شہباز گل یا ڈرائیور پر تشدد کی بات بالکل غلط ہے،رانا ثناء اللہ


اسلام آباد(صباح نیوز)وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ہم نے شہباز گل کو گرفتار کیا ہے،ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے اور 24گھنٹے کے اندر انہیں عدالت میں پیش کیا ہے، عمران خان بتائیں اس میں کون سی غیر جمہوری بات ہوئی ہے۔ شہبازگل نے ایک بیان دیا ہے اس کے اوپر ان کے اوپر مقدمہ درج ہوا ہے۔ شہباز گل یا ڈرائیور پر تشدد کی بات بالکل غلط ہے کوئی ایسا عمل نہ ہوا اور نہ انشاء اللہ ہو گا۔میڈیا بھی اور لوگ بھی دوبارہ شہباز گل کی گفتگو سن لیں اگر بیوروکریسی میں لانس نائیک،حوالدار، کرنل، بریگیڈیئر  ہوتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے یہ مقدمہ غلط ہے اوراس کااخراج ہوجانا چاہئے۔ اگر ثبوت ملے تو عمران خان کو بھی گرفتارکیا جائے گا۔کیس کے شواہد صفحہ مثل پر آئیں گے اور تمام لوگ جو میٹنگ میں موجود تھے ان کو نامزد کیا جائے گا اوراے آروائی چینل کے جو لوگ ملوث ہوں گے ان کو بھی نامزد کیا جائے گا۔عمران خان کس ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کسی جمہوریت میں ایسے ہوتا ہے کہ ، پہلے صفائی کا موقع دیا جاتا ہے اس کے بعد گرفتار کیا جاتا ہے، انہیں کوئی پوچھے کہ ہمیں یہ صفائی کا موقع دے کر گرفتارکرتے رہے ہیں، جب 15کلو ہیروئن مجھ پر ڈالی تھی ، جس کی سزاموت ہے توآپ نے مجھے صفائی کا موقع دے کر مجھے گرفتارکیا تھا، ہماری توضمانتیں بھی چھ، چھ، ماہ، ایک ، ایک سال، ڈیڑھ ، ڈیڑھ سال اور دو، دوسال کے بعد ہوتی رہی ہیں، اِن کی توضمانتیں بھی جلد ہورہی ہیں۔

ان خیالات کااظہار رانا ثناء اللہ خان نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔

رانا ثنا ء اللہ خان نے کہا کہ شہبازگل کا معاملہ کوئی زیادہ تفتیش والا نہیں کیونکہ انہوں ایک بیان اے آوائی پر دیا ہے اوراس بیان کے بعض حصے ایسے ہیں جن سے محسوس کیا گیا یا جن سے بادی لنظر میں ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ادارے کے رینکس کے نام لے کرکہ آپ کا ضمیر ہے، آپ غلام نہیں ہیں، جانور نہیں ہیں، آپ کو کوئی ایسے احکامات ملیں توآپ ان کو ماننے سے انکار کردیں،

یہ بیان ان کا واضح ہے اس سے وہ انحراف نہیں کرسکتے، کیا اس بیان کے پیچھے ان کی پارٹی پالیسی تھی اور پھر جس طرح سے وہ بیان آن ایئرکیا گیا نہ مداخلت کی گئی اور نہ روکا گیا، 14یا15منٹ ان کو دیئے گئے اس میں چینل بھی پورا ملوث تھا، یہ ایسی چیزیں ہیں جو آنے والے دو، تین روز میں واضح ہو جائیں گی۔ ابھی تک شہباز گل نے جو بیان دیا ہے اس میں اس نے کہا ہے کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا اور یہ مقصد نہیں تھا، پارٹی اس کو اون کرتی ہے یانہیں کرتی یہ چیزیں ایک آدھ دن میں واضح ہو جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ابتدائی انکوائری تحقیق ہے اس کے مطابق باقاعدہ ایک میٹنگ ہوئی اوراس میٹنگ میں اس بات پر بحث ہوئی کہ یہ جو سانحہ لسبیلہ ہے اس کے اوپر سوشل میڈیا پر معا ملہ ہوا ہے اس میں جس طرح ہمارے لوگ ملوث پائے گئے ہیں تواس کے خلاف ہمارے خلاف بڑی لے دے ہو رہی ہے، غیر ملکی فنڈنگ اکاؤنٹس میں ان کو تقریباً پکڑ لیا گیا ہے، یہ جو توشہ خانہ کیس ہے اس کے اوپر بڑی بات ہورہی ہے، کوئی ایسی بات کی جائے کہ یہ ساری چیزیں ایک سائیڈ پر ہو جائیں یا کم ازکم ہم ٹی وی سکرین کو کیپچر کریں، اس کے اوپر فیصلہ ہو اکہ اس طرح کا بیان دیا جائے اوراس کے اوپر فواد چوہدری اور شہباز گل کی ڈیوٹی لگی تھی۔ شہباز گل نے اس کے اوپر بات کی پھر فواد چوہدری نے بات تو نہیں کی، میرااپنا ذاتی خیال ہے کہ جب انہوں نے یہ سیاسی حکمت عملی بنائی توان سے غلطی ہو گئی اور انہوں نے اسے محسوس نہیں کیا کہ یہ الفاظ اوریہ بیان جس طرح سے انہوں نے دیا ہے تووہ اس معاملہ میں ان سے بہت بڑا تجاوز ہو گیا اور بہت بڑی غلطی ہوئی اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کو یہ کورکرسکیں گے۔ اجلاس عمران خان کی صدارت میں ہوا تھا اوراس میں باقی ان کے سینئر لوگ بھی موجود تھے۔ اے آروائی چینل کی انتظامیہ کو ساتھ ملایا گیا اور پھر وقت طے ہوا کہ سوال کس طرح کریں گے اور جواب کس طرح دیں گے، یہ ساری چیزیں طے شدہ پروگرام کے تحت ہوئی ہیں اور اس حوالے سے ہمارے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان کے ادارے کے خلاف اس حد تک چلے جانا کہ آپ یہ کہیں کہ بغاوت کردوتواس کے اوپر تو پھر ٹی وی چینل پر پابندی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جو قابل دست اندازی مقدمہ ہوتا ہے اس میں مقدمہ درج کرتے ہی پولیس کو گرفتارکرنے کا ازخود اختیار حاصل ہوتا ہے اورعدالت سے وارنٹ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی، جن دفعات کے تحت شہبازگل کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے یہ قابل دست اندازی پولیس ہیں ، اس میں پولیس کو گرفتاری کااختیارتھا جن لوگوں نے شہباز گل کو گرفتار کیا ان میں ہوسکتا ہے کہ سادہ کپڑوں میں بھی لوگ ہوں لیکن ان میں باوردی لوگ بھی شامل تھے۔