یہ بات ہے لگ بھگ بائیس برس پہلے کی ہے۔میں بی بی سی اردو کے گردشی نامہ نگار کے طور پر پاکستان کے ایسے قصبات میں جا جا کر زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ریڈیو فیچرز بنا رہا تھا جن قصبات نے تب تک مقامی رپورٹر کے علاوہ بین الاقوامی تو کجا پاکستانی قومی میڈیا میں بھی خود کو نہیں دیکھا تھا۔
ایسا ہی ایک سفر میں نے عام انتخابات سے قبل ستمبر دو ہزار دو میں رائے عامہ اور مقامی زندگی سے متعلق فیچر سازی کے سلسلے میں پہلی بار ڈیرہ غازی خان سے ڈیرہ اسماعیل خان کے راستے پر کیا۔
ان دونوں شہروں کے درمیان تونسہ شریف بھی پڑتا تھا۔ تونسے کے تعلق سے حضرت شاہ سلیمان المعروف پیر پٹھان کا نام بھی سن رکھا تھا۔میں نے بغیر سوچے سمجھے ٹیکسی کا رخ انڈس ہائی وے سے شہر کی جانب مڑوا دیا۔خیال تھا کہ ایک آدھ گھنٹہ گزار کے آگے بڑھ جاؤں گا۔
نہیں جانتا تھا کہ یہ بے سوچا سمجھا سفر اگلے بائیس برس کے لیے مجھے جکڑ لے گا۔ایک چائے ہوٹل پر ٹیکسی رکوائی۔ چائے آئی، چائے پی گئی۔ ویٹر سے پوچھا کتنے پیسے ؟ ویٹر نے کہا ’’ پیسے تھی گئین ‘‘ ۔میں نے پوچھا کیسے بھائی ؟ کہنے لگا ’’او جیہڑے صیب چھوآراں دے نال بیٹھے ٹھاکے مریندے پئین۔ انہاں دا حکم اے کہ تساں مہمان ہو‘‘ (وہ صاحب جو لڑکوں کے ساتھ بیٹھے قہقہے لگا رہے ہیں ان کا حکم ہے کہ تم مہمان ہو)۔
میں نے مڑ کر دیکھا۔ایک مختصر سی داڑھی والا سانولا دبلا لمبا سا سفید پاپوش اور سفید شلوار قمیض والا ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے شخص بلند آہنگ میں چار پانچ نوجوانوں کو کوئی نکتہ سمجھانے میں لگا ہوا تھا۔اور نوجوان ’’جی آ جی آ ‘‘ کرتے جا رہے تھے۔
میں نے اپنا حلیہ دیکھا اور پھر تہہ تک پہنچ گیا۔ جینز ، شرٹ اور بیگ لٹکائے واحد جناور تھا جو شلوار قمیض کلچر کے درمیان بیٹھا دور سے پہچانا جا سکتا تھا کہ یہ اجنبی مسافر ہے۔
اتنی دیر میں اس سفید پوش نے آواز لگائی ’’صاحب کتھوں تشریف گھن آئے وے ؟‘‘ میں چائے کے لیے ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ انھوں نے اٹھ کر گرم جوش جپھی ڈالی ’’ خادم کوں محمود نظامی سٹیندے ہن۔جناب دا کیا تعارف ہے‘‘۔ میں نے اپنے بارے میں بتایا۔وہ شخص دوبارہ اپنا نکتہ مکمل کرنے میں مصروف ہو گیا۔پھر اس نے کہا کہ شام ہو چلی ہے۔ڈیرے تک کا راستہ آج کل ٹھیک نہیں۔آپ میرے ساتھ رہو۔وہ دن اور آج کا دن یہ شام ختم ہونے میں ہی نہیں آتی۔
محمود نظامی دانشوری ، فوک وزڈم اور سیاسی و سماجی سوجھ بوجھ کی کسی کتابی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ آپ اپنی آسانی کے لیے کہہ سکتے ہیں کہ وہ بائیں بازو کا تھا۔اوریجنل نیشنل عوامی پارٹی سے بھی کچھ عرصے وابستہ رہا۔مگر وہ شائد ایک فری تھنکر تھا جس نے زندگی کو گھول کر پی لیا تھا۔
وہ فری تھنکر جو کسی بھی ایسے نظریے کو دیوار پر مار سکتا تھا جس سے خلق دشمنی کی بو آتی ہو۔بھلے وہ نظریہ رائٹ کے لباس میں آئے یا لیفٹ کا بھیس بدل کر آئے یا پھر لبرل کی قبا پہن لے یا مذہبی دستار میں ہو۔
محمود نظامی کے مول تول کے اپنے پیمانے تھے۔ اس کے لیے زندگی مسلسل دھارے پر لکھی کھلی کتاب تھی۔لہٰذا اس نے اتنا کچھ پڑھنے اور دیکھنے کے باوجود اپنی یادداشتیں جلد بند نہیں کیں اور کبھی دقیق مضامین لکھنے کے بارے میں نہیں سوچا۔مگر جنوبی پنجاب سمیت طول و عرض کی دو تین نسلیں اس سے کچھ نہ کچھ لے کر اٹھیں۔
