عربی لغت میں حجاب کا لفظ پردہ اور لباس کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ جدید عربی میں اس لفظ کے معنی مسلمان عورتوں کیلئے ایسا کپڑا یا کپڑے کا ٹکڑا ہے جسے وہ نامحرموں اور اجنبیوں سے خود کو ڈھانپ کر رکھنے اور اپنے ستر کو چھپانے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ حجاب عورت کیلئے ایسا لباس ہے جو اس کے حسن اور بدصورتی دونوں کو چھپا کر تحفظ فراہم کرتا ہے۔
قرآنِ کریم میں ﷲ تعالیٰ نے کئی مرتبہ مختلف مقامات پر عورتوں کے حجاب اور پردے پر زور دیا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
“مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر مت کریں سواۓ اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔” (سورۃ النور:31)
سورۃ الاحزاب میں بھی ﷲ رب العزت نے حجاب کے متعلق احکام جاری کرتے ہوئے فرمایا
“اے بنی ﷺ! اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور ﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔” (سورۃ الاحزاب:59)
اس سلسلے میں ﷲ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کیلئے جو سب سے زیادہ لازمی حکم دیا ہے وہ “غضِ بصر” کا ہے۔ اس سے مراد نظریں نیچی رکھنا یا نگاہیں پست رکھنا جبکہ اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اس چیز سے پرہیز کیا جاۓ جسے “آنکھوں کا زنا” قرار دیا گیا ہے۔ اردو زبان میں ہم اس لفظ کا مفہوم “نظر بچانے” سے بخوبی ادا کر سکتے ہیں۔
ﷲ رب العزت کا ہم پر بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں “اسلام” جیسی نعمت سے نوازا اور اپنے خاص بندوں میں شامل کیا۔ ایک ایسی شریعت دی کہ جس میں صحیح عقائد، عمدہ اخلاق اور کردار کی پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شرک و بدعت، بداخلاقی اور بے حیائی سے ممانعت پوری تاکید کے ساتھ موجود ہے۔ ہر شخص کو معاشرے میں وہ عزت و حیثیت دی گئی ہے جس کا وہ واقعی حقدار ہے۔ اسی لیئے عورت کیلئے حجاب کا حکم ہے کیونکہ حجاب مسلمان عورت کی عزت، تحفظ اور منفردیت کی علامت ہے۔
مسلمان معاشرے کی ہر عورت اس کی رکن کی حیثیت رکھتی ہے خواہ اس کا تعلق مغرب سے ہو، ایشیا یا پھر عرب سے۔ کچھ عرصہ قبل ان تمام معاشروں میں مسلمان عورت ایک باوقار طریقے سے زندگی گزارتی تھی کیونکہ اس کا حجاب اس کیلئے اہمیت رکھتا تھا۔ دوپٹے اور حجاب کے بغیر گھر سے باہر قدم رکھنے کو غیر مناسب حرکت قرار دیا جاتا ہے۔ مائیں اپنی بیٹیوں کی تربیت کرتے ہوئے انہیں اس بات کا احساس دلاتی تھیں کہ حجاب ان کے لئے کس قدر ضروری ہے۔ پاکیزہ معاشرے اور صاف ستھرے ماحول کے قیام کیلئے خواتین کو گھروں میں رہنے اور گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ مردوں کا باہر کی ذمہ داریاں سونپ کر باہمی اختلاط سے روکا گیا ہے۔
گزشتہ نصف صدی میں ہمارا اسلامی معاشرہ چند غیر مسلم قوتوں کی حیاسوزی کی تحریکوں بلکہ یلغار سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ہماری خواتین جدیدیت اور آزادی کے نام پر وہ عزت و حیثیت کھو چکی ہیں جو انہیں ﷲ تعالٰی نے عطا کی تھی۔ اس سب میں زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس المیہ کا خاتمہ کرنے اور اس کو روکنے کی کوشش کرنے کی بجاۓ بعض مسلم دانشوران تو بے حجابی کو جواز کا درجہ دینے کی جدوجہد میں مگن ہیں اور اس میدان میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ اب وہ یہ دعوت دیتے پھرتے ہیں کہ حجاب ہماری خواتین کیلئے ضروری نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم دلائل کے ساتھ ثابت کریں گے کہ بے حجابی کی گنجائش خواتین کیلئے موجود ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ دین میں کوئ دلیل نہیں ہوتی۔ یہ تو اپنے مالک سے محبت، اطاعت، فرمانبرداری اور روحانیت کا معاملہ ہے۔ جو لوگ اپنے ہر معاملے کو اسلام کی روشنی میں دیکھتے ہیں ان کیلئے “اسلام” ازخود ایک دلیل ہے۔ اصل بات صرف نیت کی ہی ہے۔ ڈھونڈنے والوں کو دین میں ہر مسلے، پیچیدگی اور تشنگی کا جواب مل جاتا ہے اور اگر بندے کی نیت میں ہی کھوٹ ہو تو ہر چیز میں کچھ نہ کچھ خرابی نظر آتی رہے گی۔
کوئ قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والو کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
ایمان کی کمزوری اور عقائد کی ناپختگی کی وجہ سے چند غیراسلامی قوتیں ہمارے معاشرے میں بےپردگی اور بےحجابی کو عام کرنے میں کامیاب ہوئ ہیں۔ اس کے نتیجے میں آج ہم اور ہماری نئی نسل ایک ایسے ماحول میں سانس لے رہے ہیں جس میں بدنیتی، بداخلاقی اور بدکاری قدرِ زیادہ موجود ہے۔ اس بےراہ روی کے بڑھنے میں زیادہ کردار عورتوں نے ادا کیا ہے بنسبت مردوں کے۔ ہماری خواتین نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی عزت اور تقدس کو پامال کیا ہے۔ حالات نے یہ ثابت کیا ہے حجاب ہی ہماری خواتین کیلئے عزت و وقار کا باعث ہے۔ اس کی مثال ہمیں عہدِ حاضر سے کچھ اس طرح ملتی ہے کہ جب کوئ عورت باپردہ ہو کر اپنی پارسائی کا خیال رکھتے ہوۓ گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو لوگ بھی اس کی عزت کرتے ہیں، اس کو راستہ دیتے ہیں اور اس کیلئے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ایک بےپردہ عورت جب بن سنور کر گھر سے نکلتی ہے تو اس پر طرح طرح کی نظریں بھی پڑیں گی، عجیب عجیب طریقے سے لوگ اسے گھوریں گے بھی اور آوازیں بھی کسیں گے۔ اس مثال سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حجاب ہی ہماری خواتین کی عزت اور ان کے تحفظ کا واحد ذریعہ ہے۔
ہماری نئی نسل کیلئے نقصان دہ بات یہ ہے کہ جن تعلیمی اداروں میں والدین انہیں اخلاقی نشونما اور تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں درحقیقت یہی تعلیمی ادارے ان کی اخلاقی بربادی اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے میں سب سے زیادہ حصہ دار ہیں۔ جس وقت ہماری کم عمر اور نا سمجھ بچیاں سکولوں میں جاتی ہیں تو شروع دن سے ہی مخلوط تعلیمی نظام اور غیر مناسب لباس کی شکار ہو جاتی ہیں جو بڑھتی ہوئی بے رہ روی اور بے حیائی کی اصل جڑ ہے۔ ان چیزوں کیخلاف جو چند باشعور لوگ آواز اٹھاتے ہیں انہیں قدامت پسند اور دقیانوس جیسے القابات سے نواز دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں سکولوں کے غیر اسلامی ماحول میں پلنےبڑھنے کے بعد کالج اور یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل کرنے تک کے اس عرصے میں ہماری مسلمان بچیوں کے رنگ و روپ مکمل طور پر مغربی تہذیب وثقافت میں ڈھل چکے ہوتے ہیں اور پھر حیاسوزی اور بدکاری کے وہ مناظر سامنے آتے ہیں کہ انسانیت اور شرم و حیاء اپنا منہ چھپائے پھرتے ہیں۔
بے پردگی ایک ایسی برائ ہے، گندگی کا وہ سودا ہے، جو گھر، خاندان اور معاشرے میں انگنت تنازعات، فسادات اور لڑائی جھگڑوں کو جنم دیتا ہے۔ اہلِ مغرب کے مقابلے میں ہمارے ہاں گھریلو تنازعات اور طلاق کی شرح قدرِ کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی بھی چند خواتین ایسی موجود ہیں جو اسلامی تہذیب و ثقافت کے نفاذ کیلئے سر اٹھا کر کھڑی ہیں جو مغرب کی پریشانی اور خوفزدگی کی بہت بڑی وجہ ہے۔ اسی لئے فرانس اور کئی غیر مسلم ممالک میں حجاب پر پابندی لگائی گئی ہے تاکہ اسلامی تہذیب و ثقافت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
ہماری مسلمان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ نمود و نمائش کے اس دور میں وہ آگے بڑھ کر کبھی بھی کسی صورت کامیابی اور ترقی حاصل نہیں کر سکتیں۔ حجاب ہی ان کیلئے اصل کامیابی ہے جو انہیں دنیا کی باقی تمام عورتوں سے منفرد اور باعزت بنا دیتا ہے۔
جو چیز ہمارے لیئے قیمتی ہوتی ہے اسے ہم باقی لوگوں سے چھپا کر کسی خاص پردے میں رکھتے ہیں تاکہ وہ کسی قسم کی بری نیت یا بری نظر کی ضد میں نہ آئے۔ اسلام میں بھی خواتین کو اعلیٰ مرتبہ دیا گیا ہے، اسی لئے انہیں حجاب کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ تقدس کی چیزوں کو ڈھانپ کر رکھا جاتا ہے اور عورت کیلئے تقدس اس کا حجاب ہے۔ عورت شرافت کا آئینہ دار ہے۔ ہماری نسلوں کی اخلاقی تتربیت وہی عورت کر سکتی ہے جو باحیاء اور باوقار ہو۔
ہماری خواتین کیلئے ازواجِ مطہرات اور ان کی زندگیاں بہترین مشعلِ راہ ہیں۔ حضرت خدیجہ (رضی ﷲ تعالیٰ عنھا) ایک تاجرہ تھیں۔ پورے عرب معاشرے میں انہیں عزت و وقار حاصل تھا لیکن اس کی اصل وجہ ان کی حیاء اور حجاب تھا۔ عہدِ حاضر کی مسلمان خواتین اگر گھر سے نکلتے ہوۓ شرعی پردے کا خیال رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں تو وہ محفوظ بھی رہیں گی اور بہتر طور پر معاشرے میں اپنا کردار بھی ادا کر سکیں گی۔
ﷲ سے دعا ہے کہ ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ایک اسلامی معاشرہ وجود میں آسکے کیونکہ اسلامی معاشرہ ہی واحد ایسا معاشرہ ہے کہ جس میں ہماری آنے والی نسل بہتر انداز میں اپنی زنگیاں گزار سکتی ہے۔