واہگہ سے گوادر تک ایک ہیجان کا عالم ہے۔ قریۂ سفاک میں انہونیاں ہورہی ہیں۔ لوگ اس سرنگ کے آخر میں روشنی کی کرن کی امید باندھے ہوئے ہیں۔ اس وقت صرف اور صرف امید سپریم کورٹ ہے۔ الحمد للہ۔ چیف جسٹس نے پیر کے روز اس بحران کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نگہ بلند نے خطرناک رجحانات کا ادراک کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمت عطا کی ہے کہ وہ مصلحت سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف مملکت کے وقار عوام کے سکون کو مد نظر رکھیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے قطعی اور واضح فرامین کے بعد بھی یہ فرسودہ مافیائی نظام اپنی بقا کے لئے وہی ہتھکنڈے اختیار کرتا ہے یا اس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اب وہ دن لد گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب یہ 80-70 کی دہائیاں نہیں ہیں۔ یہ 2021 کی دہائی ہے۔ اب مملکت کے تمام اداروں کو اکیسویں صدی کے معیار پر پورا اترنا ہوگا۔ ورنہ معدومی ان کا مقدر ہوگی۔
اس انتہائی افسردگی بے زاری اور کشیدگی کے عالم میں شہر قائد میں نئی نویلی، البیلی الیکٹرک بسیں خوشیاں بکھیر رہی ہیں۔ پہلے سے سبز اور سرخ بسیں کراچی کی شاہراہوں پر دوڑ رہی ہیں۔ اب یہ بجلی سے چلنے والی بسیں بھی مسافروں کی بڑی تعداد کو گھر سے دفتر، کارخانے اور وہاں سے واپس گھر پہنچایا کریں گی۔ شہر آلودگی سے محفوظ رہے گا۔ دوسری بسیں، گاڑیاں، رکشے،موٹر سائیکلیں اپنے حصّے کی آلودگی پھیلاتی رہیں گی۔ لیکن یہ شہر میں آلودگی میں کمی لائیں گی۔ شہریوں کے محصولات ،ٹیکسوں کے عوض ریاست کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان کی جان و مال کی حفاظت کرے۔ اچھی تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرے اور چوتھی ذمہ داری بہتر آرام دہ ٹرانسپورٹ۔ اس کیلئے سندھ حکومت یقیناً لائق تحسین ہے۔ خاص طور پر شرجیل میمن جن کے پاس اطلاعات کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کا محکمہ بھی ہے۔ وہ املاک کا کاروبار تو کرتے رہے ہیں لیکن ٹرانسپورٹ مافیا سے ان کا کبھی کوئی رشتہ نہیں رہا۔ ان ایئرکنڈیشنڈ، سرخ،سبز اور برقی بسوں کی شارع فیصل، راشد منہاس اورایم اے جناح روڈ پرآمد کے بعد کراچی والوں کو باعزت آرام دہ محفوظ سواری مل رہی ہے۔ اب ان بسوں میں سفر کرنے والے منی پاکستان کے شہریوں کی ذمہ داری ہوگی کہ ان انتہائی قیمتی بسوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ پہلے بیسویں صدی میں بھی اس وقت کے مطابق اچھی بسوں کی کوشش کی گئی تھی لیکن محکمۂ ٹرانسپورٹ اور ٹرانسپورٹ مافیا کے گٹھ جوڑ سے وہ لمبی لمبی بسیں ورکشاپوں میں ایسی حالت میں پہنچائی گئیں کہ وہ بے چاری دوبارہ سڑکوں پر نہ آسکیں۔ شرجیل میمن نے یہ نوید دی ہے کہ کراچی کی ضرورت کے مطابق اور بسیں بھی اس بیڑے میں شامل ہوں گی۔
اللہ کرے دوسرے صوبوں کو بھی یہ توفیق اور ہمت ہو کہ وہ اپنے شہریوں کیلئے اکیسویں صدی کے معیار کی ایسی سہولت کا اہتمام کریں۔ پاکستان کے قیام کے وقت انگریز کی شروع کردہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس یاد آجاتی ہے جو تمام چھوٹے بڑے شہروں کے اندر بھی اور دوسرے شہروں تک جانے کیلئے بھی دستیاب ہوتی تھی۔ بہت سستے ٹکٹ۔ ہر بس میں کنڈکٹر۔ ٹکٹ چیکر بھی ہوتے تھے۔ لاہور، کراچی میں ڈبل ڈیکر بھی چلتی تھی۔ ٹرانسپورٹ ریاست کی سب سے بنیادی ذمہ داری ہے۔ جسے اسّی کی دہائی سے بلکہ ایوب خان کے زمانے سے ہی پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کردیا گیا جس سے ٹرانسپورٹ مافیا کی اجارہ داری قائم ہوئی اور عوام پریشانیوں میں مبتلا ہوتے رہے۔ کچھ ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے اچھی حسین بسیں بھی فراہم کی ہیں لیکن کرائے بہت زیادہ ہیں۔سندھ حکومت لائق تعریف ہے۔ مگر ان خوش جمال بسوں کیلئے سڑکیں ہمیشہ بہتر رکھنا ہوں گی۔ ورنہ ان کی طبع نازک پر کھڈے اوراونچ نیچ گراں گزرے گی۔
۔۔۔۔
ولادی میر لینن نے کہا تھا۔’’ بعض دہائیاں ہوتی ہیں۔ جب کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوتا۔ لیکن بعض ہفتے ایسے ہوتے ہیں جن میں دہائیاں واقع ہوجاتی ہیں۔‘‘جب سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں یہ 13 جماعتی مخلوط حکومت راجدھانی میں متمکن ہوئی ہے اس میں تو دہائیاں بلکہ صدیاں واقع ہو رہی ہیں۔ انقلاب ابتلاؤں اور سنگین بحرانوں کے بعد ہی صورت پذیر ہوتے ہیں۔ جب رجعت پسند اپنے فرسودہ نظام کا دفاع کررہے ہوتے ہیں اور ان کی مزاحمت بڑھتی رہتی ہے تو جیسے جیسے پرانی مشینوں کے نٹ پرزے تھک تھک کر مشین کی روانی میں خلل ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جگاڑ سے چلتا نظام بھی جھٹکے لیتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک غلطی پر دوسری غلطی۔ ایک طرف مزاحمت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ دوسری طرف نا انصافیاں۔ غلط کاریاں بے نقاب ہوتی رہتی ہیں۔
چھ دہائیوں سے دشتِ صحافت کی سیاحی میں موجودگی کی بدولت 60کی دہائی سے عوامی ابھار دیکھتا آ رہا ہوں۔ وہ افراد جو وطن کیلئے ناگزیر تھے۔ آخری امید بتائے جاتے تھے۔ ان کو بہت بے چارگی سے اپنے ہاں بھی رخصت ہوتے دیکھا۔ ایشیا اور یورپ میں بھی ایسے مناظر دیکھے۔ مطلق العنان آمر بھی بے بس نظر آئے۔ ان دنوں صرف اخبار اطلاع کا ذریعہ ہوتے تھے۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے اکثر ملکوں کے اخباروں میں مقبول لیڈروں کی خبریں نہیں چھپتی تھیں لیکن ان کی مقبولیت ان کے جلسے جلوسوں سے بڑھتی جاتی تھی۔ سینہ بسینہ اطلاعات چلتی تھیں۔ اب تو اخبار ہیں۔ ٹی وی چینل ہیں۔ یو ٹیوب، واٹس ایپ گروپ، ٹوئٹر، انسٹا گرام، فیس بک ہیں ۔ پہلے کیمرہ مین کا اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ اب ہر ہاتھ میں کیمرہ ہے۔ اب مزاحمت ریاست اور حکومت سے زیادہ طاقت ور ہوگئی ہے اور اب اپوزیشن کے پاس اکیسویں صدی کی ہر قسم کی مزاحمتی طاقت ہے۔ حکومتوں کے پاس بھی یہ سب کچھ ہے مگر اس کیلئے اکیسویں صدی کا مزاج۔ تحقیقی و تخلیقی صلاحیت۔ انصاف کا ادراک بھی ناگزیر ہے۔ اکیسویں صدی کا لہجہ، خوشحالی کا منصوبہ اور تیز رفتار کارکردگی بھی چاہئے۔ صرف آراستہ مسندیں، قیمتی کرسیاں، کروڑوں کی گاڑیاں، لاکھوں کے گارڈز ، وزارتی کالونی میں بنگلے اوروی وی آئی پی پروٹوکول بحران سے نہیں نکال سکتا ہے۔ ہر روز یہ محسوس ہوتا ہے کہ پارلیمانی نظام کے تقاضوں کے مطابق ان پارٹیوں نے پہلے سے کوئی اقتصادی منصوبہ۔ خوشحالی کی دستاویز نہیں بنائی تھی۔ عوام کے موڈ کا اندازہ نہیں کیا تھا۔ ریاستی طاقت بھی کارگر نہیں ہورہی ہے۔ معاملات روزالجھتے جا رہے ہیں۔
ہم نے ایک پارلیمانی نظام اختیار کیا ہے۔ جس میں مسائل کا آخری حل کسی وقت بھی عام انتخابات ہوتے ہیں۔پارلیمانی نظام کا یہی حسن ہے۔ جلد یا بدیر اسی طرف جانا ہوگا۔ اس کیلئے جلد کوئی لائحہ عمل اختیار کرلیا جائے تو سب کا وقار بحال ہوسکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