عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
بہت جنازے دیکھے ہیں۔ عقیدت،محبت اور عشق کے مظاہر۔ بہت سوں کے لیے احترام تھا، لگن تھی مگر ان کے لواحقین کو آزادی سے دفنانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ خاموشی سے چند نمازیوں کی موجودگی میں تدفین والوں کے مزاروں پر اب ایک خلقت حاضری دیتی ہے۔ شہر کے شہر کھنچے چلے آتے ہیں۔
ارشد شریف کے اس ملک میں سانس لینے پر پابندی تھی مگر مرنے کے بعد ایسی آزادی ملی کہ ہزاروں پاکستانی اسے سفرِ آخرت پر رخصت کرنے کے لیے پورے پاکستان سے پہنچے۔ وہ کسی پارٹی کا لیڈر نہیں تھا۔ نہ کسی تنظیم کا سربراہ۔ ایک صحافی، ایک اینکر پرسن جو جیا توفخر کے ساتھ اور سپردِ خاک ہوا تو ایک شان کے ساتھ۔ ہم جو اس قوم کی بے حسی، غفلت اور ہر ظلم برداشت کرنے کے شاکی رہتے ہیں، اس دوپہر اس عظیم قوم نے زندہ ہونے کا ثبوت دیا۔ اللہ تعالیٰ ارشد شریف کے درجات بلند کرے اور جو بھی اس قتل کے منصوبہ ساز ہیں اورجو براہِ راست قاتل ہیں، وہ جلد بے نقاب ہوں۔
قائد اعظم کی قیادت میں،لاکھوں انسانوں کی قربانیوں سے حاصل کی گئی اس عظیم مملکت میں آزادی کے عین 75ویں سال میں ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر جتنی افراتفری نظر آرہی ہے، وہ ہم پاکستان کی ہم عمر نسل والوں نے بھی نہیں دیکھی۔ اسلام کے نام پر قائم کیے گئے ملک اور اسلام کے نام پر آباد کیے گئے دارُالحکومت اسلام آباد میں ہر صبح بے یقینی کے ساتھ شروع ہوکر شام ، حراستوں، تشدد کی خبروں کے ساتھ ڈھلتی ہے۔ دارُالحکومت خوش خبریوں کا مرکز ہوتے ہیں، جہاں سے اس ملک کے بیٹوں بیٹیوں۔ بزرگوں، ماؤں بہنوں کے لیے طویل المیعاد پالیسیاں جاری ہوتی ہیں۔ اسلام آباد میں ہم سیاسی اور فوجی حکمرانی کے تجربے برابر برابر کرچکے ہیں۔ انتہائی اہم اور حساس محل وقوع رکھنے والا،دنیا کی تینوں طاقتوں امریکہ، روس اورچین کے لیے ہر دَور میں اہمیت کا حامل۔ غیؤرپٹھانوں، بلوچوں، پنجابیوں، سندھیوں، کشمیریوں اورگلگت کے باسیوں کا وطن پاکستان جتنا عظیم اور وقیع ہے۔ جتنے قدرتی اورمعدنی وسائل سے مالا مال۔ 60فی صد نوجوان۔ اکثریت جفاکش۔ ہمارے حکمران طبقوں نے اس کی کبھی قدر نہیں کی۔یہ بحرانی صورت حال کبھی کبھی تو یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے 1947 میں یہ جو نعمت ہمیں عطا کی تھی، کیا ہم اس کے اہل نہیں ہیں؟75سال پہلے ہمیں جو ملک ملا تھا، وہ جرمنی کو قرضہ دیتا تھا۔ سعودی عرب کی مدد کرتا تھا۔ جنوبی کوریا ہمارے پہلے 5سالہ منصوبے سے فیض حاصل کرتا تھا۔ پھرکیا ہوا؟ آج اتوار ہے دوپہر کے کھانے پر اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتے پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے ملنے، ان کے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ وہ ہم سے زیادہ با خبر ہیں۔ دنیا بھر کی معلومات رکھتے ہیں۔ اسمارٹ فونز انہیں لمحہ لمحہ بتاتا رہتا ہے کہ انسان کہاں عالمِ فانی کو تسخیر کررہاہے اور کہاں وقت کے سامنے عجز کا شکار ہے اور کہاں خلق خدا راج کررہی ہے؟ ہم نے اپنی ترجیحات کا تعین واضح طور پر نہیں کیا۔ ایک حکمران جو منصوبے سر فہرست رکھتا ہے، اس کے بعد آنے والا انہیں فہرست کے آخر میں لے جاتا ہے۔ ہاں ایک ایٹمی پروگرام ہے جو ہم نے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھایا۔ سب حکمرانوں نے، جو ایک دوسرے کے بد ترین مخالف تھے، انہوں نے بھی اسے جاری رکھا اور بالآخر ہم ایٹمی طاقت بن گئے لیکن اس سے ہٹ کر ہم ایک سوئی بھی نہیں بناتے۔ سب کچھ درآمد کرتے ہیں۔ معیشت، تعلیم، صحت، زراعت، آبپاشی، پینے کا پانی، بڑے ڈیم کچھ بھی مثالی نہیں ہے۔ ہزاروں ارب روپے کے قرضے ان شعبوں کیلئے لیے گئے مگر ان سارے شعبوں میں ہم دنیا سے کم از کم 50سال پیچھے ہیں۔
آپ اب جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، اس وقت سب کی نظریں لانگ مارچ پر لگی ہوں گی۔ ہم اصطلاحات بڑی فراخدلی سے استعمال کرلیتے ہیں۔ کتنی پارٹیوں نے لانگ مارچ کیے۔ کتنی نے ملین مارچ۔ لانگ مارچ۔ شارٹ ثابت ہوئے۔ ملین میں ایک لاکھ بھی جمع نہ ہوسکے۔ لانگ مارچ تاریخ کے اوراق میں چین کے عظیم قائد ماؤزے تنگ سے منسوب ہے۔ درحقیقت تو یہ ایک فوجی پسپائی تھی۔ سرخ فوج جو بعد میں پیپلز لبریشن آرمی کہلائی۔ اس نے اپنے مد مقابل سے مزاحمت میں کچھ ناکامی کے بعد پسپائی کا فیصلہ کیا جو فوجی نقطۂ نظر سے درست ثابت ہوا۔ اس وقت نہ ٹی وی چینل تھےاور نہ سوشل میڈیا۔ 9000کلومیٹر کا سفر قریباً ایک سال میں طے ہوا تھا۔ راستے میں گھاٹیاں تھیں۔ پہاڑ تھے۔چلے تو 69000 تھے جیانگسی سے۔ لیکن شانگسی میں پہنچے 7000 تھے۔ایک ہی مماثلت ہے کہ یہ لانگ مارچ بھی اکتوبر میں شروع ہوا، 1934 میں اور اگلی اکتوبر میں ہی ختم ہوا۔
اب لانگ مارچ حقیقی آزادی کے حصول کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ اصولاً تو ہمیں کسی کی نیت پر شک نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کتنا لانگ ہوگا۔ کتنا موثر؟ دعا یہی ہونی چاہئے کہ پُر امن رہے۔ راستے بند نہ ہوں۔ کاروبار متاثر نہ ہو۔ ملک کی معیشت پہلے ہی بہت زبوں حال ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ غربت کی لکیر سے اوپر آنے کی بجائے ہر روز بڑی تعداد نیچے جارہی ہے۔ جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن مل کر ملک کو آگے لے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں طاقت کا توازن بہت متزلزل ہے۔ اس ہفتے کے دوران ہونے والی پریس کانفرنسیں گواہی دے رہی ہیں کہ معاملات کہاں تک جا پہنچے ہیں۔ کبھی سامنے آکر نہ بولنے والے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس کو بھی ایک طویل خطاب کرنا پڑا۔
وفاقی حکومت ہے لیکن اس کے پاس سب سے بڑا صوبہ نہیں ہے۔ مرکز میں اپوزیشن پی ٹی آئی کے پاس 22 میں سے 16 کروڑ پاکستانیوں کا اختیار اقتدار ہے۔ کیا یہ چاروں حکومتیں لانگ مارچ میں اپنا سب کچھ صَرف کردیں گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی جگہ ملک میں عام انتخابات کے اعلان کو ہی اس عمودی، افقی، سماجی،اخلاقی اورآئینی بحران سے نجات کا راستہ سمجھتے ہیں۔ بالآخر ہونا یہی ہے تو یہ مذاکرات کے ذریعے کیوں نہیں ہوسکتا؟ اس کے لیے پی ٹی آئی کی طرف سے افرادی قوت، مالی طاقت استعمال کرنے کی ضرورت کیوں ہو اور اسلام آباد کی حکومت فوج کو کیوں طلب کرے؟ سندھ سے پولیس کیوں منگوائے، کنٹینروں کے مینار کیوں کھڑے کرے؟ خندقیں کیوں کھودے؟ دل دھڑک رہے ہیں۔ ذہن سائیں سائیں کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم مملکت کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
جھاگ ہونٹوں پہ جبیں سرخ دہکتی آنکھیں
اب تدبر ہے نہ ادراک خدا خیر کرے
بشکریہ روزنامہ جنگ