کتاب میلے میں 2039 کی جھلکیاں…محمود شام


خون ناحق کسی سر زمین کو کبھی آرام سے سونے نہیں دیتا ہے۔

ایک اضطراب تو واہگہ سے گوادر تک ہے۔

اوپر سے یہ 26نومبر کی رات کے اندھیرے۔

ناصح بہت سے ہیں، چارہ ساز کوئی نہیں، غمگسار بھی صرف بیانیوں والے ۔

ایک نفسیاتی کرب ہے جس سے بڑے بوڑھے، مائیں، بیٹیاں، بیٹے، بھائی گزر رہے ہیں۔

اب تو سامعین نے حکمرانوں کی تقریریں سن کر تالیاں بجانا بھی چھوڑ دی ہیں۔

حاکموں کا اعتبار کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ بیٹھنے۔ دوپہر کے اکٹھے کھانے،اولادوں کے سوالات سننے اور تسلی بخش جوابات دینے کا دن۔ سوشل میڈیا نے اب ہر دن کو یوم حساب بنادیا ہے۔ موبائل اسکرین پر ہم سب۔ سیاستدان حکمران سرکاری عہدیدار کٹہرے میں کھڑے کرلیے جاتے ہیں۔ لمحے، ثانیے، پہر جرح کرتے ہیں۔ سورج غروب ہونے سے پہلے ہی طے ہوجاتا ہے کہ کس کی گواہی وقت کے مطابق تھی اور کس نے نرا جھوٹ بولا۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ وقت ثابت کرے گا کہ کون سچا ہے کون جھوٹا ہے۔ اس اسمارٹ موبائل نے تو روز کے روز ہی یہ ثابت کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ جو چالیں چلنے کے ماہر تھے، ان کی چالیں الٹی پڑ رہی ہیں۔ معاملات نفسیاتی جنگ، اعصابی آزمائشوں حتیٰ کہ مصنوعی ذہانت سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔

کتاب میلہ سجا ہوا ہے۔ جمعرات کی صبح سے میں ان پاکستانی بچوں بچیوں کو مختلف اسکولوں کے یونیفارموں میں دیکھ رہا ہوں۔ جنہوں نے 2039میں پاکستان کو سنبھالنا ہے۔ یہ غریب ہیں، متوسط طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ لیاری ندی کے اس طرف سے ہیں، جہاں محنت کش رہتے ہیں، شہر کو سنبھالنے والے رہتے ہیں۔ ایک روز بھی لیاری ندی کے اس طرف والی ندی پار کرکے گلشن اقبال، گلستان جوہر، پی ای سی ایچ ایس، ڈیفنس، کلفٹن نہ جائیں تو ان نام نہاد پوش، امیر آبادیوں کی سانس رک جائے۔ یہ امراء، رئوسا تو اٹھ کر ایک گلاس پانی بھی نہیں پی سکتے۔ اعلیٰ افسر اپنی میز پر بڑا پانی کا گلاس خود نہیں اٹھا سکتا۔ اس کیلئے بھی گھنٹی بجاتا ہے،چپراسی کو کہتا ہے گلاس اٹھا کر دے۔

کوئی بچہ اسکول یونیفارم میں جس اعتماد سے اسٹالوں پر پڑی کتاب کے ورق پلٹتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے خطے کی تقدیر پلٹ رہا ہے۔ یہ نسل آج سے اپنی عملی زندگی میں داخل ہونے تک کے دس پندرہ سال اگر اس اعتماد کے ساتھ گزار سکی تو یہ اس مملکت خداداد پر راج کرے گی۔ یہ دس پندرہ سال بڑی ابتلائوں، بے وفائیوں، المیوں، سودے بازیوں کے سال ہوں گے۔ یہ ندی کے اس پار والی نسلوں کو بہت کچھ سکھا دیں گے، یہ بھٹی سے گزریں گی مگر کندن بن جائیں گی۔

پچھلے پندرہ بیس سال میں کتنی بادشاہتیں ختم ہوئی ہیں، کتنی کمزور ہو گئی ہیں، کتنے ملک آزاد ہوئے ہیں۔ پھر یہ سوشل میڈیا، یو ٹیوب، ٹوئٹر، ٹک ٹاک، ریلز، وڈیوز، فیس بک۔ انہوں نے تو سفاک حکومتوں،مطلق العنان آمروں، متعصب حکمرانوں کی سخت گیری کو ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ ریاست کا دبدبہ خاک ہو گیا ہے۔ حکمرانوں کا طنطنہ کرچی کرچی ہو گیا۔ ان سے اقتدار نہیں چھنا ہے تخت پر وہی برا جمان ہیں۔ لیکن ان کا منہ سے نکلا ہوا حرف اب قانون نہیں بنتا۔ پہلے غاصبانہ قبضے چھڑانے کیلئے کتنے ملین مارچ کرنا پڑتے تھے۔ ریلیاں، جلسے جلوس، کتنے دن پہلے سے تیاریاں۔ بسیں، ویگنیں، کرائے پر لینی پڑتی تھیں۔ اب سب کچھ گھر بیٹھے ہو جاتا ہے۔ کتنے نوجوان اپنے گائوں، اپنے شہر میں بیٹھے ڈالر کمارہے ہیں، انٹرنیٹ ریاستی افسروں کی بڑی تعداد سے زیادہ طاقت ور ہوچکا ہے۔

