پہلی کہانی للت میکن کی ہے یہ بھارتی صدر شنکر دیال شرما کا داماد تھاکانگریسی تھا اور 1984میں لوک سبھا کا ممبر بنا تھاوہ اندرا گاندھی کا دور تھا گولڈن ٹیمپل پرآپریشن ہوا اندرا گاندھی قتل ہوئی اور متشدد ہندوں نے 17 ہزار سکھ قتل کر دیے۔
اس قتل عام نے سکھ نوجوانوں کو باغی بنا دیا اور وہ چن چن کر بدلا لینے لگے باغی سکھ نوجوانوں میں رنجیت سنگھ عرف کوکی گل بھی شامل تھا کوکی گل پی ایچ ڈی پلان کر رہا تھا لیکن ایک سرکاری رپورٹ نے اس کا راستہ بدل دیا 1985 میں سکھ قتل عام پر ہو آر دی گلٹی کے نام سے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ آئی۔
اس میں 227 لوگوں کوان واقعات کا ذمے دار قرار دیا گیا للت میکن کا نام تیسرے نمبر پر تھا دہلی کے ہندوں نے للت کے اکسانے پر سکھوں کا قتل عام کیا تھا کوکی گل نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر 31 جولائی 1985 کو للت میکن پر حملہ کر دیا للت کی بیگم گیتانجلی اس کو بچانے کے لیے آئی اور وہ بھی فائرنگ کا شکار ہو گئی۔
للت کی صرف ایک بیٹی تھی اونتیکا میکن وہ چھ سال کی عمر میں یتیم ہو گئی اور اس نے محرومی اور نفرت میں پرورش پائی وہ نانا نانی کے ساتھ صدارتی محل میں رہتی تھی لیکن بچپن کی یادیں اور نفرت ہمیشہ اس کے ساتھ رہی للت میکن کے دو قاتلوں کو سزائے موت ہو گئی جب کہ کوکی سنگھ امریکا بھاگ گیا نیویارک میں گرفتار ہوا دس سال امریکی جیل میں رہا بھارت واپس بھجوایا گیا اور اسے عمر قید ہو گئی کوکی سنگھ بعدازاں 14 دن کے لیے پیرول پر رہا ہوا اپنی بہن کے ساتھ للت میکن کی بیٹی سے ملا اور اونتیکا کی نفرت ہمدردی میں تبدیل ہو گئی وہ اس کے گھر گئی اور اپنے والدین کے قاتل کو معاف کر دیا کوکی سنگھ رہا ہوا اور یہ دونوں خاندان اب بہت اچھے فیملی فرینڈز ہیں۔
دوسری کہانی کیرالہ کی نن رانی ماریا اور اس کے قاتل سمندر سنگھ کی ہے سمندر سنگھ ایک عام کسان تھا اس نے زمین داروں کے اکسانے پر عیسائی مبلغ رانی ماریا کو مسافر بس میں چاقو مار مار کر قتل کر دیا رانی ماریا کو 58 زخم آئے تھے یہ انتہائی بہیمانہ قتل تھا سمندر سنگھ گرفتار ہوا جیل گیا اور احساس گناہ کا شکار ہو گیا۔
رانی ماریا کی بہن اور بھائی اسے جیل میں ملے اور اسے نہ صرف معاف کر دیا بلکہ اسے اپنا بھائی بھی بنا لیا یہ دونوں خاندان اب ایک دوسرے کے انتہائی قریب ہیں سمندر سنگھ رانی ماریا کی بہن کے پاں چھوتا ہے اور وہ اسے راکھی باندھتی ہے اور تیسری کہانی امریکی خاتون کیا سیچر (Kia Scherr) کی ہے اس کا خاوند ایلن اور 13 سال کی بیٹی نومی 2008 کے ممبئی حملوں میں اوبرائے ہوٹل کے ریستوران میں قتل ہو گئے تھے۔
وہ دہشت گردوں سے بچنے کے لیے کھانے کی میز کے نیچے چھپے ہوئے تھے لیکن انھیں ڈھونڈ کر ان کے سروں میں گولی ماری گئییہ خاتون ممبئی اٹیکس کی برسی پر ہر سال بھارت آتی ہے اور اوبرائے ہوٹل میں اس جگہ بیٹھ جاتی ہے جہاں اس کے خاوند اور بیٹی کو قتل کیا گیا تھا لیکن اس دکھ اور درد کے باوجود یہ پہلی وکٹم تھی جس نے اجمل قصاب کو معاف کر دیا تھا اس سے جب اس معافی کی وجہ پوچھی گئی تو اس کا جواب تھا معاف کرنے سے انسان کا اپنا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے لواحقین کے لیے اپنوں کو کھونے کے بعد بدلے اور نفرت کا بوجھ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔
