واشنگٹن (صباح نیوز)پاکستان سمیت 27 ملکوں پر مشتمل جی ایس پی الائنس نے اپنے خط میں امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان سے درخواست کی ہے کہ ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تجارت کے حوالے سے امریکی جی ایس پی پروگرام کی تجدید کے قانون کو جلد از جلد پاس کیا جائے۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر مسعود خان نے بھی دیگر 26 سفرا کے ہمراہ خط پر دستخط کیے۔ جی ایس پی الائنس کی جانب سے اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ 118ویں حالیہ کانگریس میں دونوں امریکی پارٹیوں کی جانب سے اس قانون کو حمایت حاصل ہوگی۔
جی ایس پی الائنس کی جانب سے اس حوالے سے امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کی قانون ساز کمیٹیوں کے صدور اور سینیئر اراکین (رینکنگ ممبرز) جن میں سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی، ایوانِ نمائندگان کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی، سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ اور ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے ویز اینڈ مینز کو یہ خط لکھا گیا ہے۔ پاکستان جی ایس پی الائنس کا متحرک رکن ہے جبکہ دیگر ممالک میں الجیریا، ارجنٹائن، بولیویا، برازیل، کمبوڈیا ،ایکواڈور، مصر، فجی، جارجیا، انڈونیشیا، قازقستان، کرغز جمہوریہ، لبنان، مالدووا، منگولیا، میانمار، شمالی مقدونیہ، نیپال، پیراگوئے، فلپائن، سربیا، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیونس، یوکرین اور یمن شامل ہیںتھائی لینڈ کے سفیر کی صدارت میں جی ایس پی الائنس کے منعقدہ اجلاس کی
میزبانی ارجنٹائن کے سفیر جارج آرگیلو نے کی۔ سفیر پاکستان مسعود خان اور منسٹر ٹریڈ عظمت محمود نے اجلاس میں شرکت کی۔ امریکی جی ایس پی پروگرام 1974 کے ٹریڈ ایکٹ کے ذریعے متعارف کرایا گیا اور یہ یکم جنوری 1976 میں عمل میں آیا۔ اس پروگرام کے تحت 119 ترقی پذیر ممالک اور 44 کم ترقی یافتہ ممالک کی 5,000 مصنوعات کو امریکہ میں ترجیحی بنیادوں پر ڈیوٹی فری رسائی میسر آتی ہے۔
مذکورہ قانون کی میعاد 01 دسمبر 2020 کو ختم ہوئی تھی۔ جی ایس پی الائنس کے اجلاس میں شرکت کے بعد سفیر پاکستان مسعود خان نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کے لئے امریکی منڈی تک رسائی کے لئے جی ایس پی پروگرام کی تجدید انتہائی اہم ہے ،مسعود خان نے کہا کہ مضبو ط معاشی تعلقات پر مشتمل دو طرفہ تعلقات کے قیام کے حوالے سے جی ایس پی پروگرام ایک اہم ذریعہ ہے۔ سفیر پاکستان نے کہا کہ اس پروگرام کی بدولت نہ صرف ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کو امریکی منڈی تک رسائی میسر آتی ہے بلکہ امریکیوں کمپنیوں کو خام مال اور دیگر مصنوعات کی درآمد میں سہولت حاصل ہو تی ہے جس سے معیشت میں بہتری اور کاروبارمیں اضافہ ہوتا ہے۔
سفیر پاکستان مسعود خان نے کہا کہ کووڈ 19 اور یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے سپلائی چین متاثر ہوئی جس کے نتیجے میں خوراک اور توانائی کی قلت پیدا ہوئی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہیمسعود خان نے کہا کہ پروگرام کی تجدید سے معیشت کے متعدد شعبوں میں ترقی آئے گی اور حالیہ درپیش چیلنجز کے حل میں مدد ملے گیسفیر پاکستان نے کہا کہ گذ شتہ سال پاکستان میں آنے والے سیلاب اور فصلوں کی وسیع تر پیمانے پر تباہی کے بعد پاکستان پر امید تھا کہ امریکہ زراعت پر مبنی ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کے لیے اپنی مارکیٹ تک رسائی میں اضافہ کرے گا.
مسعود خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور آب و ہوا کے خطرات سے دوچار دیگر ممالک کو بھی خوراک اور توانائی کی قلت ، مہنگائی اور دیگر چیلنجز کا سامنا ہے اور یہ جی ایس پی پروگرام کی بحالی کیلئے موزوں وقت ہی سفیر پاکستان نے کہا کہ جی ایس پی پروگرام کی فوری بحالی جی ایس پی الائنس میں شامل ممالک کے تجارتی ایجنڈے کا مرکزی جزو ہیمسعود خان نے کہا کہ 12 ارب ڈالر کے دو طرفہ تجارتی حجم کے ساتھ امریکہ پاکستانی مصنوعات کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ پاکستان جی ایس پی پروگرام سے مستفید ہونے والے 10 بڑے ممالک میں شامل تھا۔ پاکستان سے امریکہ میں ہونے والی تقریبا 6 سے 8 فیصد ہونے درآمدات جی ایس پی پروگرام کے تحت کی جارہی تھیں سفیر پاکستان نے کہا کہ پروگرام کی بحالی سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجود تجارتی استعداد کو برے کار لانے میں مدد ملے گی