الیکشن کانظام نہیں انعقاد کا معاملہ متنازعہ ہے، شاہد خاقان عباسی


کراچی (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آج پاکستان میں الیکشن کانظام متنازعہ نہیں ہے بلکہ الیکشن کے انعقاد کا معاملہ متنازعہ ہے، یہاں الیکشن چوری ہوتے ہیں اور اصلاح تو یہ چاہیئے کہ اُس چوری کو کیسے روکا جائے اوراس کا واحد طریقہ ہے کہ آئین میں ترمیم کردیں اور لکھ دیں کہ جو بھی الیکشن چوری کرے گااس پر آرٹیکل چھ کا انعقاد ہو گا، پاکستان کے الیکشن کو صاف اور شفاف بنانے کا یہ واحد طریقہ ہے ۔گزشتہ روز ووٹوں کی گنتی میں بھی دھاندلی کی گئی یعنی جن ووٹوں سے ملک کے الیکشن کا نظام بدلا گیا اس ووٹ میں بھی دھاندلی کی گئی۔ اگر قومی اسمبلی میں 35سال سے لگی الیٹرانک ووٹنگ مشین کے زریعہ گزشتہ روز بھی 342ارکان کی ووٹنگ نہیں ہو سکتی تو پھر23کروڑ عوام کی ووٹیں ای وی ویم کا فرسودہ نظام کیسے کروائے گا، یہ سب الیکشن چوری کرنے کا منصوبہ ہے۔ سیاست میں فتح اور شکست نہیں ہوتی ، فتح اور شکست عوام کی ہوتی ہے ، عوام کو شکست دینے والے ہمیشہ خود تباہ ہوئے۔

ان خیالات کااظہار شاہد خاقان عباسی نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آپ جو مرضی قانون بنا لیں اگر وہ آئین سے متصادم ہوگا ، عوام کے حق میں نہیں ہو گااوراس کا عوام کی ضروریات سے تضاد ہو گاتووہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ گزشتہ روز جو قوانین بنے ہیں ان میں ایک تو کلبھوشن کو گھر بھیجنے کا پروگرام ہے ، حکومت اتنے آرڈیننس جاری کرتی ہے ایک آرڈیننس جاری کرکے اس کو گھر بھیج دیتی، یہ قانون بنانے کی کیا ضرورت تھی، اس کے اثرات کل ملک پر بہت گہرے پڑسکتے ہیں۔ دوسرا ایک قانون بنا جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو خودمختاری دینے کی بات ہے، خودمختاری اس قانون میں ہے وہ دنیا کے کسی ملک میں بھی اسٹیٹ بینک کے پاس نہیں ہے، امریکہ میں بھی نہیں ہے۔ اس قانون کے بعد وفاقی حکومت کیسے چلے گی وہ تووقت بتائے گا لیکن صاف نظر آتا ہے کہ اس قانون کے ہوتے ہوئے نہ وفاقی ادارے چل پائیں گے اور نہ وفاقی حکومت چل پائے گی۔ پھر یہ نام نہاد انتخابی اصلاحات کی بات ہوئی ہے ، وہ توا یک لمبا کھاتا ہے لیکن یہ صرف الیکشن کی چوری کو سہولت دینے کے قوانین ہیں اس کا الیکشن کے نظام کو بہتر بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ قوانین آئین سے متصادم ہیں ، یہ ایک آئینی ادارے کی ذمہ داری پر ، اس کے اختیار پر ڈاکہ ڈالنے کا طریقہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو حکومت کے تابع کردیا جائے جس طرح آرڈیننس بنا کر نیب کو حکومت کے تابع کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہی کوشش یہاں پر بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی خودمختاری کو ختم کرکے اس کو حکومت کے تابع کردیا جائے۔الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں جو دنیا میں ناکام ہو چکی ہیں، پاکستانی عوام کے سینکڑوں ارب روپے خرچ کر کے الیکشن کے نظام کو متنازع بنادیا جائے، آج پاکستان میں الیکشن کانظام متنازعہ نہیں ہے بلکہ الیکشن کے انعقاد کا معاملہ متنازعہ ہے، یہاں الیکشن چوری ہوتے ہیں اور اصلاح تو یہ چاہیئے کہ اُس چوری کو کیسے روکا جائے اوراس کا واحد طریقہ ہے کہ آئین میں ترمیم کردیں اور لکھ دیں کہ جو بھی الیکشن چوری کرے گااس پر آرٹیکل چھ کا انعقاد ہو گا، پاکستان کے الیکشن کو صاف اور شفاف بنانے کا یہ واحد طریقہ ہے، ورنہ وہی ہو گا جو الیکشن کمیشن کی ڈسکہ کے الیکشن کے حوالہ سے رپورٹ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس کا وزیر اعظم ، اس کے وزیر اس کا وزیر اعلیٰ اس کے وزیر ، حکومت کے اہلکار اور پولیس یہ سب مل کر ایک سازش کر کے الیکشن چوری کررہے ہیں۔ آپ ای وی ایم لگالیں یا دنیا کی جو مرضی چیز کرلیں ، چوری تو چوری ہو گی، ای وی ایم سے تو ثبوت بھی سارا مٹ جائے گا۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ عوام کے سامنے دوسری سرکس یہ ہے کہ ملک کے سابق چیف جسٹس پر الزام لگا ہے کہ وہ الیکشن کے معاملہ میں مداخلت کررہے تھے اور وہ ضمانت کے معاملہ میں ہائی کورٹ میں مداخلت کررہے تھے ، اس کا کوئی جواب کسی کے پاس ہے، کوئی کمیشن بنا ہے، کوئی سپریم جوڈیشل کونسل نے دیکھا ہے، کوئی ازخوداختیارات استعمال ہوئے ہیں، ہم ایک بلڈنگ گرانے پر ازخود نوٹس کے اختیارات استعمال کرسکتے ہیں لیکن جب ملک کا معاملہ آتا ہے، عوام کا معاملہ آتا ہے اور الیکشن کی چوری کا معاملہ آتا ہے ، جب انصاف کے نظام میں مداخلت کا معاملہ آتا ہے تو ہم ازخودنوٹس کے اختیارات بھول جاتے جاتے ہیں، یہ تاریخ کے سبق ہیں، تاریخ یہ سب معاملے نوٹ کرتی ہے، یہ معاملے ایک دن عوام کے سامنے آئیں گے لیکن آج انصاف کے نظام کا امتحان ہے، آج چیلنج ہے اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے لئے کہ عوام کااعتماد انصاف کے نظام پر بحال کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپشن عوام کے پاس ہوتا ہے میرا نہیں ہوتا، میں اقتدار میں حصہ نہیں مانگ رہا ، میں مفاد نہیں مانگ رہا ، میں ملک کی بات کررہا ہوں، آج عوام مہنگائی کی چکی میں نہیں پس رہے، آج ملک کے حالات کیا ہیں، آج ہمارے ملک میں فی کس آمدن1200ڈالر ہے اور بنگلادیش کی فی کس آمدن2600ڈالر ہے، یہ پاکستان کی فتح ہے یا شکست ہے، سیاست میں فتح اور شکست نہیں ہوتی ، فتح اور شکست عوام کی ہوتی ہے ، عوام کو شکست دینے والے ہمیشہ خود تباہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ کا سبق ہم بھول جاتے ہیں، جب قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایااس کے24سال بعد پاکستان کی اکثریت ایک الیکشن پر اس ملک کو چھوڑ کر چلی گئی ، آج اگر آپ الیکشن کے نظام جو متنازعہ ہے، جس کا عمل متنازعہ ہے، ہر الیکشن متنازعہ ہے ، ہر الیکشن چوری کیا گیا ، اُس نظام کو آپ اس نام نہاد اصلاحات کرکے مزید چوری کو سہولت دیں گے ، مزید الیکشن کو متنازعہ بنائیں گے تو کیااس سے پاکستان کا فائدہ ہو گا یا نقصان ہو گا، سوال تو یہ ہے۔