علامہ اقبالؒ نے جس قوم کو
آہ! یہ قوم نجیب و چرب دست وتر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیرگیر
قرار دیا تھا اس قوم کو” تپسی تے ٹھُس کرسی “کہہ کر بزدلی کے طعنے دیئے جاتے رہے۔80ءکی دھائی کے آخری سال میںکشمیریوں نے ایسا جہاد شروع کیا جس نے کشمیر میں تعینات 7لاکھ سے زائد درندہ صفت فوجیوں کو ناکوں چنے چبھوائے۔90ءکے آغاز پر ہزاروں نوجوان آزادی کے بیس کیمپ میں تربیت کےلئے چلے آرہے تھے۔آزاد کشمیرحکومت کے پاس وسائل تھے نہ انکی ترجیح کہ وہ مقبوضہ وادی سے آنے والوں کی خبر گیری کرتی۔وہ جس کے سینے میں درماندہ مسلمان،چاہے وہ جہاںبھی بستا ہو،کا درد ہمیشہ محسوس ہوتا تھا اس معاملے پر بھی چین سے نہ بیٹھ سکا۔خدا غریق رحمت کرے قاضی حسین احمد کو جنہوںنے5جنوری1990کو بھرپور پریس کانفرنس میں 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا۔مرکزی و صوبائی حکومتیں جو منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھی تھیں ،بھی قاضی صاحب کی پکارپر خاموش نہ رہ سکیں۔پنجاب کے وزیراعلیٰ نوازشریف اور بعدازاں وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کر دیا۔یہ سلسلہ کشمیر و پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پھیل گیا۔قوم نے کشمیریوںکےلئے دیدہ و دل ہی فرش راہ نہ کیے اپنے مال واسباب بھی وار دئیے۔
مکار ہندﺅنیتا جو کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتے نہ تھکتے تھے کشمیری نوجوانوں کے بہتے گرم خون کے آگے بے بس ہو کر مذکرات کی بات کرنے لگے۔برا ہو9/11کا جس نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔پاکستان کا کوئی سویلین اس ڈھٹائی کا مظاہرہ نہ کرتا جیسا فوجی حکمران پرویز مشرف نے کیا۔افغانستان کے مسلمانوں کےخلاف معاون اجرتی قاتل کا کردار ادا کرتے وقت مشرف نے قوم کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اس کا آقا امریکہ قضیہ کشمیر کے حل میں مدد کرے گا۔چھٹے بحری بیڑے کی طرح یہ وعدہ بھی وعدہ ہی رہا۔اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کےلئے مشرف کا لڑھکن کا سفر رک نہ پایا۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کی جگہ 4نکاتی فارمولے پیش کر کے تحریک آزادی کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔
بظاہر یہ تحریک دم توڑچکی تھی مگر پیرانہ سالی کے باوجود جناب سید علی شاہ گیلانی اور جناب یاسین ملک لاٹھی گولی کی پرواہ کیے بغیر قوم کی رہنمائی کرتے رہے۔جناب گیلانی کا اﷲ کے فرمان پر پختہ یقین ہے کہ”اے ایمان والو!اگر تم اﷲ کی مدد کرو گے وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمائے رکھے گا اور جو منکر ہیں سو ان کےلئے تباہی ہے اور وہ ان کے اعمال اکارت کر دے گا“۔(سورہ محمد)
جس نے انکار و بزدلی کی راہ اختیار کی اس پر اپنی زمین ہی تنگ کر دی گئی اور جو ایمان وایقان کی راہ پر گامزن رہے وہ دنیا میں بھی سرخرو ہوئے اور عالمین کا رب انکو اگلے جہاں بھی سرخروئی بخشے گا۔غلیل اور پتھروں سے کشمیریوں نے ایسا جہاد جاری رکھا،جس پر عالمی برادری انگشت بدنداں ہے۔حزب المجاہدین کے برہان الدین وانی کی جدوجہد اور شہادت نے اس تحریک کو نئی جہت دی۔ہندوستانی سرکار اس پر سٹ پٹا گئی اور پیلٹ بندوقوں سے کشمیریوں کو نابینا بنانا شروع کر دیا۔ہندﺅبنئے کو کون بتائے کہ ان نوجوانوں کے فکری قائد ہمارے وزیر داخلہ احسن اقبال کے نانا نے اﷲ کی راہ میں جدوجہد کے متعلق کہا تھا کہ”اگر تیز سواری مل گئی تو فبھا!یہ نہ سہی تو چھکڑے مل جائیں گے انہی سے سفرہو گا۔یہ بھی نہیں تو دو پاﺅں موجود ہیں ان سے چلیں گے!پاﺅں بھی نہ رہے تو آنکھیں تو ہیں،ان سے نشان منزل دیکھیں گے!آنکھیں بھی بے نور ہوجائیں تو دل کی آنکھ تو ہے جسکی بصارت کو کوئی سلب نہیں کرسکتا بشرطیکہ ایمان موجود ہو”۔کشمیریوں کی بینائی چھینی گئی مگر وہ دل کی آنکھ سے نشان منزل کی جانب بڑھے چلے جارہے ہیں۔
