ہمارا تیسرا ساتھی پولیس مین تھا‘ وہ ڈیوٹی ختم کر کے آیا اور ہم روانہ ہو گئے‘ دوسرا ساتھی گاڑی چلا رہا تھا‘ وہ ہیوسٹن سے آیا تھااور نیویارک کے روڈز کو نہیں سمجھتا تھا‘ ہم جوں ہی مین ہیٹن میں داخل ہوئے‘ ہالی ووڈ کے فلمی سین کی طرح ایک پولیس کار نے ہمارا پیچھا شروع کر دیا۔
پولیس کار نے تھوڑی دیر بعدسائرن بجا کر ہمیں گاڑی سائیڈ پر کھڑی کرنے کا حکم دے دیا‘ میں ڈر گیا اور خوف سے تیسرے ساتھی کی طرف دیکھا‘ اس کے ماتھے پر بھی پسینہ تھا‘ ڈرائیور چپ چاپ باہر نکل کر کھڑا ہو گیا‘ پولیس کار سے پولیس مین نکلا‘ ڈرائیور کے پاس آیا اور اس سے لائسنس مانگا‘ ہمارے ساتھی نے چپ چاپ لائسنس دے دیا۔
اس دوران ہمارے تیسرے ساتھی نے پولیس مین کو پہچان لیا اور گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے زور سے کہا ’’ہائے جان ‘آئی ایم مک‘‘ پولیس مین مڑا‘ مک کو دیکھا اور زور سے قہقہہ لگایا‘ ہمارا تیسرا ساتھی گاڑی سے اترا‘ دونوں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور ایک دوسرے کا حال احوال پوچھنے لگے‘ اس دوران پولیس مین پولیس کار میں گیا‘ کریڈٹ کارڈ مشین ٹائپ مشین نکالی اور ڈرائیور کا لائسنس اس میں ڈال دیا‘ وہ مک کے ساتھ گپ شپ بھی کرتا جا رہا تھا اور مشین کی اسکرین بھی پڑھتا جا رہا تھا۔
اسکرین پڑھتے پڑھتے اس نے مک سے پوچھا ’’کین یو ڈرائیو‘‘ اس نے کندھے اچکا کر ہاں میں سر ہلا دیا‘ پولیس مین نے مشین سے پرچی نکالی اور ڈرائیور کو تھما کر بولا’’ آپ نیویارک میں ڈرائیو نہیں کر سکتے اور میں آپ کو اڑھائی سو ڈالر جرمانہ کر رہا ہوں‘‘ ڈرائیور اور مک دونوں نے اس کا شکریہ ادا کیا‘ مک ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور ہم آگے چل پڑے۔میں نے تیسرے ساتھی سے پوچھا‘ کیا تم اس پولیس مین کو جانتے تھے؟
اس نے ہنس کر جواب دیا‘ یہ میرا کولیگ ہے‘ ہم نے کل ہی لنچ اکٹھے کیا تھا‘ میں نے پوچھا ’’پھر اس نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’کیوں کہ ہمارے ساتھی نے ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کی تھی لہٰذا اس کی سزا لازم تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا وہ آفیسر ہمیں چھوڑ سکتا تھا؟‘‘ مک نے جواب دیا ’’سو فیصد‘ وہاں اس وقت صرف وہ تھا یا ہم تھے‘ وہ اگر ہمیں چھوڑ دیتا تو اسٹیٹ اس سے پوچھ نہیں سکتی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر اس نے تمہارا لحاظ کیوں نہیں کیا؟‘‘
مک نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’دوستی اپنی جگہ اور ڈیوٹی اپنی جگہ‘ ہماری جگہ اگر اس وقت امریکی صدر یا نیویارک پولیس کا چیف ہوتاتو بھی اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا‘ امریکا میں قانون کی نظر میں جرم صرف جرم اور مجرم صرف مجرم ہے‘ وہ خواہ کوئی بھی ہو‘‘ آپ یقین کریں میں یہ سن کر بے حد متاثر ہوا۔
میں اللہ کے رحم اور کرم سے آدھی دنیا دیکھ چکا ہوں‘ میں نے جدید اور ترقی یافتہ دنیا بھی دیکھی اور ترقی پذیر اور غیرترقی یافتہ ممالک بھی‘ میں پوری دنیا دیکھ کر مرنا چاہتا ہوں‘ یہ میری خواہش ہے اور اگر اللہ نے مزید رحم کیا تویہ ہو کر رہے گا لیکن میں آج تک کے تجربے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں ترقی یافتہ ملکوں میں دس خوبیاں ہوتی ہیں‘ملکوں کو قانون‘ انصاف‘ ترقی کے یکساں مواقع‘ تعلیم‘ بزنس دوست ماحول‘ بولنے اور لکھنے کی اجازت‘ انفرااسٹرکچر‘ انسایت‘ مذہبی آزادی اور دسویں خوبی اسلام کی اصل روایات ترقی یافتہ بناتی ہیں۔
