موجودہ سیاسی،آئینی بحرانوں کے خاتمہ کیلئے واضح روڈمیپ بنایا جائے،لیاقت بلوچ کا چیف جسٹس کے نام خط


اسلام آباد (صباح نیوز) جماعت اسلامی کے نائب امیر اور قائمہ کمیٹی برائے سیاسی و قومی امور کے سربراہ لیاقت بلوچ نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ سیاسی، آئینی بحرانوں کے خاتمہ اور علاج کے لئے واضح روڈمیپ بنایا جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں لیاقت بلوچ نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی وزیراعظم، وزارت قانون اور صدر پاکستان کی بدنیتی پر مبنی سوچے سمجھے غیرآئینی، غیرجمہوری اقدامات کالعدم قرار دیئے جائیں اور عدم اعتماد کی تحریک کا عمل آئینی تقاضوں کے مطابق مکمل ہونے دیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان شخصی اقتدار کی خاطر انتہائی متنازعہ اقدامات کی وجہ سے ملک و قوم کے لئے ناقابل قبول ہو چکے ہیں۔ اسی طرح پورے ملک میں آئین کے آرٹیکلز 184,69,6,5 بھی زیربحث ہیں۔ نیز موجودہ صورتحال میں عدم اعتماد تحریک کی کامیابی کے بعد بننے والی حکومت بھی بھان متی کا کنبہ ہو گی۔ ہر دو صورتوں میں نظام مملکت سہولت سے نہیں چل پائیں گے۔ اس لئے قبل ازوقت عام انتخابات ناگزیر ہیں۔ اس مقصد کے لئے سپریم کورٹ عدم اعتماد تحریک کے آئینی عمل کی تکمیل کے بعد 90 دن میں عام انتخابات کے لئے قومی اسمبلی میں نمائندہ تمام جماعتوں سے انتخابی معاملات، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل کرنے کی یقین دہانی لی جائے۔

لیاقت بلوچ نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے آئینی اختیارات کے ساتھ اس روڈمیپ پر عملدرآمد کرائے۔ یہی راستہ بااعتماد عام انتخابات کا ذریعہ بنے گا۔ انشاء اللہ لیاقت بلوچ نے لکھا ہے کہ سیاسی جمہوری بحرانوں کا علاج نئے انتخابات ہی ہیں لیکن متنازعہ انتخابی نتائج کی بنیاد پر قائم حکومت کی ناکامی اور نااہلی کے بعد عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنے والی حکومت کے خاتمہ کا آئینی اور جمہوری طریقہ کار عدم اعتماد کی تحریک ہے۔ اب اگر عام انتخابات کے لئے قومی اسمبلی توڑنے، عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کا غیرآئینی اقدام برقرار رہتا ہے تو نئے انتخابات بھی تنازعات، قانونی موشگافیوں، غیرآئینی اقدامات کے خلاف سوالات اور سیاسی احتجاجی بحرانوں کا شکار رہیں گے۔ اس لئے نئے انتخابات کے لئے واضح، شفاف، آئینی طریقہ کار اختیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تمام غیرآئینی، غیرجمہوری، بدنیتی پر مبنی شخصی اقدامات کالعدم ہو جائیں اور نئے عام انتخابات کے لئے مضبوط بنیاد فراہم کی جائے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہی آئین کی تشریح کا آئینی اختیار رکھتی ہے۔ یقینا یہ تشریح آئین کی روح کے مطابق ہو گی۔ اس وقت حکومت، پارلیمنٹ، تمام سیاسی، جمہوری ادارے مفلوج اور شدید بد اعتمادی کا شکار ہیں۔ حالات کو سنبھالنے اور آئینی ٹریک پر دوبارہ لانے کے لئے سب سے بڑی ذمہ داری اب سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے کوئی بھی بے احتیاطی ملک کے لئے بڑے نقصانات کا باعث بنے گی۔ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد تحریک کے حوالے سے آئین اور قومی اسمبلی کا ضابطہ کار بالکل واضح ہے لیکن حکومت نے آئینی اختیارات سے تجاوز کیا اور غیرجمہوری تاخیری حربے استعمال کئے جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حکومت کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ اکثریت کھو چکی ہے۔ اس لئے بیرونی سازش کا مقدمہ تراشا گیا۔

لیاقت بلوچ نے لکھ میں لکھا کہ قومی اسمبلی میں اکثریت کے ساتھ عدم اعتماد تحریک ناکام بنانے کی بجائے عوامی جلسوں کا راستہ اختیار کیا گیا جو عملاً انتخابی مہم کے آغاز کی طرف اشارہ تھا۔ عوامی جلسوں میں مخالفین کے خلاف بدتہذیبی پر مبنی جو زبان استعمال کی گئی وہ جمہوریت کا سیاہ باب ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس عدم اعتماد تحریک پر ووٹنگ کے لئے بلایا گیا لیکن بدنیتی اور غیرآئینی اقدامات کا تانا بانا تیار کیا گیا جس کی ترتیب اب واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ منحرف ارکان اسمبلی کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر ہوا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس من پسند تاریخ پر طے کیا گیا۔ ڈپٹی سپیکر کو عدم اعتماد تحریک مستدر کرنے اور اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کا غیرآئینی ٹاسک دیا گیا اور اسی تسلسل کی آخری کڑی کے طور پر عدم اعتماد تحریک مسترد ہوتے ہی وزیراعظم کے اختیار کی بحالی کے ساتھ قومی اسمبلی توڑ دی گئی۔

نائب امیر جماعت اسلامی کا خط میں کہنا تھا کہ یہ سارا عمل اور اس پورے منصوبے کی تمام کڑیاں غیرآئینی اور بدنیتی پر مبنی ہیں جن کے ذریعے حکومت کے خلاف عدم اعتماد تحریک کا آئینی حق شخصی آمرانہ روش کی بنیاد پر چھین لیا گیا ہے۔ غیرآئینی طریقہ کار اختیار کر کے عملاً سول آمریت مسلط کر دی گئی ہے۔ اب ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کا فارمولا تسلیم کر لیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بنیادی جمہوری آئینی حق سے عوام کو محروم کر دینے کے راستے فراخ ہوں گے۔ اس غیرآئینی اور غیرجمہوری عمل نے ایک ایسی بھیانک صورتحال پیدا کر دی ہے کہ سیاست جمہوریت پارلیمنٹ کے معاملات میں ریاستی اداروں کے نیوٹرل کردار کی بجائے انہیں ازسرنو ہر طرح کی مداخلت کی دعوت دے دی گئی ہے۔ وزیراعظم کے اس غیرآئینی اور بدنیتی پر مبنی اقدام کی توثیق نہیں ہونی چاہئے۔