ایکسپو سینٹر کی راہداریوں سے قطار باندھے یہ بچیاں بچے جو اپنی ٹیچر کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ علم کی روشنی جذب کررہے ہیں، حرف سے آشنا ہورہے ہیں، یہ دس پندرہ سال بعد ہمارے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، سیکرٹریٹ، بیرکیں، سفارت خانے سنبھالیں گے۔ اس وقت تک رابطہ ٹیکنالوجی بہت آگے بڑھ چکی ہوگی۔ ہم نے تو مایوسیوں ،مافیائوں کے خوف، لسانی نسلی تعصبات کی آغوش میں پرورش پائی ہے۔ اس نسل کی یہ ڈیڑھ دہائی۔ ایلگو روم، ہیش ٹیگ، شیرنگ، وائرل، رسپانس ٹائم، اسٹوری، ریلز، برانڈنگ، کرائوڈ سورسنگ، سی پی ایم، ڈارک پوسٹ، ڈارک سوشل، ریٹنگ، مانیٹرائزنگ، اسٹارز، لنک بلڈنگ، آٹو منیشن اور نہ جانے کتنی آنے والی نئی اصطلاحات میں گزرے گی۔ ہمارے ہاتھ تو پریس ایڈوائس روک لیتی تھی۔ قبل از اشاعت سنسر، نیوز ایڈیٹر یا ڈائریکٹر نیوز حائل ہوجاتے تھے۔ یہ نسل بادشاہ ہے۔ بے حساب اختیارات، اسکو کوئی خوف نہیں ہے۔ کی پیڈ ہے اور اسکرین، جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ غالب یاد آتے ہیں۔

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

ان نسلوں کو ڈی چوک میں جانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس وقت بھی سرداریاں بوڑھی ہو رہی ہیں۔ نوجوان فضول رسموں سے نجات پارہے ہیں۔ نئے دَور کی معاشی ضرورتیں بہت سی رسموں پابندیوں کو خود نگل گئی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں جو جمہوریت کا ستون ہوتی ہیں۔ موروثی گرفت میں جاکر کمزور ہوگئی ہیں۔ پارٹیوں کے سربراہ پیرانہ سالی میں فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں۔ پارٹی بیٹے کے سپرد کریں یا بیٹی کے۔ طاقت کے مراکزِ حقیقی میں ابھی تک موروثیت نہیں آئی ہے۔ چین کی قیادت نے بھی ثابت کردیا ہے کہ قومیں جمہوری ڈھانچوں، انتخابی عمل کے بغیر بھی مضبوط معیشت اختیار کرسکتی ہیں۔ یہ نسل جو اس وقت کتاب میلے میں ہمارے سامنے دمکتے چہروں کے ساتھ گھوم پھر رہی ہے۔ یہ برطانیہ کی جمہوریت نہیں، یہ چین کی ترقی کے مناظر دیکھ رہی ہے۔ یہ آن لائن کاروبار کی سمت جائے گی۔ اسے حکومتوں سے لائسنس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

یہ نسل سوچ میں بہت دو ٹوک سیاسی، سماجی، عمرانی شعور میں بہت روشن ہوگی۔ یہ دیکھ رہی ہے کہ شام کا مطلق العنان سربراہ بشار الاسد۔ کس بے بسی سے بھاگا ہے۔ جنوبی کوریا میں مارشل لا ٹینکوں سے دبدبہ نہیں بٹھاسکا۔ آزاد کشمیر میں خلق خدا نے متحد ہوکر کیسے اپنے مطالبات منوالیے ہیں۔ وہاں سارے رابطے سوشل میڈیا سے ہی ہوئے ہیں۔ میڈیا نے وہاں بھی عوام کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اخبار ٹی وی چینل خوف زدہ ہیں کہ لوگ ہمارے بغیر بھی ایک دوسرے سے رابطے میں آجاتے ہیں۔میں تو اپنے اسٹال پر بیٹھا اپنے جانے کے بعد آنے والے وقتوں کے تصور میں ہوں۔ یہ نسلیں جوان ہوں گی، ان کی توانائیاں واہگہ سے گوادر تک کی سر زمین کو اضطراب سے نکال چکی ہوں گی۔ جاگیر داریاں دم توڑ چکی ہیں، قبائلی گرفت سر گھٹنوں میں اور ٹانگیں قبروں میں لٹکائے ہو گی۔ سب ادارے،شعبے اپنی اپنی حدود میں مملکت کی تعمیر میں مصروف ہوں گے۔ رئوسا، امراء، صنعت کاروں کی اپنی اولادیں اجارہ داری سے توبہ کرچکی ہوں گی۔

ٹیکنالوجی سب کچھ بدل رہی ہے۔ طرز کہن پر اڑنا مشکل ہو رہا ہے۔ آئین نو ہی اب دستور زمانہ ہے۔ اس وقت قوموں کی زندگی میں منزل کٹھن ضرور ہے۔ لیکن یہ نسل جب باگ ڈور سنبھالے گی تو یہ کٹھن منزل سَر ہو چکی ہو گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