ویسے کچھ لکھنا ضروری بھی نہیں۔تونسہ کی شناخت حضرت شاہ سلیمان بھی تو صرف بات ہی کرتے تھے۔وتایو فقیر نے آخر کتنے پمفلٹ لکھے ؟ تونسہ ویسے بھی استاد ساز زمین ہے۔اس کے ہزاروں بیٹے بلوچستان سمیت ملک کے طول و عرض میں تعلیم دیتے آئے ہیں اور محمود نظامی بھی اسی روایت کا امین تھا۔
یوں بھی وہ قبیلہ اب ناپید ہوتا جا رہا ہے جو محض علمی پروٹین سے لبریز گفتگو ، کہانی کاری ، حکایات، لطائف اور بذلہ سنجی کے نصاب کے ذریعے نسل سازی کرتا تھا اور شعوری علم کو لاشعوری قیف لگا کر دل و دماغ پر انڈیلنے پر قادر تھا۔
محمود نظامی کو یہ ہنر آتا تھا کہ وہ کسی بھی تھڑے ، فٹ پاتھ ، چائے خانے یا ڈرائنگ روم کو ایک جیتی جاگتی درس گاہ میں بدل سکتا تھا۔پیدل چلنے کا شوقین تھا۔ گرمیوں میں زیادہ خوش رہتا تھا۔ہمیشہ اتنے پیسوں کا فکر مند پایا جن سے آج کا دن گذر جائے۔
جو اس کے رابطے تھے ( اور سیکڑوں تھے ) ان کو اپنے لیے استعمال کرنے کو حقیر سمجھتا تھا۔جتنی محنت اس نے خود کو ایک عام آدمی کی اوقات میں رکھنے کے لیے کی اس سے آدھی میں وہ دنیا بھی کما سکتا تھا۔مگر اکثر کہتا کہ خوشی اور اطمینان اندر ہوتا ہے،جو اسے باہر تلاشتے ہیں وہ بس تلاشتے رہ جاتے ہیں۔
نظامی کا مادی چالاکیوں اور سودے بازی کے فن سے کیا تعلق تھا ؟ ایک قصہ سن لیں۔
دو ہزار دس کے سیلاب کی کوریج کے دوران میں نے انھیں تونسہ سے ساتھ لیا اور نکل کھڑے ہوئے۔ اس زمانے میں امدادی تنظیموں نے کرائے پر چلنے والی تمام فور وہیلر گاڑیاں اٹھا لیں۔نظامی صاحب کے ایک دوست کے توسط سے بہت مشکل سے ملتان میں ایک رینٹ اے کار والے نے آخری فور وہیلر کرائے پر دینے کی حامی بھر لی اور کہا کرایہ چار ہزار روپے اور پٹرول آپ کا۔میں نے فوراً حامی بھرلی۔نظامی صاحب کا پارہ چڑھ گیا۔انھوں نے رینٹ اے کار منیجر پر چڑھائی کر دی۔ تم لوگ بلیک میلر ہو۔یہ گاڑی تو ضیا کے زمانے میں آٹھ سو روپے دھاڑی پر ملتی تھی۔تم زیادہ سے زیادہ دو ہزار لے لو۔مگر چار ہزار تو نری بدمعاشی ہے۔
اتنی دیر میں کوئی صاحب آئے اور یہ گاڑی پانچ ہزار روپے کرائے پر لے گئے۔میں نے نظامی صاحب سے کہا کہ آپ کو بیچ میں کودنے کی کیا ضرورت تھی ؟ کہنے لگے تم لوگوں کا یہی مسئلہ ہے۔سامنے والا کچھ بھی کہے تم لوگ ہتھیار ڈال دیتے ہو۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے مینجر کو تین چار مزید گالیاں دان کیں اور ہم دونوں پیدل آگے بڑھ گئے۔بعد میں ایک این جی او کے مہربان نے ہم دونوں کو دعوت دی کہ متاثرہ علاقے میں ان کے ساتھ چلیں۔نظامی صاحب کچھ نہیں بولے اور اپنی فطرت کے برعکس راستے بھر خاموش رہے۔پھر رات کو کہنے لگے ’’ توں ٹھیک ہئیں۔میکوں دنیا داری دی تمیز کے نئیں ۔‘‘
ایک دن خبر ملی کہ نظامی صاحب نے شادی کر لی۔تب ان کی عمر لگ بھگ پچاس برس تھی۔میں نے اگلی ملاقات میں پوچھا کہ آپ کا جو لائف اسٹائل ہے اس میں یہ بندھن کیسے نبھے گا ؟کہنے لگے ’’ میں وی ایہا سوچیندا پئیاں۔ماں پئیو دی ضد ہئی۔میری عمر تاں پھل پتی بناون دی ہے۔ماں پئیو نے ایں عمر وچ میکوں آرا چھکوا چھوڑے۔بس ہن کیاں آکھوں۔‘‘( میری عمر تو اب پھول پتی بنانے والی ہے۔والدین نے اس عمر میں مجھے آرا کھینچنے کو دے دیا۔اب انھیں کیا کہوں )۔
البتہ ان کے دو بچے اس وقت اچھی درس گاہوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔میرے پاس نظامی کا موبائل نمبر محفوظ ہے۔مگر اب اس سے کبھی آواز نہیں آئے گی ’’کتھاں او۔چکر لاؤ۔زندگی بیزار کریندی پئی اے ۔‘‘
یہی سب کچھ تھا جس دم وہ یہاں تھا
چلے جانے پے اس کے جانے کیا نئیں
(جون ایلیا)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس