فراموشی: پانچ ایکٹ کی المیہ تمثیل۔۔۔تحریر وجاہت مسعود


ان دنوں سویرا روشن ہوتا تھا اور رات میں نامعلوم کا جادو تھا۔ زندگی ایک دلچسپ اور بہت پھیلا ہوا کھیل تھا۔ یہ معلوم ہو چلا تھا کہ دنیا رنگ برنگی ہے لیکن من کو چنتا لگی تھی کہ آوازوں اور تصویروں کے اس بارونق میلے کا سارا تماشا آنکھ میں کیسے سمویا جا سکے گا۔ دس سے اوپر کون گنے؟ بالک پن کے ان دنوں میں کتاب کی کھڑکی کھل گئی۔ کتاب وہ سیربین تھی جس میں منظر اور احساس میں کوئی دیوار نہیں تھی۔ چاہو تو برف پوش میدانوں میں اسکیمو خانہ بدوشوں کے ٹنڈرا خیموں میں جا گھسو اور چاہو تو شور مچاتے چشموں میں ٹھنڈے پانی کے چھینٹے اڑائو۔ راز کی بات ہے کہ درویش کے خوابوں میں بھی پرانی کتابوں کی گرد آلود دکانیں بسی تھیں۔ دو خواب یاد ہیں۔ ایک غیرمعمولی بڑی تقطیع کی بوسیدہ کتاب پشت پر اٹھائے لڑکھڑا رہا تھا اور یوں لگتا تھا، دنیا کا سارا علم اس کتاب میں بند ہے۔ دوسرے خواب میں ایک ضعیف بزرگ کو کمر پر اٹھا کر سیلابی ریلے سے باہر لا رہا تھا۔ سپنے بھی کبھی سچ ہوتے ہیں، علم بھی غچہ دے گیا اور کسی کے کام آنے کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ البتہ پاؤں کا چکر بار بار دیس بدیس لے گیا۔ چھوٹی اینٹ سے بنی گلیوں میں سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی دکانوں میں گھنٹوں بیٹھا زردی مائل اوراق پلٹتا تھا۔ برن شہر میں سینٹ پیٹر اینڈ پال کیتھولک چرچ کے قریب ایک نیم روشن دکان میں اچانک دو کتابیں ایک ساتھ ہاتھ لگیں۔ Henry Orenstein کی خود نوشت I Shall Live اور Victor Klemperer کی ڈائری I Shall Bear Witness کی دو جلدیں۔ ہنری نے نازی عقوبت خانوں میں چھ برس بقا کی جانکاہ جنگ لڑی تھی۔ پروفیسر کلیمپرر ڈریسڈن کے تہ خانے میں روپوش ہو کر چودہ برس ڈائری لکھتے رہے۔ واللہ! مجھے قطعاً معلوم نہیں تھا کہ ان دونوں کتابوں کے عنوان قدیم یہودی دعا Unetanneh Tokef سے ماخوذ ہیں۔ یہ دعا Rosh Hashanah (یہودی نوروز) اور Yom Kippur (یہودی تقویم کا مقدس ترین دن) کے موقع پر پڑھی جاتی ہے۔ مجھے تو ان دو عنوانات میں ایک ربط باہم محسوس ہوا۔ زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لئے سچ کی گواہی دینا ہوتی ہے۔ ہمارے عہد میں میلان کنڈیرا نے اس حقیقت کو ایک لافانی جملے میں سمو دیا، ’جبر کے خلاف فرد کی جدوجہد فراموشی کے خلاف یادداشت کی لڑائی ہے‘۔

کل ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن 16 دسمبر تھا۔ دوش و فردا کے غموں سے کھیلتے ہوئے خیال آیا کہ ہمارا بنیادی Tragic Flaw بھی تو زود فراموشی ہے۔ تعصب اور عناد میں تو ہماری یادداشت شتر کینہ سے ٹکر لیتی ہے لیکن جہاں پانی اپنے پائیں باغ میں مرتا ہو، ہمارا حافظہ دور از کار حیلے گھڑ کے ذمہ داری کی امانت اٹھانے سےانکار کر دیتا ہے۔ 74 برس کی اس تاریخ کو پانچ ایکٹ کی المیہ تمثیل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ملک کی تقسیم تو مذاکرات کی میز پر طے ہوئی تھی۔ فسادات اور تبادلہ آبادی کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ آپ کی ناراضی کا خطرہ مول لے کر یاد دلاتا ہوں کہ بنگال کے فسادات 16 اگست 1946 کو کلکتہ سے شروع ہوئے جہاں مسلم لیگی حکومت تھی۔ اس کا ردعمل بہار میں آیا جہاں کے سوختہ نصیبوں کا ذکر بھی اب ہمیں پسند نہیں۔ پنجاب میں فسادات 4 مارچ 1947 کو شمالی پنجاب سے شروع ہوئے۔ اگر کسی کو ذمہ داری کا تعین کرنا ہے تو مردم شماری، پولیس ریکارڈ اور میجر جنرل ریس کی رپورٹ موجود ہے۔ فسادات اور متروکہ املاک اس المیے کا پہلا ایکٹ تھا جس نے پاکستان کی جمہوری، اخلاقی اور معاشی بنیادیں کھودیں۔ لیاقت علی کی شہادت تو محض دوسرے ایکٹ کی صف بندی تھی جس میں دستور ساز اسمبلی کی برطرفی اور ون یونٹ نے بالآخر اکتوبر 1958 میں عوام کو حتمی طور پر حق حکمرانی سے محروم کر دیا۔ سرد جنگ کی چھتری تلے 13 برس کی فوجی حکمرانی ختم ہوئی تو ملک دو لخت ہو چکا تھا اور غاصب قوتیں اقتدار چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھیں۔ مشرقی پاکستان کی فوجی صورت حال کی ابتری سے قطع نظر متحدہ پاکستان اس المیہ تمثیل کے دوسرے ایکٹ میں عملی طور پر ٹوٹ چکا تھا۔ اس ممکنہ ترین قومی رسوائی کی تحقیقات کو دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ نصابی بیان سے قطع نظر، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش میں نہیں ٹوٹا، غاصب حکومت کو طوالت بخشنے کی خواہش کا شکار ہوا۔ فراموشی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ ملک ٹوٹنے کے پانچ برس بعد ہی دستور روندتے ہوئے پرانا نظام مسلط کر دیا گیا۔ یہ اس المیے کا چوتھا ایکٹ تھا جسے تنسیخ تشخص کا عنوان دینا چاہیے۔ ایک معتدل ملک کو قدامت پسندی، انتہا پسندی، فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کی نذر کر دیا گیا۔ دستور کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ انتقال اقتدار کی بجائے شراکت اقتدار کی ترکیب متعارف کرائی گئی۔ جمہوری عمل میں مداخلت کو ادارہ جاتی حیثیت دی گئی۔ عروس البلاد کراچی کی تباہی پر کوئی سنجیدہ بحث ہوئی؟ ملباری ہوٹل البتہ کھل گئے ہیں۔ ستمبر 1999 میں جب یہ تمثیل اگلے ایکٹ میں داخل ہوئی تو خارجہ محاذ پر ناقابل عمل دو سطحی پالیسی اپنائی گئی جس سے ملکی ساکھ تباہ ہو گئی۔ ہزاروں شہری اور فوجی جوان شہید ہوئے لیکن اجتماعی مکالمے میں اس المیے کا کہیں ذکر نہیں۔ لہو کا سراغ کہیں نہیں ہے۔ ملک کے اندر فیصلہ سازی کے اختیار اور وسائل کی تقسیم کے گرد ایسی آہنی دیوار اٹھائی گئی کہ معیشت زمین دوز ہو گئی، سرمایہ کار دم دبا کر بھاگ گیا۔ جاری اخراجات میں خسارے، بجٹ میں خسارے اور تجارتی خسارے نے معیشت کی بحالی کی امید ختم کر دی۔ یونانی المیے کی اسی اصطلاح Tragic Flaw سے مدد لیں تو ذہن سازی کی مدد سے ایک ایسی نسل تیار کی گئی ہے جو بدترین تباہی کا تجزیہ کرنا تو ایک طرف، اسے یاد رکھنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتی۔ ایسے میں ریاست اپنا بنیادی ڈھانچہ کیوں بدلے؟ المیہ یہ نہیں کہ ہمارا امکان ناپید ہے، ہمارا دکھ المیے کو فراموش کرنے کی علت میں پوشیدہ ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