سوال کشمیریوں کے وکیل پاکستان سے ہے اسے میٹھی نیند کس نے سلا دیا؟اس کی پارلیمان میں کتنی بار کشمیر سے متعلق بحث کی گئی؟ سیاسی حرکیات کے نباض کشمیر کمیٹی کے سربراہ جناب مولانا فضل الرحمن،ہم انکی کارکرگی پر کچھ کہیں گے تو برا مان جائیں گے۔ہم انہی پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود بتائیں کہ مقننہ کی سب سے اہم کمیٹی کی سالہاسال گزرجانے کے باوجود کیا کارکردگی رہی؟مسئلہ کشمیر پر دنیا کو موافق بنانے کےلئے انہوںنے کیا اقدامات کئے۔ اس بارے لام بندی کتنی بار مقننہ کے سامنے پیش کی گئی۔
قاضی صاحب نے جس5 فروری کو اس وقت کے نزاکت کے پیش نظر منانے کا اعلان کیا تھا 28برس بیت جانے کے باوجود بھی کیا ہم وہیں کھڑے رہیں۔کیا یہ سچ نہیںکے وقت گزرنے کیساتھ 5 فروری کو اب پہلے سا جوش خروش میسر نہیں رہا؟ لوگوں کی اکثریت اس روز گھروں سے باہر نہیں نکلتی اور تعطیل کے مزے بستر استراحت پر لیتی ہے۔
یہ بات جماعت اسلامی کی قیادت سے زیادہ حکومت کے سوچنے کی ہے کہ لمحہ موجود میں وہ ٹھوس اقدامات نہ صرف تجویز کرے بلکہ عملاًشروع کرے جن سے آزادکشمیر کی تحریک کو مہمیز مل سکے۔
پاکستان میں بدترین تخریب کاری میں ملوث جاسوس کلبھوشن کےلئے بھارت کس قدر چابکدستی سے فعال کردار ادا کر رہا ہے مگراستصواب رائے جس کےلئے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔اس خطے کے باسیوں کی مدد کی بجائے اسلام آباد کیوں چین کی نیند سورہا ہے۔ہم بین الاقوامی برادری کو کیوں باور نہ کراسکے کہ کشمیر دو ممالک کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ بین الاقوامی قضیہ ہے جو حل نہ ہوا تو دو پڑوسی نیوکلیائی ریاستوں میں تباہ کن جنگ ہو سکتی ہے۔پاکستان یا آزاد کشمیر حکومت اقوام متحدہ کے قوانین اورRome Statueکے مطابق بین الاقوامی جنگی عدالت میں کشمیریوں کی نسل کشی کا مقدمہ قائم کیوں نہیں کرتیں؟نابینا بنائے جانے کے ظالمانہ اقدام کو بین الاقوامی جنگی عدالت کے علاوہ حکومت پاکستان ہیگ میںقائم بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ آج بھی قائم کرسکتی ہے۔
آزاد کشمیر کی آزادی کے وقت حکومت کے قیام کے بنیادی مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ اس کی ترجیح اول تحریک آزادی کشمیر کےلئے جدوجہد ہو گی اور یہ خطہ آزادی کا بیس کیمپ ہوگا۔آزاد خطہ بیس کیمپ کی بجائے حکومتیں حاصل کرنے کا ریس کیمپ بن گیا کشمیر کی حکومت بھی پاکستان کی حکومتوں کا پرتوثابت ہوئی۔پاکستان کی حکومتوں کی بددیانتی کے سائے حکومت آزاد کشمیر پر بھی پڑے بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق وسائل کے مطابق پاکستان سے زیادہ بد دیانتی کے قصے آزادکشمیر میں زبان زدعام ہیں۔آزادکشمیر کے عبوری ایکٹ1974کے آرٹیکل10کے مطابق حکومت آزادکشمیر کورائے شماری کے مشیر کا تقرر کرنا تھاجس نے ریاست آزاد کشمیر کے صدر کورائے شماری سے متعلق اقدامات سے آگاہ کرناتھا۔ 4دہائیوں سے زائد عرصہ بیت گیا ایسا نہ ہو سکا۔موجودہ کشمیر حکومت جس کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہے۔عبوری ایکٹ کے آرٹیکل10میں ترمیم کر کے ایڈوائز رکی بجائے صدر آزاد کشمیرکا بنیادی کردارو فرائض ہی یہ درج کرے کہ وہ رائے شماری اور تحریک آزادی کشمیر کی خود نگرانی کریں گے۔اس سلسلے میں فوری ضروری قانون سازی کی جائے اور حکومت پاکستان بھی اس معاملے میں اہم کردار اداکرے۔
ہم اگر یہ چند بنیادی کام بھی نہ کر پائے تو28نہیں28صد ایام یکجہتی کشمیر بھی تحریک آزادی کشمیر کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔باہم دست و گریباں جماعتیں اور ادارے اقتدار اقتدار کھیلیں مگر لہو لہو کشمیریوں کو ایسے فراموش نہ کریں۔5 فروری سے قبل حکومت ٹھوس پالیسی کا اعلان کرے۔حکومت،سیاسی جماعتوں اور اصل اسٹیک ہولڈرز کو کشمیر پر غفلت ترک کرنا ہو گی بصورت دیگر تاریخ ہمیں معاف نہیں کریگی۔