امریکی صدرنے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا۔اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے القدس(یروشلم) منتقلی کے احکامات جاری کر دئیے۔ وسائل سے مالا مال55 سے زائدمسلم ممالک اور انکی فوجیں۔ پھر مسلم ملٹری الائنس سب کچھ مذاق سا محسوس ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے قبلہ اول ، القدس کو یہودیوں کے قبضے میں دینے کا اعلان اورہم صرف قراردادیں،بیانات دینے تک محدود،ایسے میں بے بسی سی بے بسی ہے۔
آقا نامدارﷺہمارے ماں باپ آپ پر قربان ، یاد آتے ہیں۔ اپنے پیارے صحابہ رضوان اﷲ تعالی اجمعین کے جھرمٹ میں موجود تھے۔ حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ” ایک وقت آئے گا کہ کافر قومیں تم پرایسے چڑھ دوڑیں گی جیسے بھوکے دستر خوان پر“۔ایک صحابی نے پوچھا کہ کیااس وقت ہم تعداد میں کم ہونگے۔؟ آپ نے کہا نہیں، تم کثرت میں ہوگے مگر تمہاری حیثیت پانی پر بہنے والی جھاگ کی مانند ہو گی۔ اﷲ تعالی تمہارا رعب دشمن کے دلوں سے نکال دے گااور وہن تمہارے دلوں میں پیدا کر دے گا۔ پوچھا گیا یا رسول اﷲوہن کیا ہے۔؟جواب دیا ”دنیا کی محبت اور موت سے نفرت“۔
ذہن کے پردہ پر قیصر روم کا دربار گھوم رہا ہے۔ہیروں و جواہرات سے جڑا تخت شاہی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے۔وزرا ءدیدہ زیب لباس زیب تن کئے موجود۔ ننگی تلواریں تھامے سپاہی چاک و چوبند کھڑے ہیں۔ جاہ وحشم کیساتھ قیصر تخت شاہی پر موجود ہے۔ اس کے سامنے سادگی مگر ایمان کی دولت سے مالا مال قیدی صحابی رسول ابوحذیفہ موجود ہیں۔قیصر نے بنظر غائر ابو حذیفہ کو دیکھا اور کہا تم اگر عیسائیت قبول کر لو تو عزت و تکریم سے تم کو آزاد کر دوں گا۔عزم و جرات کے پہاڑ ابوحذیفہ نے کہا کہ اس سے ہزار درجہ بہتر تو یہ ہے کہ میں موت کو قبول کرلوں۔
قیصر بولا تم مجھے بہادرآدمی لگتے ہو، میری تجویز قبول کر لو تو میں اپنی آدھی سلطنت تمہیں دینے پر تیار۔
بیڑیوں میں جکڑا قیدی مسکراتے ہوئے بولا تیری یہ سلطنت کیا شئے ہے ۔؟ تو مجھے سارے عرب کی حکمرانی بھی بخش دے تو مجھ سے یہ امید نہ رکھیو کہ میں دین محمد سے پھر جاﺅںگا۔
روم کا بادشاہ جواب سن کر جلال میں آگیا، بولا میں تمہیں قتل کر دوںگا۔حذیفہ بولے اپنا شوق پورا کر لیجئے۔قیصر نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے صلیب پر باندھ دو اور تیراندازوں کو حکم دیا کہ اسکے ہاتھ و پیروں کے قریب تیر چلائیں ۔ شاید خوف کے مارے عیسائیت قبول کرلے۔قیصر نے تیسری دفعہ عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی مگر ابو حذیفہ نے صاف انکار کر دیا۔
قیصر بھانپ گیا کہ یہ تو کسی صورت ماننے والا نہیں تو اس نے حکم دیا کہ دو مسلمان قیدی بہت بڑے کھولتے ہوئے تیل کے کڑھاﺅمیں ڈال دئیے جائیں۔ فرمان شاہی پر عمل درآمد کے نتیجے میں دونوں قیدی کوئلہ بن گئے۔قیصر نے ابو حذیفہ کو کہا کہ اب بھی وقت ہے، عیسائیت قبول کر لوورنہ تمہیںبھی کوئلہ بنادیاجائےگا ۔
جناب رسول پاک کے تربیت یافتہ صحابی جن کا پختہ یقین ہے کہ” آسمانوں و زمین کی بادشاہت اﷲکی ہے، وہ موت وحیات دیتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔“(القران)
حذیفہ نے پہلے سے بھی زیادہ سختی کےساتھ اسکی عیسائیت کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
قیصر روم حد درجہ مایوس ہواتو حذیفہ کو بھی کھولتے ہوئے تیل میں پھینکنے کا حکم دیا۔
ابوحذیفہ کو تیل کے پاس لے جایا گیاتو آپکی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے۔
قیصر کے حواریوں کو گمان ہوا کہ یہ تکلیف کا اندازہ کرکے گھبرا کے رو رہا ہے۔
قیصر نے کہاکہ اسے میرے قریب لایا جائے، اس نے ایک بار پھر آپ کو عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی۔ آپ ؓنے انکار کردیا تو قیصر نے تعجب سے دریافت کیا کہ پھر روتے کیوں ہو۔؟
ابوحذیفہ بولے میں تو یہ سوچ کے رو رہا ہوں کہ کاش میرے پاس ایک جان کی بجائے میرے جسم کے بالوں کے برابر جانیں ہوتیں اور میں سب کو اس کھولتے ہوئے تیل میں ڈال کر اﷲ کی راہ میں قربان کر دیتا۔
قیصرِ روم اس بہادری اور جرات پر بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ اگر تم میرے سر کا بوسہ لے لو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔
حذیفہ نے قیصر سے پوچھاکہ کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو بھی رہا کر دوگے؟
اس نے جواب دیا ہاں،میں تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر دوں گا۔حذیفہ رضی اﷲعنہ قیصرکے قریب آئے اور اس کے سر کا بوسہ لیا۔قیصر روم نے حذیفہ کو تمام مسلمان قیدیوں کے ساتھ رہا کر دیا۔
رہائی پانے کے بعد لشکر واپس مدینہ پہنچا اور سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا گیا توآپ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا” ہر مسلمان پر یہ ضروری ہے کہ وہ حذیفہ کے سر کا بوسہ لے اور میں اسکی ابتدا کرتا ہوں” پھر سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوئے اور انکے سر کا بوسہ لیا۔
یہ ہے جناب محمد رسول ﷺکے سچے شیدائی کی شان اور دوسری جانب سواارب سے زائد مسلمان ، ایک مسلمہ جوہری طاقت کا حامل ملک پاکستان دوسرا ایران کسی وقت اعلان کر سکتاہے۔
پاکستان، ایران، ترکی اور مصر کی بہترین افواج مگر فلسطین ، کشمیر ، افغانستان اور نہ جانے کہاں کہاں کے مسلمان کافروں کی غلامی پر مجبور ہیں۔وہن میں مبتلا مسلم حکمران و فوجی کمانڈوز جو امریکہ و مغربی ممالک کے حکمرانوں کے سامنے بکری بنے بیٹھے انکو اس کائنات کے رب کا فرمان نظر نہیں آتا جو کہہ رہا ہے کہ” آخر کیا وجہ ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لئے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدگار پیدا کر دے “ ۔( سورہ النسا)
دنیا والو مسلمان حکمرانوں کو رام کرلینے سے تم پر سکون زندگی گزار نہ پاﺅگے۔ مسلمان نوجوان دنیا کے ہر کونے میں بیدار ہو رہا ہے ،فلسطین میں حماس،کشمیر میں حزب المجاہدین تمہارے کسی بہکاوے میں آنے کی بجائے اپنی جدوجہد میںتیزی لانے کا اعلان کر رہی ہیں۔تم جہاد کو چاہے بدترین دہشت گردی گرادنتے رہو ۔ اب مسلمان نوجوانوںکی مزاحمت سے تم بچ نہ پاﺅگے۔یاد رکھو اگر تم نے دہرے معیار ترک نہ کئے تو ہمارے گھروں میں لگائی گئی آگ تمہارے نشیمن کو بھی بھسم کر کے رکھ دے گی ۔
سردی میں ٹھٹھرتے فلسطینی انتفاضہ جاری رکھے اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ
نہ روئیں گے نہ مسکائیں گے
صرف نغمے شہادت کے گائیں گے
اپنا بیت المقدس بچانے کو تو
میرے بچے ابابیل بن جائیں گے
میں فلسطین ہوں،میں فلسطین ہوں