مجھے یقین ہے آپ آخری خوبی پر چونک گئے ہوں گے لیکن آپ یقین کریں وہ تمام احکامات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبؐ کے ذریعے ہم تک پہنچائے ہیں جب تک کوئی بھی معاشرہ یا ملک ان پر من وعن عمل نہیں کرتا وہ اس وقت تک ترقی یافتہ نہیں ہو سکتاخواہ اس کا پانی تیل اور ریت سوناہی کیوں نہ بن جائے‘ یہ دس خوبیاں جوں جوں ملکوں اور معاشروں میں کم ہوتی جاتی ہیں یہ تنزلی کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیںیہاں تک کہ ان کی داستان تک داستانوں میں گم ہو جاتی ہے۔
یاسر پیرزادہ میرے سابق دوست ہیں‘ میں ان کا خاندانی مرید ہوں‘ عطاء الحق قاسمی صاحب میرے بڑے پیر صاحب ہیں اور یاسر صاحب ان کے ولی عہد ہیں لہٰذا میں ان کا بھی مرید ہوں‘ یہ بہت اچھا لکھتے بھی ہیں‘ میں نے چند دن قبل ان کا کالم ’’ایک نارمل ملک کیسا ہوتا ہے‘‘ پڑھا اور میں انھیں داد دیے بغیر نہ رہ سکا‘ میں ان جیسا سمجھدار انسان نہیں ہوں لیکن میں اس کے باوجود اس موضوع پر اپنی معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے نہیں معلوم نارمل ملک کیسے ہوتے ہیں لیکن میں اچھے ملکوں سے ضرور واقف ہوں‘ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں دنیا میں جب تک کوئی ملک اسلامی ملک نہیں بنتا وہ اس وقت تک اچھا اور ترقی یافتہ نہیں ہو سکتا‘ ترقی اور اچھائی یہ دونوں پیکیج اللہ تعالیٰ نے صرف اور صرف اسلامی معاشروں اور اسلامی ملکوں کے لیے وقف کر رکھے ہیں مگر سوال یہ ہے ہمارے 58 اسلامی ملک پھر ترقی اور اچھائی سے کیوں محروم ہیں؟
سیدھی بات ہے یہ تمام ملک مسلمانوں کے ملک ہیں‘ یہ اسلامی نہیں ہیں اور ہم مسلمانوں نے بھی صرف اسلامی نام رکھے ہوئے ہیں اور ہم مسلمانی کی کسی تعریف پر پورے نہیں اترتے‘ ہمارے سارے کام اس دور جاہلیت جیسے ہیں جسے ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمؐ کو مبعوث فرمایا تھا اورآپؐ کے ذریعے حکم دیا تھا ظلم نہ کیا کرو‘ انصاف کیا کرو‘ معاف کر دیا کرو‘ آواز نیچی رکھو‘ نظروں کو قابو میں رکھو‘ تمہاری زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہنا چاہیے‘ بوڑھوں‘ بچوں‘ خواتین اور معذوروں پر مہربانی کرو‘ راستہ نہ روکو‘ جنگ میں بھی شاہراہیں بند نہ کرو‘ لاشوں کی بے حرمتی نہ کرو‘ طاقت سے کلمہ نہ پڑھائو‘ دوسروں کی عبادت گاہوں کا احترام کرو‘ پانی اور ہوا آلودہ نہ کرو‘ درخت نہ کاٹو‘ دوسروں کے مذہب میں مداخلت نہ کرو‘ غیبت نہ کرو‘ منافقت نہ کرو‘ عورتوں کا احترام کرو‘ غصہ نہ کرو‘ تشدد نہ کرو‘ کم نہ تولو‘ اپنے مال میں بھی ملاوٹ نہ کرو‘ دوسروں کے جھوٹے خدائوں کو بھی برا نہ کہو‘ منڈیاں اور بازار بند نہ کرو‘ دوسروں کے کھیتوں کو نہ اجاڑو‘ جانوروں پررحم کرو‘ بے گناہ انسان کو قتل نہ کرو‘ عاجزی اختیار کرو‘ علم کو سپریم سمجھو‘ جھوٹ نہ بولو‘ منافرت نہ پھیلائو‘ لوگوں کے گھر نہ اجاڑو‘ غلط فہمیاں نہ پھیلائو‘ لوگوں کے دل نہ توڑو‘ تقویٰ کا گھمنڈ نہ کرو‘ عبادات کا غرور نہ کرو‘ اپنے سجدوں‘ صدقات‘ خیرات اور روزوں کی شیخی نہ مارو‘ دوسروں کے گناہوں اور اپنی نیکیوں کا پرچار نہ کرو‘ صفائی کو آدھا ایمان سمجھو اور یہ ہمیشہ یاد رکھو تم خدا نہیں ہو‘ تم نیک ہو یا گناہ گار ہوتم سب کا خدا ایک ہی ہے اور وہ بے شک بخشنے والا اوررحم کرنے والا ہے۔
یہ ہے اصل اسلام اور اصل اسلام کے ایک ہی سفیر ہیں اور وہ ہیں ہمارے رسولؐ‘ آپؐ پوری زندگی کفار کو مسلمان اور پھر مسلمانوں کو مومن بناتے رہے‘ آپؐ کام یاب رہے اور جس جس شخص نے بھی آپؐ کے حکم پر عمل کیا وہ بھی کام یاب ہو گیا۔
ہم ہمیشہ اپنی سنہری تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں‘ ہم بغداد کے اسلامی دور کا ذکر کرتے ہیں‘ مصر کے فاطمی عہد کی کام یابیاں گنواتے ہیں‘ اسپین اور ترکی کے دور کو اسلام کا عظیم عہد قرار دیتے ہیں اور ہم امیر تیمور اور دہلی کے چار سلاطین کے زمانوں کو مسلمانوں کے عروج کا زمانہ کہتے ہیں‘ ان ادوار میں کیاخصوصیت تھی‘ وہ دور سنہری کیوں تھے؟
بات سیدھی ہے‘ اس دور کے بادشاہوں نے اسلامی احکامات کو ریاست کا دستور بنا دیا تھا‘ انھوں نے ہمارے رسولؐ کے فرمودات کو آئین کی شکل دے دی تھی‘ انھوں نے صرف اسلامی عبادات نافذ نہیں کی تھیں‘ معاشرے پر اسلامی اخلاقیات بھی اتار دی تھیں لہٰذا وہ دور سنہری بھی ہو گئے اور عظیم بھی لیکن آج ہم نے اسلام کو صرف عبادات تک محدود کر دیا ہے‘ مساجد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ حلیہ اسلامی ہوتاچلا جا رہا ہے لیکن معاشرے سے اسلام غائب ہوتا جا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر ے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں آج لوگ اللہ سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا یہ اللہ کے بندوں سے خوف زدہ ہوتے ہیں‘ہمارے اس ملک کا خواب ایک ایسے کلین شیو شاعر نے دیکھا تھا جو مفتی تھا‘ قاری تھا اور نہ ہی حافظ تھا‘ وہ یونیورسٹی آف میونخ‘ ہائیڈل برگ اور کیمبرج سے پڑھ کر آیا تھا اور وہ وکیل تھا اور یہ ملک ایک ایسے کلین شیو شخص نے بنایا تھا جس نے 65 سال انگریزی لباس پہنا‘ 70 سال انگریزی اور گجراتی بولی اور جس کی قرآن مجید پڑھتے ہوئے ایک بھی تصویر موجود نہیں۔
قائداعظم کی نماز کی بھی صرف ایک تصویر ہے اور وہ بھی قیام پاکستان کے بعد عید کی نماز تھی‘سوال یہ ہے کیا قائداعظم نماز نہیں پڑھتے تھے یا تلاوت نہیں کرتے تھے؟ وہ کرتے تھے لیکن وہ عبادت کو اللہ اور بندے کا ذاتی تعلق سمجھتے تھے‘ وہ اس کی نمائش نہیں کرتے لیکن ہم نے آج علامہ اقبال اور قائداعظم کے ملک کو کیا بنا دیا؟ ہمارا بس نہیں چلتا ورنہ ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصویروں پر بھی داڑھی پینٹ کر دیں اور انھیں بھی بریلوی‘ وہابی اور شیعہ بنا دیں لہٰذا اللہ معاف کرے اس ملک سمیت سارے اسلامی ملک اسلامی نہیں ہیں۔
یہ ایسے لوگوں کے ملک ہیں جنھوں نے اپنے نام مسلمانوں جیسے رکھے ہوئے ہیں‘ ہم سب مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں‘ ہم مسلمانوں کی اداکاری کر رہے ہیں جب کہ اصل اسلامی ملک وہ ہیں جن کے پاس تمام اسلامی روایات ہیں‘ جو بنے بنائے مکمل اسلامی ملک ہیں بس انھوں نے کلمہ نہیں پڑھا لیکن جس دن انھوں نے کلمہ پڑھ لیا تو ذرا سوچیے ہم اس دن کہاں ہوں گے؟میں دل سے سمجھتا ہوں ہم صرف ملک ہیں ‘ اچھے اور نارمل نہیں ہیں لیکن ٹھہریے کیا ہم واقعی ملک بھی ہیں! شاید ہم یہ بھی نہیں ہیں‘ ہم زندگی میں لتھڑا ہوا صرف ہجوم ہیں اور بس۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس