اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے موجودہ ملکی صورتحال پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ریاستی ادارے کوئی غیر قانونی اقدام نہ اٹھائیں۔ اتوار کی شام کوسپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے موجودہ ملکی صورتحال پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی میں جو ہوا اس پر ججز نے نوٹس لینے کا فیصلہ لیا، امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہونی چاہیے، تمام سیاسی جماعتیں امن و امان یقینی بنائیں۔انہوں نے کہا کہ پبلک آرڈر کو برقرار رکھا جائے، تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتی ادارے اس صورتحال کا فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رمضان شریف ہے، سماعت کو لٹکانا نہیں چاہتے، پاکستان پیپلز پارٹی کی درخواست مقرر کی جائے اور از خود نوٹس میں تمام جماعتوں کو نوٹس جاری کیا جائے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ ہم اسمبلی کی کارروائی کی مداخلت نہ کرنے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 69 کے بارے میں بہت محتاط ہیں اور اسمبلی میں آج جو کارروائی ہوئی اس کے بارے میں ہم کل کی سماعت میں غور کریں گے۔عدالت نے سوال اٹھایا کہ جب بیرونی سازش کے حوالے سے نہ کوئی سماعت ہوئی نہ کوئی نتیجہ سامنے آیا، تو سپیکر عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل پانچ کا سہارا کیسے لے سکتا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سیاسی صورتحال ازخود نوٹس کیس پر سماعت سوموار تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان سمیت وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو نوٹسز جاری کرنے کے احکامات صادر کیے ہیں۔اس کیس کی مختصر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں پرامن رہیں اور کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں اتوار کو جو کچھ ہوا اس پر نوٹس لینے کا فیصلہ کیا۔
عدالت نے متعلقہ حکام کو امن و امان قائم رکھنے کی ہدایت کی تاکہ کوئی بھی اس صورتحال سے فائدہ نہ اٹھائے چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہوں یا ادارے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر یا وزیر اعظم کوئی بھی فیصلہ صادر کرتے ہیں تو وہ سپریم کورٹ کے حکم سے مشروط ہو گا۔ عدالت نے سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنائیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ توقع نہیں ہے کہ اراکین اسمبلی پوری رات ایوان میں رہیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین اسمبلی کا احتجاج ریکارڈ ہو چکا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دونوں ایوانوں کے تقدس کا خیال رکھا جائے۔سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس میں صدر مملکت کو بھی فریق بنانے کا حکم دیا ہے۔۔کیس کی مزید سماعت پیر کے روز تک ملتوی کردی گئی۔قبل ازیں سپریم کورٹ نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کا نوٹس لیا تھا، ترجمان سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ عدالت عظمی نے ملک کی موجودہ صورتحال کا نوٹس لے لیا ہے۔واضح رہے کہ کچھ دیر قبل ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو آئین و قانون کے منافی قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔
فواد چوہدری کے اعتراض کے فوری بعد ہی ڈپٹی اسپیکر نے اراکین قومی اسمبلی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کے خلاف اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد 8 مارچ 2022 کو پیش کی تھی، عدم اعتماد کی تحریک کا آئین، قانون اور رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی غیر ملکی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ سازش کے تحت پاکستان کی منتخب حکومت کو گرائے، وزیر قانون نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ درست ہیں لہذا میں رولنگ دیتا ہوں کہ عدم اعتماد کی قرارداد آئین، قومی خود مختاری اور آزادی کے منافی ہے اور رولز اور ضابطے کے خلاف میں یہ قرارداد مسترد کرنے کی رولنگ دیتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 54 کی شق 3 کے تحت تفویض کردہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جمعہ 25 مارچ 2022 کو طلب کردہ اجلاس کو برخاست کرتا ہوں۔اس رولنگ کے کچھ دیر بعد ہی وزیر اعظم عمران خان نے صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھیجی تھی۔بعد ازاں صدر مملکت عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور دے دی۔متحدہ اپوزیشن نے اس پیش رفت کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد مسترد کیے جانے پر سپریم کورٹ سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