آج سویرے سویرے انٹرنیٹ پر ایک پیغام آیا۔ جو ں کا توں نقل کر رہا ہوں۔Mojh ko rashn le do pleej 5 din Sy hum bokhe hai. Koi kam nahi bahut majbor hain۔ایک ان پڑھ ماں نے ذرا پڑھی ہوئی بچی کو املا بول کر اپنا پیغام لکھوایا ہے:’’مجھ کو راشن لے دو پلیج(پلیز)پانچ دن سے ہم بھوکے ہیں۔کوئی کام نہیں ہے۔ بہت مجبور ہیں‘‘۔دن ڈھلنے سے پہلے فاقہ زدہ کنبے کو راشن اور کچھ نقدی بھجوادی گئی۔ یہ قصہ مگرایک گھر کا نہیں۔ اور فوراً ہی امداد پہنچانا اس مسئلے کا حل نہیں۔یہ پچھلی حکومتوں کا نازل کیا ہوا عذاب نہیں، یہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ نہیں۔ یہ کورونا کی قیامت خیز وبا کی لعنت نہیں۔ یہ ڈالر کی گرتی چڑھتی قدر کا جھگڑا نہیں۔ یہ بے روزگاری کا شاخسانہ نہیں۔ یہ قوتِ خرید کے وقت کے گڑھے میں دھنس جانے کی سنگین صورت حال بھی نہیں۔ یہ احمقانہ تاویل اور الٹے سیدھے پیش کئے جانے والے دلائل کا بھی نتیجہ نہیں۔ تو پھر کیا ہے؟ آپ کہیں گے کہ مسائل ہیں۔ تو جہاں مسائل ہوتے ہیں وہاں ان کا حل بھی تو ہوتا ہے۔ یہ کوئی اعلیٰ فلسفہ نہیں، دنیا کا چلن ہے کہ جہاں مسئلے سر اٹھاتے ہیں وہاں سر جوڑ کر بیٹھنے والے اعلیٰ دماغ بھی ہوتے ہیں۔تاریخ میں زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں، صبح شام کا معمول ہے، ادھر مسئلے نے سر اٹھایا، ادھر اس کا حل نکال لیا گیا۔پھر یہ کیا ہے کہ گھرانے چار دن سے بھوکے بیٹھے ہیں اور فضا پر ایسی تاریکی مسلط ہے کہ روشنی کی ذرا سی کرن بھی نہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ یہ کچھ اور ہے۔یہ قدرت یا معاشیات کے علم سے نمودارہونے والی صورت حال نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کچھ اور کار فرما ہے۔ یہاں نہ طلب کا قصہ ہے نہ رسد کا۔ یہاں نہ افراط زر کا رونا ہے نہ محنت کا۔ یہاں معاملہ کسی کے ہاتھ میں ہے اور اس ہاتھ پر کسی کا بس نہیں چل رہا۔ حکام اور ان کے گماشتے جو بھانت بھانت کی دلیلیں دے رہے ہیں اور جو تاویلات پیش کر رہے ہیں وہ شروع شروع میں تو معقول لگیں۔ لیکن جب حالات بد سے بدتر ہونے لگے تو صاف نظر آنے لگا کہ یہاں کوئی ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟ یہ بھید چھپا نہیں رہے گا۔
ہم یہ سارا منظر دیکھ رہے ہیں مگر ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے قحط نہیں دیکھے اس لئے یہ قیاس کرنے میں مشکل ہورہی ہے کہ یہ بھی قحط کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ بنگال کے قحط میں تو یہ تھا کہ نصیب نہیں تھا۔ راہ چلتے لوگ چلتے چلتے گرے اور مر گئے کیوںکہ ان کے پاس کھانے کو نہیں تھا۔ اِس ہمارے قحط کی چھب نرالی ہے کہ کھانے کو ہے اور بہت ہے پھر بھی لوگ فاقے سے نڈھال ہوتے ہوتے دم توڑ رہے ہیں۔ کہتے ہیں گندم، کپاس اور گنے کی بمپر فصلیں ہوئی ہیں۔ ہوئی ہیں تو پھر کہا ں گئیں؟بازار سبزیوں اور پھلوں سے بھرے پڑے ہیں تو لوگوں کے چولہے کیوں ٹھنڈے پڑے ہیں۔ کہتے ہیں کاریں زیادہ فروخت ہورہی ہیں، پٹرول مہنگا ہونے کے باوجود زیادہ استعمال ہورہا ہے، سریا بہت بک رہا ہے، سمندر پار آباد لوگ بڑی بڑی رقمیں گھر بھیج رہے ہیں، تو پھر بچے اسکول سے کیوں اٹھا لئے گئے ہیں اور چاردن سے گھر میں کھانے کو کیوں نہیں ہے؟ اسی کو قحط کہتے ہیں مگر کیساقحط کہ شکر کے تاجر، کپاس کے بیوپاری، آٹے کے مل مالکان چوبیس گھنٹے دولت پیدا کر رہے ہیں اور دوسری طرف عوام ہیں کہ ان کی آہ و بکا اب سننے کی تاب نہیں رہی۔
میں پھر کہتا ہوں، یہ معاملہ کچھ اور ہے، کہیں کوئی اور چالیں چل رہا ہے اور ہم بے بس اور لاچار مُہرے حسرت و یاس کی تصویر بنے کبھی ایک گھر میں اور کبھی دوسرے گھر میں جارہے ہیں کہ کہیں تو وعدے پورے ہوں گے۔کبھی تو تقدیر پہلو بدلے گی اور کوئی تو دو وقت کی روٹی کی نوید لے کر آئے گا۔
میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ نئے نظام سے پرانا نظام اچھا تھا۔ہاں پرانے نظام کی ایک بڑی خوبی تھی۔ جس نے زیادہ چوں چرا کی اس کو دودھ میں گری مکھی کی طرح نکال کر پھینکا بھی گیا۔بارہا حساب بےباق کیا گیا، کتنی ہی مرتبہ سرزنش بھی ہوئی۔ نا منظوریاں بھی ہوئیں، سڑکوں اور چوراہوں پر فیصلے ہوئے۔ گلی کوچوں میں بلند ہونے والے نعروں نے ثابت کیا کہ زندہ باد کا حق دار کون ہے اور مردہ باد کا سزا وار کون ؟
اب یہ کیسا زمانہ ہے، اب کیا ہوا وہ ہوا میں مکے لہراتے ہوئے لوگوں کو، کہاں گئے وہ گلا پھاڑنے والے جوشیلے لوگ۔ وہ جن کی ہاتھوں میں قوموں کے مقدر ہوا کرتے تھے، کس خواب خرگوش میں محو ہیں،یہ کیسا سنّاٹا ہے کہ ہر ایک بول بھی رہا ہے لیکن ہر ایک کی بات ہوا میں تحلیل ہوکر ضائع بھی ہورہی ہے۔ لوگوں نے خاموشی کی چادر کیوں اوڑھ لی، چپ کا روزہ کیوں رکھ لیا،کانوں میں روئی کیوں ٹھونس لی۔کوئی سبب تو ہوگا جو پرانے منظروں نے خود کو دہرانا چھوڑ دیا۔تاریخ کا کارواں چلتے چلتے کیوں ہانپنے لگا۔ وہ جوش کیا ہوا، ان ولولوں کو کس کی نظر کھا گئی۔ہاتھ پاؤں شل ہوگئے ہیں کیا؟
اور ایک آخری بات۔فاقہ کش،لاغر اور نحیف عوام کب تک سر نیوڑھائے انجام کا انتظار کریں گے۔پردہ کب گرے گا؟
بشکریہ:روزنامہ جنگ