لاپتہ افراد کے معاملے پر سردار اختر مینگل کی سربراہی میں سی ایم سیکریٹریٹ بلوچستان میں اہم اجلاس


اسلام آباد+کوئٹہ(صباح نیوز)لاپتہ افراد اور بلوچ طلبہ کی شکایات کا جائزہ لینے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بنائے گئے  پارلیمانی کمیشن کے کنوینئر سردار اختر مینگل کی سربراہی میں سی ایم سیکریٹریٹ بلوچستان میں اہم اجلاس ہوا۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان، آئی جی پی بلوچستان ، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ڈویژنل کمشنرز نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔یہاں کمیشن کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیوں، نسلی پروفائیلنگ اور ہراسگی کا معاملہ زیر بحث آیا۔ حکام نے بتایا کہ تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں کمیشن کی ہدایات کی روشنی میں سل قائم کردئے گئے ہیں اور ان کی تشہیر بھی کی جا رہی ہے۔الیکٹرانک میڈیا میں بھی اس کی تشہیر کریں گے۔،

چیف کمشنر مکران نے کہا کہ ہیلپ ڈیسک قائم کردیا گیا ہے اور اس کی تشہیر بھی کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہیلپ ڈیسک قائم کردیا گیا ہے اور اس کی تشہیر بھی کر رہے ہیں ۔، کمشنر کوئٹہ ڈویژن نے کہا کہ 4 درخواستیں موصول ہوئیں جس کو ہوم ڈیپارٹمنٹ بھیجیں گے۔۔کمشنر رخشان ڈویژن نے کہا کہ ہم نے ہیلپ ڈیسک قائم کردیا ہے تشہیر بھی سوشل میڈیا اور الیکٹرانک/پرنٹ میڈیا میں کر رہے ہیں، کوئی درخواست ابھی تک موصول نہیں ہوئی، جو بھی درخواست آئی گی اس پر کاروائی شروع کریں گے۔، ڈویژنل کمشنرز نے کہا کہہیلپ ڈیسک قائم کردئے گئے ہیں ، تشہیر بھی سوشل میڈیا اور الیکٹرانک/پرنٹ میڈیا میں کر رہے ہیں، کوئی درخواست موصول ہوگی تو اس پر کاروائی کی جائے گی۔،

ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے بتایا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ سل میں 700 درخواستیں موصول ہوئی، سکروٹنی کا 10 سٹپ پراسس ہے، 222 درخواستوں پر تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔۔کمشنر قلات نے کہا کہ ہمیں 12 درخواستیں لاپتہ افراد کے حوالے سے موصول ہوئیں ہیں،  تفصیلات کمیشن کے حوالے کردیں۔افراسیاب خٹک نے کہا کہ جو سل قائم کئے گئے ہیں ان میں لوگ درخواستیں کیوں نہیں دے رہے، لوگ کم کیوں آ رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے کہا کہدرخواستیں سکروٹنی کیلئے صوبائی ٹاسک فورس کے پاس آتی ہیں اور لوگ بھی ہم سے ملتے ہیں۔کمیشن نے تمام ڈویژنل کمشنرز کو اگلی میٹنگ میں موصول شدہ درخواستوں کی تفصیلات مہیا کرنے کی ہدایات جاری کردی ۔

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ داعش، ٹی ٹی پی یہاں سرگرم تھی، سی ٹی ڈی کو ری ویمپ کردیا گیا، کارپورل کا ایک پورہ سیکشن بنایا گیا ہے، ٹریننگ کیلئے کاونٹر ٹریرزم اسکول کے قیام کی تجویز دی ہے ، بلوچستان میں کافی مسائل ہیں اس میں کوئی شق نہیں ،ایف سی پر کافی حملے کئے گئے، اس کے بعد پولیس پر بھی حملے ہوئے، چینی باشندوں پر حملے ہوئے، عیسائیوں پر چرچ کے باہر حملہ ہوا، ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا ہے، دو طریقوں سے آپریشن کئے جاتے ہیں ایک سی ٹی ڈی خود کرتی ہے اور دوسری انٹیلجنس ایجنسیز کے ساتھ ملکر کرتی ہے، ایف سی کے ساتھ بھی مشترکہ آپرشن کبھی کبھی کرتے ہیں،اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، پرائیویٹ گواہ ڈر کے مارے کورٹ میں پیش نہیں ہوتے اس لئے وٹنس پروٹیکشن ایکٹ کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں، اکثر ڈر کی وجہ سے  ایف آئی آرز نہیں ہوتی تو اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ یہ حل ہونے والا نہیں،

