پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں’’ا نفرادی آزادی‘‘ کا تصور مغرب کی غلامی کے دوران ابھرا۔ یہ تصور بھی تاہم مقامی اشرافیہ کے ان لوگوں تک محدود رہا جو سامراجی حکمرانی کی معاونت کرتے ہوئے ان کی نقالی میں خوشحال زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ ہمارے ہاں اگرچہ ایک ایسا دوربھی آیا جب برطانوی سماج پر حاوی اقدار کا وہ پہلو بھی غلام پاک وہند پر حاوی ہوگیا جسے ’’وکٹورین‘‘ کہا جاتا تھا۔ اقدار کا یہ باب برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا سے منسوب تھا۔ وہ قدامت وروایت پرست خاتون تھی جو خاندانی اکائی کوشدت سے برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ فضول خرچی کو گناہ کے مترادف گردانتی اور والدین سے بچوں کی پرورش کرتے ہوئے سخت گیر نگہبانی کا تقاضہ کرتی۔ ’’وکٹورین‘‘ اقدار ہی سے متاثر ہوکر ہماری مسلم اشرافیہ کی کئی خواتین نے ’’فیشنی‘‘ کہلاتا برقعہ پہن کر گھروں سے نکلنا شروع کردیا۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار بھی کرناشروع ہوگئیں جو عموماََ ’’تہذیب واخلاق‘‘ کے پرچارک ہوتے ہوئے خواتین کو عملی زندگی میں بھی متحرک دیکھنا چاہ رہے تھے۔ اشرافیہ کی ان برقعہ پوش خواتین کی ہمارے مذہبی حلقوں نے شدید مذمت کی۔ اکبر اللہ آبادی کی طنزیہ شاعری کا وہ مستقل نشانہ رہیں۔
بات چلی تو دور تلک نکل جائے گی۔ مجھے تو ہزار سے بارہ سو لفظوں تک محدود رہتے ہوئے آج کا کالم مکمل کرنا ہے۔ کالم کو ایک موضوع درکار ہوتا ہے۔ اس کے مختلف پہلوئوں سے کھیلتے ہوئے ہی روز کی روٹی روز کمانے کا بندوبست کرتا ہوں۔ رات سونے سے قبل طے کررکھا تھا کہ رچرڈ گرنیل کے بارے میں لکھنا ہے۔ اس کے بارے میں چند روز قبل بھی لکھ چکا ہوں جب موصوف کو نو منتخب صدر ٹرمپ نے چند ’’خصوصی مشن‘‘ سرانجام دینے کے لئے اپنا ’’خصوصی سفیر‘‘ نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ’’خصوصی مشن‘‘کا ذکر کرتے ہوئے ٹرمپ نے وینزویلا اور شمالی کوریا کا ذکر کیا۔ اس کے علاوہ کسی اور ملک کا ذکر نہ تھا۔ عاشقان عمران نے مگر یہ فرض کرلیا کہ رچرڈ کو درحقیقت ٹرمپ نے عمران خان کو حکومت پاکستان کی قید سے رہا کروانے کے لئے تعینات کیا ہے۔
عاشقان عمران کی خوش گمانی بے بنیاد نہیں تھی۔ رچرڈ اکثر عمران خان کی حمایت میں ٹویٹ لکھتا رہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے بانی کو حکومت پاکستان نے جعلی مقدمات بنا کر جیل میں بند کررکھا ہے۔ ان کے ساتھ ’’ناانصافی‘‘ ہورہی ہے اور وہ دنیا بھر میں حکومتوں کی مخالفت کرنے والوں کو جعلی مقدمات کی بدولت جیل میں رکھنے کے خلاف ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ایسے مقدمات میں بند کئے افراد جلد از جلد رہا کردئے جائیں۔ جس تناظر میں رچرڈ اپنے خیالات عمران خان کی حمایت میں بیان کرتا ہے وہ یقینا قابل ستائش ہیں۔ رچرڈ نے مگر اسرائیل کی جانب سے 7اکتوبر2023ء سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے لئے مسلسل جاری بمباری اور فوجی کارروائیوں کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی نہ تو پوسٹ کیا نہ ویسے کوئی بیان دیا۔ امید ہی کرسکتا ہوں کہ آمرانہ حکومتوں کی جانب سے ان کے ناقدوں کے خلاف بنائے ’’بے بنیاد مقدمات‘‘ کے خلاف ٹویٹر وغیرہ پر اپنے گرانقدر خیالات پوسٹ کرتے ہوئے وہ احتیاطاََ یہ بھی لکھ دیا کرے گا کہ اسرائیل کے علاوہ وہ ہر جابر ریاست وحکومت کے خلاف ہے۔ رچرڈ مگر بڑا جانور ہے اس کی مرضی -انڈا دے یا بچہ-
مجھے حیرانی ان ہم وطنوں پر ہورہی ہے جو اس امر پر خفا ہوگئے کہ رچرڈ کی تعیناتی کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے ایک روزنامے نے اسے ’’ہم جنس‘‘ پکارا۔ اسی باعث آج کے کالم کا آغاز کرتے ہوئے ’’انفرادی آزادی‘‘ کا تصور برجستہ بیان ہوگیا۔ عرض مجھے یہ کرنا تھی کہ رچرڈ کی ایک خاص تناظر میں جو ترجیحات ہیں انہیں امریکہ جیسے معاشروں میں ’’انفرادی آ زادی‘‘ شمار کرتے ہوئے نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں البتہ سماجی ہی نہیں بلکہ مذہبی اعتبار سے بھی رچرڈ کی ’’انفرادی آزادی‘‘ کے تحت اپنائی ترجیحات قابل مذمت تصور ہوں گی۔
تحریک انصاف اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ اس کے بانی وطن عزیز کو ’’ریاست مدینہ‘‘ کی صورت دینا چاہتے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ’’انفرادی آزادی‘‘ کے تحت اپنائی ترجیحات کے مطابق زندگی گزارتے ہوئے رچرڈ گرنیل ’’اْمت مسلمہ کے واحد ترجمان‘‘ پر ان دنوں نازل ہوئی مصیبتوں کے بارے میں کیوں پریشان ہے۔ یہ سوچتے ہوئے تھک جاتا ہوں تو دوبارہ یاد آجاتا ہے کہ رچرڈ لطیفے والا بڑا آدمی ہے۔ اس کی مرضی انڈا دے یا بچہ۔
دوسرے کسی موضوع کی جانب مگر سوشل میڈیا پر چھائے عاشقان عمران توجہ دینے کی مہلت ہی نہیں دیتے۔ رچرڈ کی تعیناتی کی خبردیتے ہوئے ایک پاکستانی اخبار نے اس کی ترجیحات کا ذکر کردیا تو عاشقان عمران نے اس خبر کی تصویر اتار کر رچرڈ کو بھجوادی۔ رچرڈ بھی ڈھیٹ ہڈی ہے اس نے اس خبر کو ٹیگ کرتے ہوئے دوبارہ مطالبہ کردیا کہ ’’عمران خان کو رہا کیا جائے‘‘۔
رچرڈ کی مذکورہ پوسٹ کو عاشقان عمران ہی نہیں ہمارے کئی سینئر،سنجیدہ اور مستند تصور ہوتے صحافی بھی اس انداز سے پیش کررہے ہیں کہ جیسے ’’ٹرمپ انتظامیہ‘‘ نے عمران خان کی جیل سے رہائی کا حکم صادر کردیا ہے۔ ہاتھ باندھتے ہوئے اپنے ’’سینئر، سنجیدہ اور مستند‘‘ ساتھیوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ’’ٹرمپ انتظامیہ‘‘ کی ترکیب 20جنوری 2025ء سے قبل استعمال کرنا مناسب نہیں۔ اس تاریخ تک امریکی حکومت ’’بائیڈن انتظامیہ‘‘ ہی کہلائے گی۔ اس کے آخری دنوں میں بھی خدانخواستہ امریکہ کو ایٹم بم چلانا پڑا تو اس کا ٹریگر بائیڈن کی انگلی ہی دبائے گی۔ 20جنوری 2025ء تک لہٰذا انتظار کرلیجئے۔ اس تاریخ کو حلف اٹھانے کے بعد ہی ٹرمپ رچرڈ گرنیل کو احکامات جاری کرے گا۔ احکامات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یاد رکھیئے گا کہ اسے ’’خصوصی سفیر‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔ ’’خصوصی سفیر‘‘ امریکی کابینہ کے رکن نہیں ہوتے۔ صدر سے براہ راست نامزد ہونے کے باوجود انہیں امریکی وزارت خارجہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ وزارت خارجہ کے لئے ٹرمپ نے مارکوروبیو کو نامزد کیا ہے۔ وہ اپنے تئیں ایک تگڑا شخص ہے اور اپنی وزارت میں دوسروں کی مداخلت برداشت نہیں کر پائے گا۔ مختصراََ سفرلمبا ہے۔ فقط رچرڈ کی نامزدگی سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت