آج چھ دن کے بعد نیم خوابیدگی، نیم بے ہوشی کے عالم میں شکر کا تقاضہ مجھے جگا دیتا، بٹھا دیتا۔ باہر ٹیپ پرجو گانا لگا ہے، ’تو ہندو بنے گانہ مسلمان بنے گا، انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا‘۔ بستر پر نیم وا آنکھوں سے آواز سنی۔ اس عالم میں کیا لکھا جائے گا۔ ہاتھ میں کاغذ اور قلم پکڑ کر لکھنے کا ارادہ کر رہی تھی کہ کسی نے میرے ہاتھ میں انڈر لائن سطر تراشہ پکڑا دیا، ایشور کے نام اور آگے لکھا تھا کہ سب کو سمتی دے بھگوان، میں نے ان دونوں کو نوٹ کر دیا مگر ساتھ ہی ساتھ قرآن شریف کھولا اس میں تو حکم ہے جو نیکی کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔ ان اشارات میں گم تھی۔ سامنے رات کے دو بجے کسی نے میرے ہاتھ ٹی وی کی خبریں رکھ دیں۔ مجھے یاد کرایا کہ میں دلی کے ایئر پورٹ پر نہیں کھڑی، گھر پر ہوں مگر لفظوں کے استعمال میں عجب مشابہت تھی، لکھنے والا بھی ہندی رائٹر ہو گا۔ کیونکہ وہاں پر پرواز پہ انائونس کیا جاتا ہےمیں نے توایک لفظ کو پکڑ کر یاد کر لیا کہ اڑان لکھنؤ ایئر پورٹ کے لئے تیار ہے۔ گھر میں، میں نے پوچھا اس وقت کسی ایئرپورٹ پر نہیں ہوں پھر ٹی وی کی طرف نگاہ ڈالی، پتہ چلا کوئی دو گھنٹے سے احسن اقبال بار بار کہہ رہے تھے ’’اڑان پاکستان‘‘ اب ہماری شناخت بنے گی۔ میں نے یہ سنتے ہی کاغذ قلم نکالا۔ سب نے چونک کر کہا اس عالم میں کیسے لکھو گی۔ میں اٹھ کے بیٹھی پھر کاغذ مانگا۔ اب کاغذ تو میرے ہاتھ میں تھا اور بار بار دہرایا جانے والا فقرہ بھی کہ پروگرام نواز شریف نے شروع کیا۔ انہی اقدامات کے باعث انڈیا کی ترقی کے راستے سامنے آئے۔ اور ہمارے ہاں نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اب ملال دو طرح کا لگا تھا۔ ایک تو ہمارے ملک میں کوئی بھی کام ہوتے ہوتے رہ گیا کیوں؟ دوسرے یہ کہ کیا ہم منموہن پروگرام کی نقل کر رہے ہیں۔ آواز آئی یہ نقل نہیں اصول ہے۔ عملی شکل ہے اور ہمارے ساتھ نوجوان ہیں۔ پانچ سال میں وہ کام ہونگے کہ دنیا کے سارے سائنسدان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے کہ دیکھو ہمارا شہباز سب کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ مجھے یہ سن اور پڑھ کر اس عالم میں لکھتے دیکھ کر میرا نوکر آگے بڑھا اور ہاتھ سے قلم چھین لیا۔ میں پھر سوچوں کی دلدل میں ڈوب گئی، ذہن نے مسلسل غور کرنے کے بعد وہ دن بھی یاد کیا جب سارک کمیٹیوں کے ہم سب مہمان گئے تھے۔ من موہن تو ہمیشہ اچھی بات اور اچھے پنجابی کے لطیفے بھی سناتے جب انہوں نے ایک جملہ پنجابی میں بولا میں پھر کے سامنے آئی۔ درخواست کی کہ ذرا بلھے شاہ یا شاہ حسین سنائو، بولے میں ایہہ شعر رانی سوہنی لگ ہی پڑھنا واں۔ پھر من موہن جی پنجابی کے شعر پڑھے اور ہم سب کو چائے کی طرف لیجا کر چھوڑ دیا۔
اب میں جاگ گئی تھی۔ قلم کاغذ مانگا۔ لکھنے سے زیادہ یہ مجھے چکوال کے علاقے کی یادوں کے ساتھ مسکرانے کو چھوڑ گئے۔ پھر وہی الجھن آخر نواز شریف تو اکانومسٹ بھی نہیں اور یہ بندہ بے شمار یونیورسٹیز میں پڑھا کہ سارے زمانے کے مسائل سے بھری جیب لئے وہ انڈیا واپس آ گیا۔ مقابلہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہم لوگ تو پڑھتے یوں ہیں کہ دو جمع دو: چار روٹیاں۔ اس خلجان میں گم تھی کہ موذن کی اذان کی آواز آئی آئو اللہ کی طرف۔ آئو فلاح کی طرف۔ میں نےذہن کو جھٹکا۔ اٹھی اور اب باقاعدہ لکھنے کے لئے میز کرسی پکڑ کر سوچنے لگی ہم سب کی مائیں آج تک ایسی دعائیں پنجابی میں دیتی ہیں۔ ذہن نے اردو ہندی کا بند کواڑ کھول ڈالا۔ ارے یہ تو میرے سامنے ہے پرانی اردو میں لکھا ہوا پڑھ رہی تھی۔ آگے بڑھی کبھی کسی کا شعر نثری پارہ۔ سامنے شریف فاروقی صاحب، شوکمار بٹالوی کے شعر کی تشریح کر رہے تھے۔ بات وہی نہ کوئی کالا، نہ چٹا۔ بات تو آخر وہیں پہنچی جو حکم خدا ہے۔
نوکر نے آکر مجھے لکھتے دیکھا بولا، میڈم چائے یا کافی؟ ’لسی کا گلاس‘ وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔ آپ سوتی ہیں پھر بھی سوچتی ہیں یہ سردیاں ہیں۔ آپ کو لسی نہیں چائے چاہئے یا دودھ میں جلیبیاں۔
ایسی بحث کے دوران جس جس نے سنا۔ اس نے نوازشریف کی نیکی اور بھلائی کی باتیں بتانا شروع کیں۔ یہ تو وہ شخص ہے سرکاری ضیافت چھوڑ کر چکڑ چھولے کے کسی ڈھابے کی تلاش میں نکل جاتا اور اب بولنے پر پابندی (سیاسی) ویسے بھی دل بھر گیا۔ 25سال سیاست میں جب اصلی، نقلی صورت نظر آنے لگی اور اب پچھتاوے اکیلے مری میں رہ کر کچھ لکھو۔ ان دوستوں کی یاد میں جن کی بے وفائی کی یادیں ان کا اصل چہرہ اور اصل عمر کا اندازہ ہوتا ہے۔ عشق کونسی بری چیز ہے۔ ذرا پڑھیں علامہ اقبال، فیض، حسرت موہانی اور حبیب جالب، گھبرا کر بولے ان کو پڑھ کر عشق کی خواہش جاگی۔ کلثوم ایسی آئی کہ اپنے ساتھ وہ سپنے بھی لائی جو میری سوچ میں نہیں تھے۔ میں اسی کیاری سے روز صبح ساتھ موتیا چنتا، ایسے مسکرا کے وصول کرتی کہ ایسی مسکراہٹ اس کی بیماری کے دوران بھی نظر آئی۔ میں تو سرکاری اونچ نیچ کاا ٓدمی تھا ابا جی کی عادتیں مجھے بہت پسند تھیں۔ اب کسے خبر میرے اندر بیٹھی چڑیا بھی وہ ساتھ لے گئی میں نے لکھتے ہوئے سوچا کہ بڑے فنکار اپنا غم سلامت رکھتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