پاکستان میں طالبانائزیشن کا آغاز مولوی نیک محمد اور ان کے ساتھیوں (مولوی نذیر، مولوی عباس اورجاوید کرمز خیل وغیرہ) نے کیا۔مولوی نیک محمد افغان طالبان کا حصہ رہے اور نائن الیون سے قبل کابل کے مغرب میں ایک علاقے(کارغہ) کے کمانڈر تھے۔
مولوی نذیر وغیرہ بھی افغان طالبان کے ساتھ رہے ۔ ان سب نے افغان طالبان کے امیرالمومنین ملا محمد عمر کی بیعت کر رکھی تھی۔ نائن الیون کے بعد انہوں نے اپنے علاقوں میں القاعدہ اور افغان طالبان کو پناہ دی جبکہ حکومت پاکستان ان پر زور دے رہی تھی کہ وہ ان لوگوں کو اپنے علاقوں سے نکالیں۔
دوسری طرف انہوں نے ریاست پاکستان کے خلاف ہتھیار اس بنیاد پر اٹھائے کہ پاکستان نے افغان طالبان کی حکومت گرانے کے لئے امریکہ کا ساتھ کیوں دیا؟ ان کی دیکھا دیکھی باجوڑ ایجنسی میں مولوی فقیر محمد، سوات میں مولانا فضل اللہ، مہمند ایجنسی میں عبدالولی عرف خالد خراسانی اور شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر وغیرہ متحرک ہوگئے۔
ان سب نے بھی اپنے ہاں القاعدہ اور افغان طالبان کو پناہ دے رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں جیشِ محمد، حرکت المجاہدین،حزب المجاہدین، لشکر طیبہ، البدر اور دیگر جہادی تنظیموں سے وہ لوگ ٹوٹ کر باغی ہوگئے جو القاعدہ اور طالبان کے حامی تھے۔ ان میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ شامل تھے لیکن انہیں پنجابی طالبان کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
2007 میں بیت اللہ محسود، جو خود افغان طالبان کا حصہ رہے تھے اور کسی زمانے میں ملا داداللہ کے دست راست تھے، نے القاعدہ اور افغان طالبان کے بعض رہنماؤں (استاد یاسر وغیرہ) کے تعاون سے ان سب کو جمع کیا اور تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک مشترکہ تنظیم بنائی جس کے بعد اس تنظیم نے خودکش دھماکوں اور دیگر کارروائیوں سے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا جس کے جواب میں پاکستانی فوج کو ان کے خلاف درجنوں آپریشن کرنے پڑے۔
افغان طالبان نے یہ حکمت عملی اپنا رکھی تھی کہ انہوں نے خود پاکستان میں کوئی کارروائی نہیں کی لیکن ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان کے اندر افغان طالبان کے شانہ بشانہ لڑتے رہے تاہم زیادہ تر توجہ انہوں نے پاکستان پر مرکوز رکھی۔
ٹی ٹی پی کے سینکڑوں فدائین نے افغانستان میں بھی حملے کئے جبکہ خوست میں سی آئی اے کے نصف درجن اہم اہلکاروں کو اڑانے کے لئے ابودجانہ نے جو فدائی کارروائی کی، اس کا منصوبہ بھی حکیم اللہ محسود نے بنایا تھا۔
افغان طالبان نے اس دوران پاکستان کے اندر پاکستانی طالبان کی جنگ کی کبھی علانیہ حمایت کی نہ کبھی مذمت کی۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ٹی ٹی پی کے لوگ افغان طالبان کے امیرالمومنین کو اپنا امیرالمومنین مانتے تھے۔ پاکستانی فوج کے ملٹری آپریشنز کے بعد ٹی ٹی پی کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔
مہمند ایجنسی کے عبدالولی عرف خالد خراسانی نے جماعت الاحرار کے نام سے الگ دھڑا بنا لیا تھا جبکہ پنجابی طالبان بھی الگ ہوگئے تھے لیکن گزشتہ سال جب افغانستان میں طالبان کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کا دوبارہ ادغام ہوگیا اور مفتی نور ولی محسود عرف ابو منصور عاصم کے ہاتھ پر سب نے بیعت کرلی اور اسی محفل میں انہوں نے ملا ہیبت اللہ کی بطور امیرالمومنین بیعت کی۔
اب ایک طرف یہ زمینی حقائق تھے لیکن دوسری طرف پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ پندرہ برس یہ بے بنیاد بیانیہ عام کیا کہ افغان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ دوسری طرف یہ توقع وابستہ کرلی گئی کہ جس دن افغانستان میں طالبان حکمران بنیں گے تو وہ راتوں رات وہاں سے ٹی ٹی پی کا صفایا کردیں گے لیکن معاملہ الٹ ہوگیا۔
ٹی ٹی پی کے ہزاروں لوگ جو افغان جیلوں میں بند تھے، رہا ہوگئے۔ تیسری طرف پاکستان سے ٹی ٹی پی کے کارکن یا پھر ہمدرد جو سلیپنگ سیلز کی صورت میں جگہ جگہ موجود تھے،افغانستان میں ٹی ٹی پی کے پاس جانے لگے۔
اسی طرح امریکی انخلا کے بعد افغان طالبان کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کو بھی بے تحاشہ مال غنیمت ہاتھ آگیااور ان کے وسائل بے تحاشہ بڑھ گئے۔ چنانچہ افغانستان میں طالبان کے فاتح بنتے ہی قبائلی اضلاع میں بھی ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں زور پکڑ گئیں۔ پشاور، مردان، دیر، باجوڑ، بنوں وغیرہ میں لوگوں کو خطوط آنے شروع ہوگئے۔
گزشتہ چھ سات سال میں ٹی ٹی پی کی قیادت امریکی ڈرون کے خوف سے کسی ایک موقع پر بھی جمع نہیں ہوسکی تھی لیکن گزشتہ دو تین ماہ کے دوران ان کی شوری کے متعدد اجلاس منعقد ہوئے۔ خودکش حملہ آوروں کی بڑی کھیپ کی تیاری کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں کارروائیوں کے لئے بھرپور تیاری بھی کررکھی ہے لیکن سردست انہیں افغان طالبان کی مداخلت پر معطل رکھا ہے۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد جب پاکستانی حکام نے ان کے ساتھ ٹی ٹی پی کے سلسلے میں بات کی تو جواب ملا کہ یہ لوگ بیس سال تک ہمارے میزبان رہے ہیں، انہوں نے ہماری جنگ میں ہمارے ساتھ قربانیاں دی ہیں اور ہمارے امیرالمومنین کو اپنا امیرالمومنین مانتے ہیں تو اب ہم کیسے ان کے خلاف کارروائی کریں؟
دوسرا عذر یہ پیش کیا گیا کہ ابھی تو ہم اپنی گرفت مضبوط کررہے ہیں جبکہ مسئلہ صرف ٹی ٹی پی کا نہیں بلکہ چین ای ٹی آئی ایم، عرب دنیا اور مغرب القاعدہ اور روس اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ادھر ہمارے لئے اصل خطرہ داعش ہے اور ہم اگر کسی کے خلاف طاقت استعمال کریں گے تو وہ داعش میں جاسکتے ہیں۔ افغان طالبان کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مفاہمت میں تعاون کریں اور ان کو روکیں کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کریں۔
میری معلومات کے مطابق افغان طالبان اور بالخصوص سراج الدین حقانی نے ٹی ٹی پی کو قابو کر رکھا ہے ورنہ خاکم بدہن ابھی تک وہ پاکستان کو ہلاچکے ہوتے۔
چنانچہ ان حالات میں پاکستان کے پاس دو آپشنز ہیں ایک یہ کہ وہ افغان طالبان کے اثرورسوخ کو استعمال کرکے ٹی ٹی پی کے قضیے کا مذاکرات کے ذریعے حل نکالے اور دوسرا آپشن یہ کہ افغان طالبان کے ساتھ بھی دشمنی مول لے لے۔ میں تو پہلے آپشن کا حامی ہوں کیونکہ دوسرا آپشن ہر حوالے سے پاکستان کے لئے خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