یہ کہانیاںبھارتی اداکار اور فلم ساز عامر خان کی ڈاکومنٹری فلم روبروروشنی کا موضوع تھیں اور یہ انسان کو اندر سے ہلا کر رکھ دیتی ہیںڈاکومنٹری میں اجمل قصاب سمیت تینوں قاتلوں سے پوچھا گیا تم نے انھیں کیوں قتل کیا تھا تینوں کا جواب تھا ہمارے پاس اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھییہ جواب سن کر میرے آنسو نکل آئے اور میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کیا نفرت اتنی اندھی اور بلاوجہ ہوتی ہے؟ شاید واقعی نفرت کی کوئی وجہ نہیں ہوتی کیوں کہ انسان کے پاس اگر کوئی وجہ ہو تو یہ اسے دور کر لیتا ہے۔
یہ انسان کی بنیادی صفت ہے لیکن اگر سرے سے کوئی وجہ نہ ہو تو پھر اس کے پاس دوسروں کے قتل کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتامیں نے جب اس زاویے سے اپنے معاشرے کو دیکھا تو مجھے محسوس ہوا ہم من حیث القوم بلاوجہ نفرت کے عارضے کا شکار ہیں آپ نے کبھی سوچا ہم مسلمان ہندوں اورعیسائیوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ ملک کے تینوں صوبے پنجاب کو کیوں گالی دیتے ہیں اور پنجابی دوسرے صوبوں کے لوگوں سے کیوں کھچے کھچے رہتے ہیں کراچی میں مہاجر اور سندھی کے درمیان دیواریں کیوں ہیں؟ ہم اقلیتوں سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔
ہم نے اسلام آباد میں مندر کیوں نہیں بننے دیا ہم سکھوں ہندوں اور عیسائیوں کو زبردستی مسلمان کیوں بنانا چاہتے ہیں ہمارے ملک میں کسی کو بھی قتل کرانے کے لیے اس پر توہین مذہب کا الزام لگا دیناکیوں کافی ہوتا ہے ہم سب ایک دوسرے کے ایمان اور اسلام کو مشکوک کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم رسول اللہۖ کا نام لے کر ایک دوسرے کو گالی کیوں دیتے ہیں۔
ہم اپنے آپ کو صحیح اور دوسروں کو غلط کیوں سمجھتے ہیں اور ہمیں دوسروں کے سجدے اور روزے کیوں منافقت محسوس ہوتے ہیں؟ ہم نے کبھی سوچا اس نفرت کی وجہ کیا ہے؟ مجھے یقین ہے ہم جس دن یہ سوچیں گے ہم اس دن جان لیں گے ہماری نفرتیں بلاوجہ ہیں اور ان بلاوجہ نفرتوں نے ہمیں پہلے ہندو اور مسلمان دو لشکروں میں تقسیم کیا پھر بنگالی اور پنجابی میں منقسم کیا پھر پنجابی سندھی پشتون اور بلوچی میں بانٹا پھر سول اور ملٹری کی دوریاں پیدا کیں پھر شیعہ سنی اختلافات پیدا کیے اور ہم اب بڑی تیزی سے بریلوی اور دیو بندی کی خوف ناک جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اگر خدانخواستہ یہ جنگ شروع ہو گئی تو یہ ملک نہیں بچے گا کیوں کہ ملک میں پہلی بار دو اکثریتی گروپ لڑیں گے اور دونوں کے ہاتھوں میں مذہب کا جھنڈا بھی ہو گا لہذا آپ اس سے جنگ کے دائرے اور نقصان کا اندازہ کر لیجیے۔
انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری بتاتی ہے جہالت انسانی معاشرے کی سب سے بڑی بیماری ہوتی ہے اور یہ بیماری پہلے انسان پھر خاندان اور پھر پورے معاشرے کو نگل جاتی ہے معاشرے کی دوسری بڑی بیماری غربت ہوتی ہے اور تیسری اور آخری بیماری نااہلی ہوتی ہے اور یہ تینوں بیماریاں جب کسی ایک جگہ جمع ہو جاتی ہیں تو پھر انسان بچتے ہیں خاندان اور نہ معاشرے اور ہم بدقسمتی سے من حیث القوم ان تینوں بیماریوں کا شکار ہیں۔