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان نے کہا کہ آپریشنز/گرفتاریاں مسئلے کا حل نہیں جب تک پبلک سروس ڈیلیوری بہتر نہیں ہوگی، عوام کو ساتھ شامل نہیں کیا جائے گا، کے پی میں دوبارہ ٹی ٹی پی قدم جمانے لگی ہے ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ٹی ٹی پی بلوچستان میں دوبارہ نہ آجائے ورنہ حالات بہت خراب ہو جائیں گے، حال ہی میں بلوچستان میں ٹی ٹی پی نے 3 حملے کئے۔سردار اختر مینگل نے کہا کہسی ٹی ڈی کا سورس آف انٹیلیجنس کیا ہے؟ سی ٹی ڈی ٹریننگ کہاں سے اور کس سے لیتی ہے؟بی ایل اے، بی ایل ایف کے علاوہ بھی تنظیمیں ہیں ان کے خلاف کوئی آپریشنز کئے گئے؟اے ٹی ایف کے ساتھ جب مشترکہ آپریشن کرتے ہیں اس کو لیڈ کون کرتا ہے؟ ، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان  نے کہا کہ انسپکٹر/سب انسپکٹر لیڈ کرتا ہے، آرمی کے ساتھ کوئی مشترکہ آپریشن نہیں کیا،سردار اختر مینگل نے کہا کہ  عوام میں اعتماد کا فقدان کیوں پایا جاتا ہے؟ عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟

ناصر محمود  کھوسہ نے کہا کہ مشترکہ آپریشن میں ملزم کی کسٹڈی کس کے پاس رہتی ہے؟ ۔ حکام نے کہا کہ مشترکہ آپریشن میں کسٹڈی سی ٹی ڈی کے پاس ہی رہتی ہے،اگر ایف سی اور آرمی آپریشن کرتی ہے تو ہم اس کا حصہ نہیں ہوتے، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان نے کہا کہ ہمارے پاس کوئٹہ اور سبی کے علاوہ کہیں آفس نہیں ہے باقی علاقوں میں پولیس کے تھانوں اور لاک آپ کو استعمال کرتے ہیں۔ ناصر محمود  کھوسہ نے کہا کہ قانون کی پاسداری سب پر بشمول اداروں پر لازمی ہے،  افراسیاب خٹک نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ سنگین ہے،  افراسیاب خٹک نے کہا کہ پولیس کے نام سے گمشدگیاں ہو رہی ہیں جس سے پولیس کی بدنامی ہو رہی ہے۔ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے سورس آف انٹیلجنس اور ٹریننگ کے حصول بارے کمیشن کو بریف  کرتے ہوئے بتایا گیا کہ پنجاب اور کے پی انٹیلجنس اسکول سے تفصیلات اور انفارمیشن فراہم کرنے کی درخواست کی ہے جس کی روشنی میں سی ٹی ڈی بلوچستان کی انٹیلجنس کو بہتر بنایا جائے گا،کمیشن کے کنوئینر نے کچھ لاپتہ افراد کے حوالے سے سی ٹی ڈی حکام سے سوالات کئے جس کی متعلقہ معلومات ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان نے فراہم کیں۔کمیشن نے سی ٹی ڈی سے آپریشنز اور ان آپرشنز میں مارے گئے افراد کی تفصیلات طلب کرلیں۔

آئی جی پی بلوچستان نے لاپتہ افراد اور عوام کی اعتماد کی بحالی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے کمیشن کو آگاہ کیا اور کچھ تجاویز بھی دیتے ہوئے کہا کہ جن علاقوں میں پولیس کا باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے وہاں پیرا ملٹری فورس کی مدد لیتے ہیں،سی ٹی ڈی کو مزید موثر ہونے کی ضرورت ہے لیکن ناانصافی بلکل بھی نہیں کرنی چاہئے،مس ٹرسٹ کو ختم کرنے کیلئے عوام کے ساتھ انٹرایکشن کو فروغ دینے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں،طلبہ کو انگیج کرنے کا بھی پروگرام ہے، افسران یونیورسٹی جا کر بحث و مباحثے میں حصہ لیں گے،بلوچستان میں پولیس کو مزید موثر بنانے کیلئے وفاق سے مالی معاونت کی اشد ضرورت ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ قانون پر عمل کریں، میں کوشش کر رہا ہوں کہ سی ٹی ڈی میں مقامی لوگ بھرتی ہوں،احتساب اور انکلوسیونس کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے،جب لوگوں سے بات کریں گے، ملیں گے تو مس ٹرسٹ آہستہ آہستہ ختم ہوگا،میں کوشش کروں گا کہ سی ٹی ڈی جو بھی آپریشن کرے اس میں شفافیت ہو۔

ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے کہا کہ مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے، کوئی مسنگ پرسن کا معاملہ آتا ہے تو باقاعدہ اس پر ان-کیمرہ بریفنگ ہوتی ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ لاپتہ افراد کا سلسلہ بند ہو،کنوینئرنے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کورکمانڈر بلوچستان سے بھی ان کا موقف معلوم کرنے کی کوشش کریں گے،  کل ان کی کوئی مصروفیت تھی جس کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی، قبل ازیں لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن کے  کنوئینر سردار اختر مینگل کی سربراہی میں چیف منسٹر بلوچستان سے ملاقات کی۔ آئی جی پی بلوچستان، سیکریٹری ہو م ڈیپارٹمنٹ بلوچستان اور چیف سیکریٹری بلوچستان بھی ملاقات میں موجودتھے۔یہاں کیمشن کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق سی ایم بلوچستان نے کمیشن ممبران کا تشریف آوری پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہیں، کوئی معلومات چاہئیے تو ہم فراہم کریں گے۔

سردار اختر مینگل نے  ملاقات اور دورے کے سلسلے میں دیگر تمام حفاظتی اورانتظامی اقدامات کرنے پر شکریہ اداکرتے ہوئے  چیف منسٹر بلوچستان کو کمیشن کی تشکیل اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا اور کہا کہ  کمیشن اس مسئلے کے سلسلے میں تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کرنے کے لیے بلوچستان کا دورہ کر رہا ہے۔کنوئینر کمیشن نے کمیشن کی سات اجلاسوں کی تفصیلات سے مختصرا آگاہ کیا۔ کمیشن نے پیش کش کی کہ بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیوں کے معاملے کو حل کرنے کیلئے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔  اس بات کو سراہتے ہیں کہ حکومت بلوچستان نے ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں متعلقہ کمشنروں کے ماتحت عوام کی رائے حاصل کرنے، شکایات کے اندراج اور لوگوں کی شکایات کے ازالے کے لیے سہولت کاری ڈیسک قائم کیے ہیں، تاہم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس کی تشہیر کی ضرورت ہے۔ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے، لوگوں کی پہنچ کوئٹہ تک نہیں ہے، اختر مینگل نے کہا کہ کمیشن کی تشہیر کیلئے حکومت بلوچستان کی مدد درکار ہے،

