۔ ان سے پہلے بھٹو صاحب کو بھی عالم اسلام اور ایشیا کی قیادت کا زعم تھا۔ ہنری کسنجر اپنی نجی مجلسوں میں تضحیک آمیز لہجے میں کہا کرتے تھے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے ملک کے مسائل حل کر لئے ہیں اس لئے اب عالمی تنازعات پر توجہ دے رہے ہیں۔ بھٹو صاحب کی خارجہ بصیرت کا مآل تاریخ کا حصہ ہے۔ اقبال کے مصرعے میں ذرا سا تصرف اجمال میں تفصیل بیان کر سکتا ہے۔ دیار مغرب دکان ہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