آپ صدر پاکستان سے لے کر چپڑاسی پاکستان تک کسی شخص سے پوچھ لیں آپ کون سا کام آنکھیں بند کر کے کر سکتے ہیں؟ میرا دعوی ہے ملک کے 98 فیصد لوگوں کو ٹھیک طریقے سے آنکھیں بھی بند کرنا نہیں آتی ہوں گی ملک کے 21 کروڑ لوگوں میں سے صرف ایک کروڑ لوگ کام کرتے ہیں اور انھیں بھی وہ کام نہیں آتا جس کا یہ دعوی کرتے ہیںہمارے پروفیشنل ازم کی یہ حالت ہے ہمارے ہر اصلی پولیس مقابلے میں پولیس کے لوگ مرتے ہیں اور ہر آپریشن میں سینئر ترین لوگ ان ٹرینڈ دہشت گردوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔
ہمارے ہر مسلح ادارے کے باہر ہزاروں تصویریں لگی ہیں اور یہ تصویریں کیا ثابت کرتی ہیں؟ یہ ہماری اہلیت اور ٹریننگ کا اسٹینڈرثابت کرتی ہیں لیکن ہم اسٹینڈر بہتر بنانے کے بجائے اس پر شہادت کا ٹھپہ لگا کر قوم کو لولی پاپ دے دیتے ہیں دوسرا ہماری آدھی آبادی خط غربت سے نیچے ہے اور جو خط غربت سے اوپر ہیں وہ بری طرح ذہنی غربت کا شکار ہیں۔
آپ نے اگر ان ذہنی غریبوںکا مشاہدہ کرنا ہو تو آپ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں چلے جائیں آپ کو وہاں سیکڑوں ذہنی غریب ملیں گے آپ اسی طرح ملک کی کسی گلی کسی سڑک پر نکل جائیں آپ کو وہاں ہر طرف غربت کے ڈھیر ملیں گے گویا ہم سماجی اور ذہنی دونوں سطحوں پر غربت کے شکار ہیں اور ہماری پہلی اور انتہائی خوف ناک بیماری جہالت ہے ہمارے پروفیسر تک کتابیں نہیں پڑھتے یونیورسٹی میں ہم تین اسٹوڈنٹس کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور پوری یونیورسٹی پروفیسروں سمیت ہمارا مذاق اڑاتی تھی اور یہ 30 سال پرانی بات ہے۔
آپ آج کا اندازہ خود لگا لیجیے اسلام آباد شہر میں کتابوں کی صرف دو دکانیں اور ایک لائبریری ہے اور آپ کو وہاں بھی دس پندرہ سے زیادہ لوگ نہیں ملتے پیچھے رہ گیا ہمارا مذہبی طبقہ یہ لوگ ہزار سال پرانی کتابیں پڑھتے ہیں مسلک سے باہر نکل کر پڑھنا ان کے لیے گناہ ہوتاہے یہ ہر جدید کتاب کو یہودونصاری کی سازش بھی سمجھتے ہیں لہذاآپ معاشرے کا مستقبل خود دیکھ لیجیے۔
ہم جب تک ان تین بیماریوں کا علاج نہیں کریں گے آپ یاد رکھیں ہم اس معاشرے سے اس وقت تک بلاوجہ نفرت ختم نہیں کر سکیں گے اور یہ کام ہو گا کیسے؟ یہ انتہائی آسان ہے ریاست صرف تین قانون پاس کر دے یہ کتابیں لازم قرار دے دے اسکول سے یونیورسٹی تک1000 کتابوں کا سلیبس بنایا جائے اور یہ لازم قرار دے دی جائیں اساتذہ کو ڈیوٹی کے بعد ان پڑھ لوگوں کو کتابیں سنانے کا کام دے دیا جائے اور ان کو اس کام کا باقاعدہ معاوضہ دیا جائے سوشل میڈیا کے بعد علم کی ترسیل بہت آسان ہو چکی ہے حکومت آڈیو بکس بنا کر بھی پورے ملک میں عام کر سکتی ہے۔
یہ یوٹیوبر بھی اس کام کے لیے ہائر کرسکتی ہے اس سے ہم جہالت کی بیماری سے نکل آئیں گے دوسرا اٹھارہ سال کے بعد ہر شخص کے لیے کام لازم کر دیا جائے صدر کا بچہ ہو یا مزدور کا وہ کام کرے گا اور اپنا بوجھ خود اٹھائے گا اور تیسرا جرمنی کی طرح ہم میں سے ہر شخص کے لیے کوئی نہ کوئی ہنر لازمی کر دیا جائییہ یاد رکھیں ہم ہنر مند ہوں گے تو کام کریں گے۔
کام کریں گے تو غربت سے نکلیں گے غربت سے نکلیں گے تو کتاب پڑھیں گے اور کتاب پڑھیں گے توہمارا دماغ کھلے گاپھر ہم اپنی نفرتوں کا جواب تلاش کریں گے اور اس سے معاشرہ معاشرہ بنے گا ورنہ ہم بلاوجہ نفرت کی اس آگ میں جل جل کر مر جائیں گے ہم ایک دوسرے کا اسلام ٹٹول ٹٹول کر ختم ہو جائیں گے لہذا ریاست کو بہرحال سامنے آنا ہوگا اس سے پہلے کہ ریاست ہی نہ رہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس