لہو لہو دسمبر میں کس کس المیے کا سوگ منائیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، اے پی ایس پشاور کے پھول پچوں کی شہادتیں ہوں یا بے نظیر بھٹو کے رخصت شوق سفر کا المناک نظارہ ہو _____ساتھ ساتھ پروین شاکر کی جواں عمری میں ٹریفک حادثے میں جان کھونے کا دکھ ہو یا پھر عظیم تر منیر نیازی اور نورجہاں جیسی جہاں ساز ہستیوں کا راہ عدم سدھارنا ہو _____ان سب کی جدائیوں اور سقوط مشرقی پاکستان کے المیے نے دسمبر کے آخری دو ہفتوں کو ہمیشہ کے لیے سوگواریت کی چادر میں لپیٹ لیا ہے بے نظیر بھٹو اور معصوم بچوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت تو قومی المیہ بن چکا ہے_آج بھی لیلائے وطن کے عشق میں پاکستان کی فوج کے نوخیز اور بہادر سپوت اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے جا رہے ہیں ____کبھی مجاہدین، کبھی دہشت گرد اور اب خوارج ___خدا جانے یہ نحوست کب ہماری جان چھوڑے گی _ساٹھ ہزار سویلین، اور سات ہزار سیکورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادتوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ شہیدانِ عشق و وفا جب سیر گلستاں کے لیے روانہ ہوئے تو مثردہ قتل ان کا مقدر ٹھہرا شہید نے جب گلستاں میں لالہ و گل کی سرخی دیکھی تو دل پر خوں خود بخود سامنے آگیا اور وہ جان دینے کے سوا اسکو دیکھنے کی تاب نہ لاسکا بقول غالب
وعدہ سیر گلستاں ہے، خوشا طالع شوق
مثردہ قتل مقدر ہے، جو مذکور نہیں
بے نظیر بھٹو کی کتاب ” مفاہمت ، اسلام اور جمہوریت” میں اپنی شہادت کے جواز پر خود رقمطراز ہیں “18 اکتوبر 2007(شہادت سے دوماہ، آٹھ دن پہلے) کراچی کے ائیر پورٹ پر قدم رکھتے ہوئے میں جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہو گئ پاکستان کی سر زمین کو چھوا تو میں اپنی آنکھوں میں امنڈنے والے آنسوؤں کو نہ روک سکی خدا کے حضور اظہار تشکر کے لیے میرے ہاتھ دعا کے لیے بے ساختہ بلند ہو گئے یہ آزادی کا احساس تھا یہ پاکستان کے لیے جمہوریت کے ایک کٹھن سفر کی ابتدا تھی اور مجھے امید تھی کہ میری وطن واپسی پاکستان میں تبدیلی کا محرک ثابت ہو گی پاکستان اس وقت فوجی آمر یت تلے بین الاقوامی دہشت گردی کی تحریک کا مرکز بنا ہوا ہے جسکا بنیادی مقصد فرقوں، نظریوں اور مذہبی تشریحات کے مابین اختلافات کو ہوا دینا ہے، متشدد محاذ آرائی کو فروغ دینا ہے اس تباہ کن کشیدگی نےایک طرف مسلمانوں میں بھائی کو بھائی کے خلاف لا کھڑا کیا ہے تو دوسری طرف انتہا پسندوں نے اسلامی عقائد کو مغرب کے خلاف اپنے نام نہاد جہاد کو جواز اور منطقی بنیاد فراہم کرنے کے لیے گمراہ کن طریقے سے پیش کیا ہے اس وجہ سے مسلم نشاۃ ثانیہ کی وہ چمک دھمک دھندلا گئی ہے جو یورپ کے آزمنہ تاریک میں ظہور پذیر ہوئی تھی ستمبر 2001 میں اللہ اور جہاد کے نام پر نیویارک کے ٹون ٹاورز پر حملوں نے دہشت گردی کے سب سے بڑے جرم کا ارتکاب کر کے صلیبی جنگوں کا رخ الٹی طرف پھیر دیا جلتے ہوئے ٹاورز، بے گناہ افراد کی ھلاکتوں نے اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبوں کے ٹکراؤ کے فلسفے کے تابع کر دیا پاکستان بربادی کے مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا آپ چاہیں اسے انتہا پسندی کے جوہری دھماکے کا مقام بھی قرار دے سکتے ہیں مجھے پاکستان واپس آنے سے مشرف انتظامیہ نے بار بار منع کیا مشرف نے مجھے الیکشن کے بعد آنے کا کہا جب حکومت کو معلوم ہوا کہ میں اپنی واپسی کو مؤخر نہیں کروں گی تو انہوں نے میرے سٹاف کو پیغام دیا کہ میں کوئی عوامی مظاہرہ یا سیاسی اجتماع نہ کروں اور ائیر پورٹ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بلاول ہاؤس چلی جاؤں مشرف کا کہنا تھا کہ وہ میری سلامتی کے متعلق فکر مند ہیں “کاش بی بی مشرف کی یہ خیرخواہنہ رائے مان جاتیں مگر پیپلز پارٹی کے لیڈران تو ہوس اقتدار میں پاگل ہو کر بی بی کی جان کا رسک لینے پر تلے ہوئے تھے کارساز میں بم دھماکوں کے بعد پشاور میں بی بی کا جانا اور اس کے بعد 27 دسمبر کو لیاقت باغ میں جلسہ کرنا حالانکہ اس سے چند گھنٹے پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ بی بی کو تمام تر خدشات سے آگاہ کر چکے تھے اور جلسہ منسوخ کرنے کا کہا مگر بی بی نے موت کے کارزار میں اترنے کا مصم ارادہ کر لیا تھا جلسہ خیریت سے ختم ہو گیا آج تک نہیں معلوم ہوا کہ بی بی کس کے کہنے پر چند افراد کو ہاتھ لہرانے کے لیے گاڑی کے سن روف سے باہر نکل آئیں، گاڑی میں بیھٹے افراد نے انہیں خطرات سے کیوں آگاہ نہیں کیا بعد میں بی بی کا ذاتی ملازم خالد شہنشاہ جو گاڑی میں موجود تھا وہ پرسرار طور پر مارا گیا ____ان سوالات کے جوابات آج تک نہیں سامنے آئے اور بی بی کے قاتل بھی بری ہو گئے اور آج بی بی کے سیاسی وارثین اقتدار کے مسلسل مزے لے رہے ہیں
بے نظیر اپنی کتاب میں لکھتی ہیں “جب میرا قافلہ کارساز کے نزدیک پہنچا تو میرے اردگرد لاکھوں لوگوں کا ہجوم تھا اسی اثنا میں پہلا بم میرے ٹرک کے متوازی پھٹا اور ٹرک کے اندر اور اوپر موجود افراد سر تا پا ہل گئے وقفے وقفے سے دھماکے ہو رہے تھے ٹرک کے اردگرد آگ ہی آگ تھی ہر طرف خون، جلتے ہوئے گوشت کی بدبو پھیلی ہوئی تھی جسمانی اعضاء بکھرے ہوئے تھے ہمارے پیارے لڑکے جہنوں نے سفید شرٹیں پہنی ہوئی تھیں اور میرے ٹرک کے اردگرد انسانی ڈھال بنا رکھی تھی وہ پہلے شہیدوں میں شامل تھے “ظاہر ہے غریب کارکن ماضی کی پیپلزپارٹی کے ہوں یا آج کی تحریک انصاف کے یہ تو اپنے لیڈروں کے اقتدار کے لیے بے مقصد جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں بی بی لیاقت باغ کے حملے میں شہید نہ ہوتی تو یہی بات ان کی گاڑی کو اپنے جسموں کی ڈھال فراہم کرنے والے شہید اور بدنصیب کارکنوں کے لیے بھی لکھتیں مگر بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد نہ تو سانحہ کار ساز اور نہ ہی لیاقت باغ کے شہید کارکنوں کے لواحقین کی کسی نے خبر لی یا مالی امداد دی ع خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا “معصوم نظریاتی کارکنوں کو مفاد پرست لیڈروں کے لیے جان، مال اور جیلوں کی صعوبتوں سے کون روکے کیسے وہ ان سیاستدانوں کے فریب سے بچیں کیونکہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
بے نظیر بھٹو کے مطابق” مجھ پر دہشت گردوں کے حملے کی بڑی وجہ میرا اعتدال پسند اسلامی قدروں اور جمہوریت پر ایمان ہے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبانائزیشن اور مغربی سرحدوں پر انتہا پسندی کا پھیلاؤ میری مرکزی تشویش کا باعث ہیں ان حالات میں میرا نظریہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت کے بنیادی اصول اسلامی اقدار کے نظام کا حصہ ہیں اور میں اس روایت کو جھٹلا دوں گی کہ اسلام اور جمہوریت ایک دوسرے کے متضاد ہیں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر میں جانتی ہوں کہ جمہوریت اسلام کا ایک اہم حصہ ہے ایک مسلمان کی حیثیت سے میرا ذہن ان لوگوں کو مسترد کرتا ہے جو دہشت گردی کا جواز فراہم کرنے کے لیے مزہب کو اپنے ذاتی سیاسی ایجنڈے کے لیے مسخ کرتے ہیں”
جس وقت بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی تو اس وقت پاکستان میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، مذہبی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ کا بڑا دھڑا طالبان کے خلاف کھل کھلا کر بات نہیں کرتا تھا اچھے اور برے طالبان کی اصطلاحائیں گھڑ کر پاکستانی عوام کو کنفیوژ رکھا گیا تھا مشرف اور بے نظیر بھٹو کے بعد ریاستی اداروں، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ادوار میں طالبان کے خلاف بھر پور کارروائیوں سے اجتناب کیا گیا موجود فوجی قیادت مکمل یکسوئی سے طالبان کی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہے اللہ کرے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو آج پہلی دفعہ دہشتگردی کے متعلق ریاست نے وہی نظریہ اپنایا ہے جو 2007 میں بے نظیر بھٹو کا تھا جس کی وجہ سے طالبان نے ان کی جان لی اور ان کے قاتل بھی مقدمات سے بری ہو گئے پیپلزپارٹی اپنے دور حکومت کے پانچ سالوں میں بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا نہیں دلوا سکی بے نظیر بھٹو کی شہادت کی بڑی وجہ ان کا جمہوریت پر پختہ ایمان، انسانی حقوق کا احترام، معاشرے میں عورت کے حقوق اور کردار، دوسرے مذاہب اور ثقافتوں کی عزت، مغرب اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اور جدت پسندی اور اعتدال پسندی پر مبنی مذہبی خیالات ہیں جو دو دہائی بیشتر انتہا پسندوں کے ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنانا مشکل امر تھا مگر بے نظیر بھٹو نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر اپنے سیاسی وارثوں کے لیے اقتدار کی راہیں ہموار کر کے ثابت کر دیا ہے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تمہاری عاقبت سنوار چلے