محکمہ داخلہ بلوچستان میں لاپتہ افراد بالخصوص بلوچ طلبہ کے معاملے کی نگرانی کیلئے ایک خصوصی سیل بنانے کی ضرورت ہے،  خصوصی سیل کا مینڈیٹ لاپتہ طلبہ کے ٹھکانے کا پتہ لگانا اور ان کے اہل خانہ کو کسی بھی پیش رفت سے باخبر رکھنا ہوگا۔ سی ایم بلوچستان نے مسئلے کے حل کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات بارے کمیشن کو آگاہ کیا، کمیشن کی رپورٹ کا حصہ بنانے کیلئے کمیشن نے سی ایم بلوچستان سے بھی تجاویز طلب کیں۔سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ حکومت کم سے کم آج ہم سے  اس عزم کا اظہار کرے کہ آج کے بعد کوئی لاپتہ نہیں ہوگا، کانفیڈنس بلڈنگ مائیزرز بھی اٹھانے چاہئے۔

سابق چیف سیکریٹری بلوچستان ناصر کھوسہ نے کہا کہجو مسنگ پرسن کے معاملے میں ملوث ہیں ان کو عدالت میں پیش کیا جانا چاہئے، سب کو قانون کا پابند کرانے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر عاصمہ فیض نے کہا کہ مسنگ پرسن کے کیمپ پر جانا کافی تکلیف دہ تھا ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں آپ اس صوبے کے سربراہ ہیں۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ دہشت گردی، جبری گمشدگی کچھ ایسے حقائق ہیں جس کو تسلیم کرنا ہوگا،اگر صوبائی حکومت یہ بوجھ اٹھانے کو تیار ہے تو پھر ایسے ہی سہی ہے،سی ٹی ڈی کو استعمال کیا جاتا ہے جو صوبائی حکومت کیلئے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے،

وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ ہائی کورٹ کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے یہ کمیشن تشکیل دیا،دعا ہے کہ یہ کمیشن اپنے مقصد میں کامیاب ہو،مسنگ پرسن کا معاملہ ایسا ہے جو پورے گھر والوں کو اپاہج بنا دیتا ہے، ہم نے کھویا بہت کچھ ہے لیکن پایا کچھ بھی نہیں،ہر فورم پر اس حوالے سے بات کریں گے،اس معاملے پر کمیشن کے ساتھ تعاون کریں گے،جہاں بھی مدد کرسکتے ہیں وہاں مدد فراہم کریں گے،ہم سب ملکر اس کمیشن کا ساتھ دیں گے، بہت حد تک اس معاملے کی گہرائی میں گئے ہیں،امید ہے کمیشن کے قیام سے معاملات بہتر ہوں گے۔سی ایم بلوچستان نے کمیشن اور ڈویژنل سل کی تشہیر کی یقین دہانی کرائی انھوں نے بلوچ طلبا سے منسلک کمیشن کی جانب سے اٹھائے گئے معاملات کو جلد حل کرانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ کسی کے اوپر انگلی اٹھتی ہے تو اس کو جوابدہ ہونا چاہئے،  سی ایم بلوچستان نے کنوئینر اس  بات سے اتفاق کیا ہے کہ  اگر اس طرح کے معاملات چلتے رہیں تو لوگوں کے دلوں میں اداروں کیلئے محبت کم ہوتی جائے گی۔وزیراعلی بلوچستان نے یہ بھی کہا کہ ہر معاملات میں اداروں پر انگلی نہیں اٹھانی چاہئے کچھ لوگ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں لیکن مسنگ پرسن میں شمار کئے جاتے ہیں،میری حکومت میں میں نے کبھی بھی احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی بات کی نا ہی اجازت دی بلکہ مظاہرین سے بات چیت کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔

ناصرمحمود کھوسہ نے کہا کہ یہ مسئلہ ہیومن رائٹس کا مسئلہ نہیں بلکہ نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ بن گیا ہے۔سی ایم بلوچستان نے کہا کہ صوبے میں نا انصافی کی وجہ سے کچھ سالوں بعد انسرجنسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ اگر توتک کمیشن کی رپورٹ نہیں ہے تو ہمیں لکھ کر دے دیں کہ رپورٹ پاس نہیں ہے، ہم پھر اس کے بارے میں آپ سے نہیں پوچھیں گے،یہ رپورٹ حکومت کی پراپرٹی ہے۔