آج آپ کو ایک دلچسپ کہانی سناتے ہیں۔ تحریر میری نہیں مگر بہت پہلے اِس کی ڈرامائی تشکیل پاکستان ٹیلی وژن پر نشر ہو چکی ہے۔ بدقسمتی سے لکھاری کا نام یاد نہیں، مگر ڈرامہ اتنا پرانا ہے کہ مشہور اداکار، محمد قوی خان نے دورِ جوانی میں مرکزی کردار نبھایا تھا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ قوی خان دفتر میں عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھا سکتا ہے، مگر کسی لالچ یا ترغیب سے متاثر نہیں ہوتا۔ اِس راست باز کردار کے گھریلو حالات، معاشی تنگ دستی کے عکاس ہیں اور اِسی بنا پر بیگم، بھائی ، ماں باپ اور دوسرے رشتے دار شاکی رہتے ہیں۔
قوی خان کا نائب، نہایت چالاک اور کائیاں اہلکار ہے۔ وہ اسے ڈھب پر لانے کے لیے غرض مندوں سے ملاقات کروانے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔ یہ لازوال کردار، جمیل فخری مرحوم نے نہایت کامیابی سے ادا کیا۔ غیر قانونی فائدہ حاصل کرنے کے متلاشی، جمیل فخری کی معاونت سے قوی خان کو رام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جمیل فخری،اِس میل ملاپ کا جواز پیدا کرنے کیلئے ایک لفظ تعاون، تواتر سے استعمال کرتا ہے۔ وہ قوی خان کو بار بار سمجھاتا ہے کہ پارٹی آپ سے تعاون کرنے پر تیار ہے۔ مگر قوی خان، تعاون کے مضمرات اچھی طرح سمجھتا ہے اور قانون قاعدے کے متعین راستے کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
یہ اس وقت کا ڈرامہ ہے جب بیشتر گھرانوں میں ٹیلی وژن میسر نہیں تھا۔ ایک دن منصوبے کے تحت پارٹی کے ذریعے قوی خان کے گھر ٹیلی وژن بھجوایا جاتا ہے۔ قوی خان گھر واپسی پر دیکھتا ہے کہ سب لوگ ٹیلی وژن کے گرد گھیرا ڈالے، رنگین پروگراموں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس کے آنے پر گھر کے تمام مکین، تشکر بھری نظروں سے قوی خان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کچھ دیر میں قوی خان سمجھ جاتا ہے کہ اِس تحفے کا احسان تعاون کی متلاشی پارٹی کی دین ہے۔ وہ گھر والوں پر ناراض ہوتا ہے۔ واپس بھجوائے جانے پر، بچے ٹیلی وژن سے لپٹ کر روتے ہیں، مگر قوی خان کے ارادے میں تبدیلی نہیں آتی۔ راست بازی کا بے لچک رویہ، گھر کے ماحول میں مستقل تناؤ پیدا کرتا ہے تو آہستہ آہستہ قوی خان کے ارادوں کی مضبوطی ختم ہو جاتی ہے۔ ایک کمزور لمحے کے دوران، جمیل فخری اسے تحفہ لینے پر مائل کرلیتا ہے۔ ایک نذرانے کی قبولیت سے شروع ہونے والا سفر، چند ہفتوں میں قوی خان کو اخلاقی تنزلی کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ اور پھر ہر کیس میں جمیل فخری کے ذریعے پارٹیوں سے باہمی تعاون کا رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل سے، پہلے پہل رشتہ داروں کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ قوی خان سب کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے۔ پھر رشوت سے آنے والے فالتو روپے کو ٹھکانے لگانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ رشتہ داروں کے نام پر جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔ جمیل فخری کے ساتھ مشترکہ مفاد اور تعاون کا تانا بانا وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتا رہتا ہے۔ باہمی مفاد سے گندھے رشتے میں اس وقت دراڑ پیدا ہوتی ہے جب قوی خان، جمیل فخری کی شراکت کو فالتو سمجھنے لگتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ حالات پر کنٹرول حاصل ہونے پر، پارٹیوں سے معاملات براہِ راست طے ہو سکتے ہیں۔ اب اِس تکون میں، جمیل فخری کی ضرورت نہیں، اسے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ جمیل فخری کی علیحدگی کے کچھ عرصہ بعد قوی خان کی پریشانیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ ہیڈ آفس سے انکوائری کے احکامات موصول ہونے پر، قوی خان اِس مشکل سے چھٹکارے کے لیے، پرانے ساتھی جمیل فخری سے مشور ہ کرتا ہے۔ جمیل فخری کی تجویز ہے کہ انکوائری کرنے والوں سے معاملہ طے کیا جائے، مگر گرفتاری سے بچنے اور نوکری محفوظ کرنے پر ساری کمائی خرچ ہو جائے گی۔ قوی خان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ وہ تجویز قبول کرتے ہوئے، فردا فردا والدین اور بھائیوں سے جائیداد واپس کرنے کی درخواست کرتا ہے، مگرکوئی بھی حتی کہ بیگم بھی زیورات لوٹانے پر تیار نہیں۔ ہر طرف سے صاف انکار پر قوی خان بہت پریشان رہتا ہے۔ اسے مشکل سے نکلنے کا راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اِس ابتلا کے دور میں قوی خان کی سات آٹھ سالہ بیٹی، گھر کے دوسرے مکینوں کے غیر ہمدردانہ رویے سے بہت دل گرفتہ ہو جاتی ہے۔
ڈرامے کے آخری منظر میں جب قوی خان ہمت ہار کر، تاریک مستقبل کے تصور سے پریشان، ایک نیم اندھیرے کونے میں بیٹھا ہے تو اس کی بیٹی اپنے جیب خرچ سے بچائی ہوئی رقم کا ڈبہ باپ کے پاس لاتی ہے اور معصومانہ انداز میں پر خلوص پیشکش کرتی ہے کہ وہ اس کی پس انداز کی ہوئی رقم کو استعمال کر لے۔یہ کالم لکھ رہا تھا کہ ایک کرم فرما وارد ہوئے۔ تحریر پر نظر دوڑانے کے بعد، چھوٹتے ہی کہا کیا اب سیاسی کالم لکھنے شروع کر دیے ہیں؟ وضاحت کی کہ اِس سیدھی سادی کہانی میں کوئی سیاسی پہلو نہیں۔ انہوں نے بھی پی ٹی وی کا ڈراما دیکھ رکھا تھا۔ کہنے لگے قوی کی مشکلات شروع ہونے پر، جمیل فخری کا مکالمہ یاد ہے؟ میرے انکار پر فرمایا،جمیل فخری نے قوی خان سے کہا تھا ، سر جی! خود اعتمادی بری چیز ہے۔ آپ نے بیوقوفی سے اچھا بھلا، رواں دواں معاملہ بگاڑ دیا۔ بھول گئے کہ سسٹم کس نے بنایا تھا۔ خود ہی فیصلہ کیا اور ہمیں بائی پاس کرنے کی کوشش۔ بھلا اِس سے بڑی حماقت اور کیا ہو سکتی تھی۔ مجھے مکالموں کے الفاظ یاد نہ تھے۔ اختلاف کیے بغیر خاموش رہا۔ وہ پھر گویا ہوئے سر جی! مان لیں کہ یہ ہماری سیاسی حکایت ہے۔ بار بار دہرائی گئی اِس کہانی کو آپ سیاسی نہیں سمجھتے؟ عجیب بات ہے۔
میری آنکھوں میں غیر یقینی کیفیت دیکھ کر سمجھانے کے انداز میں بولے آپ کو جیسمین ویسٹ کا کہا یاد ہے؟ میں نے نفی میں سر ہلایا تو کہنے لگے اس نے 1957 کے دوران اپنی تصنیف میں لکھا تھا (فرضی افسانے ہی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں)۔ پھر کمال مہربانی سے کہا اگر آپ میری بات سے اتفاق نہیں کرتے، تو بھی ٹھیک ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اِس کہانی کا مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ معصوم بچے، باپ کی کوتاہیوں اور غلطیوں سے بے نیاز، اپنی جمع پونجی لٹانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ پھر مسکرائے اور کہا یہ بات بھی سیاسی کہانی کا آخری باب ہے
بشکریہ روزنامہ جنگ