لاہور(صباح نیوز)سپریم کورٹ کے سینئرترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ہم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، گزشتہ 7 سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا۔لاہور میں نجی یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام تیسری پاتھ ویز ٹو ڈو یلپمنٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کلائمٹ فنانس ہی کلائمٹ جسٹس ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ موسمیاتی ایمرجنسی کا پاکستان کو سامنا ہے، پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیاں اثر انداز ہو رہی ہیں، عدالتوں نے ہمیشہ موسمیاتی ایمرجنسی کے کیسز کو سنجیدہ لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوڈ سکیورٹی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، واٹر سکیورٹی سمیت دیگر عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اربن پلاننگ اور ایگریکلچرل پلاننگ پر بات کرنا ہو گی، کلائمیٹ جسٹس پر تحریک چلانا ہو گی۔سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ کیسز میں عدالتوں نے ہدایات جاری کیں لیکن گرانڈ پر کچھ نہیں ہوا، یہ دیکھا نہیں گیا کہ ریسورس ہے کہ نہیں، حکومت نے بھی اس کو فوکس نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کلائمٹ فنانس امید کی ایک کرن ہو گی، یہ لوگوں کو سکیورٹی دے گی، کلائمیٹ فنانس ہی کلائمیٹ جسٹس دے سکے گا، آئینی اعتبار سے بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کلائمیٹ فنانس کی طرف جانا ہو گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں موسمیاتی ایمرجنسی کے لیے مربوط حکمتِ عملی بنانا ہو گی، ہمارے ہاں ایڈمنسٹریشن کے مسائل ہیں، باکو میں حکومت نے اچھی کوشش کی، کلائمٹ ڈپلومیسی پر جلدی کام کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کے پاس ابھی لگتا ہے اتنے پیسے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2017 میں قانون بنا لیکن ابھی تک اتھارٹی نہیں بنی، ہو سکتا ہے جلد بن جائے، کلائمٹ فنڈ ابھی تک نہیں بنایا گیا، ایکٹ کے مطابق فنڈ بننا تھا، بجٹ میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے یہ ھی کہا کہ عدالتیں سمجھتی ہیں کہ کلائمٹ فنانس کو بنیادی حق سمجھنا ہو گا، یہ انسان کا بنیادی حق ہے، نیچر فنانس پر غور کرنا ہو گا تاکہ آلودگی اور بائیو ڈائیورسٹی پر بھی کام ہو سکے۔